اس بار کوئی عیب کوئی عیب نہیں تھا
از، تسنیم عابدی
حالات و واقعات کا تسلسل، انسان کے اعصاب کو شدید متاثر کرتا ہے الیکٹرانک میڈیا نے شاید اسی وجہ سے حادثات اور سانحوں کو گلیمرائز کر دیا ہے جب کوئی واقعہ پیش آ جائے تو سب سے پہلے کے چکر میں تصدیق کے بغیر بس بد حواس ہوکر نشر کردینا ہی اب قابلِ ستائش ہوچکا ہے پہلے شام کے اخبار جب شائع ہوتے تو ہم اخبار بینی کے شوقینوں کو اماں ہرگز وہ اخبار خریدنے نہیں دیتیں ہم اکثر بس کی کھڑکی سے للچائی ہوئی نظروں سے اخبار کی شہ سرخیوں کو تاڑتے اور اخبار والا آواز لگا رہا ہوتا آج کی تازہ خبر “ایک بھابی اپنے دیور کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی۔”
اماں کی کوشش ہوتی کہ بس کے شور میں اخبار والے کی آواز دب جائے مگر پیچھےبیٹھے ہوئے ٹھرکی جیب سے ریزگاری کو گنتے اور اخبار کو ایسے خریدتے جیسے اگر اس خبر کو نہیں پڑھا تو شاید خدا انہیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔
ہم جو اپنے زمانے کے دبے دبے باغی تھے، اماں سے استفسار کرتے کہ اماں روزانہ ڈانٹ ڈانٹ کر اخبار جنگ پڑھواتی ہیں مگر اس مصالحہ دار اخبار پر پابندی لگاتی ہیں وہ اپنی چودہ سالہ بیٹی سے بس اتنا کہتیں بیٹا سنسنی خیز خبریں خبریں نہیں ہوتیں یہ تو اخبار بیچنے کا ہتھیار ہوتی ہیں۔
ہم منھ دیکھ کر رہ جاتے اور بس پیر کالونی کے آخری اسٹاپ سے احمد کی دکان تک کا فاصلہ طے کر لیتی۔ آج بھی زندگی کی بس کسی سنسنی خیز واقعے پر رکتی نہیں بلکہ اپنے حصے کے فاصلے طے کر رہی ہے۔ اسی لیے کسی کے گھر طلاق کا مسئلہ ہو ساس بہو میں جھگڑا ہو یا کسی دوشیزہ کی محبت کا چکر ہو بس ایسے مصالحہ دار خبروں سے ہماری تیزابیت بڑھ جاتی ہے۔ اسی لیے روکھے پھیکے موضوعات پڑھنے کی طرف طبیعت مائل رہتی ہے۔
خاندان میں جب سازشوں کی دیگیں تیار ہو رہی ہوتی ہیں اور ہم کو نمک چکھنے کے لیے شامل کیا جاتا ہے تو ہم کھانے کا نام پوچھ کر سارا مزا کرکرا کر دیتے ہیں جو ہمیں جانتا ہے وہ مسکرا دیتا ہے اور جو جانتا بھی ہے اور جلتا بھی ہے وہ یہ کہہ کر دانت پیستے ہوئے اگے بڑھ جاتا ہے کہ اس کے تجاہلِ عارفانہ کے فریب میں مت آنا۔
مگر بھلا ہو آج کے الیکٹرانک میڈیا کا کہ تقریباً ہر چینل ہی سنسنی پھیلانے کا اڈہ بن چکا ہے بے چارے غریب رپورٹر اپنی جان جوکھم میں ڈال کر خبر نکال کر لاتے ہیں اور مالکان اور اینکر حضرات اسے ایسا زرد رنگتے ہیں کہ سارا ماحول پیلا بلکہ یرقان زدہ بن جاتا ہے۔
ہر چینل کا اپنا ایجنڈا ہر چینل کے اپنے اینکر اور ہر چینل کے اپنے اخبار مطلب یہ کہ اوڑھنا بچھونا سب کچھ زرد صحافت کے زیرِ سایہ اس لیے ہر کوئی ہتھیلی پر سرسوں جما رہا ہے۔
ان تمام پہلوؤں کے باوجود ایک مثبت پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ اب عیب کو چھپانا ذرا مشکل ہو چکا ہےالیکٹرانک میڈیا بلکہ سوشل میڈیا نے تو انسانوں کی نظریاتی، اخلاقی اور سماجی تقسیم کو بہت واضع کر دیا ہے لبرل، شدت پسند، اشرافیہ سب کے پول کھل جاتے ہیں۔
اب قصور کی معصوم مقتول زینب کا واقعہ ہی دیکھ لیں ایسا لگا کہ تقریباً پورا سماج اس گھناؤنے کام میں مبتلا ہے پھر کسی نام نہاد روشن خیال نے کہا کہ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ اس کے والدین نے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا اور بچی کو چھوڑ کر عمرہ کرنے چلے گئے۔
والد صاحب نے کہا کہ جے آئی ٹی کا سربراہ اگر کوئی قادیانی ہے تو قبول نہیں۔ ایک مجمع کی اواز آئی کہ قاتل کو چوراہے پرلٹکا دو۔ دوسرے گروہ نے کہا کہ نفسیاتی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے چند اینکر چلائے کہ یہ بین الاقوامی پورن گرافی کا معاملہ ہے۔
مجمع ایک دوسرے سے الجھ پڑا دست و گریبان ہوگیا اصل مسئلہ گمشدہ لوگوں کی طرح کھو گیا کیونکہ ہر کسی کواپنی پڑی تھی بہت ہی کم لوگ آٹے میں نمک کے برابر کچھ ذی شعور نظر آئے جن کا کہنا تھا کہ ہر کی بات میں آدھا سچ ہے اور آدھا سچ کھو گیا ہے۔
تعین سرحدوں کا کون کرتا
یہاں ہر مسئلہ حد سے سوا ہے
خدا را اپنے اپنے شعبہ ہائے زندگی میں مہارت پیدا کیجیے دوسروں کے عیب نکالنے سے اپ ہنرمند نہیں ہو جائیں گے۔ دین داری کے مظاہرے کے لیے کسی لال یا کالی مسجد سے وفا داری کا اعلان مت کریں اپنے معاشرے میں جو منافقانہ سوچ ہے اسے مغرب پر مت تھوپیے جنسی بے راہ روی ہمارے معاشرے میں بھی اتنی ہی عام رہی ہے جتنی دوسرے معاشروں میں عام ہے اسی لیے یتو منٹو اور عصمت کو آئینہ دکھانا پڑا۔
خبطِ عظمت سے نکلنے مگر ایک منٹ رکیے یہ سب کچھ اگر بہت مشکل لگےتو کم از کم اچھے الفاظ اور شائستہ لہجے کو ہی اپنا لیں ہم جیسوں کی سات پشتوں پر احسان ہوگا۔