شالہ کوئی وزیراعظم نہ تھیوے
(امتیاز عالم)
جی ہاں! احتساب اور کڑا احتساب۔ قوم و ملک اور عوام کی خون پسینے کی کمائی کی لوٹ مار کی ایک ایک پائی کا حساب اور ہر زخم کا حساب۔ ہم خاک نشینوں اور قلم کاروں کو کیا ڈر اور اُن محنت کشوں کو کیا خوف جن کے پاس لٹنے کے لیے دو ہاتھوں کی مشقت کے سوا بچا کیا ہے۔ کاش احتساب ہوتا، اس ملک کی تمام لٹیری اشرافیہ، غاصب آمروں اور کالے دھن سے بنے محلات میں رہنے والے سبھی باسیوں کا!
لیکن وہ صبح جانے کب طلوع ہوگی جس کی چاہ لیے ہم زندگی کی آخری ہچکیاں لے رہے ہیں۔ مگر، وقفے وقفے سے اگر احتساب کی تان ٹوٹتی بھی ہے تو وزیراعظم پر! اور احتساب تو شروع ہونا ہی چاہیے اوپر سے، اور عوام کے منتخب وزیراعظم کے سوا اس مشقِ احتساب کا کون زیادہ حقدار ہو سکتا ہے؟
بالکل ٹھیک کہا! لیکن مملکتِ خداداد میں شروع ہی سے احتساب کی تلوار وزیراعظم سے شروع ہو کر وزیراعظم پر ہی کیوں ختم ہوتی رہی ہے۔ کبھی فیلڈ مارشل ایوب خان سے جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور چشمِ بددُور جنرل مشرف تک کبھی کسی کے احتساب کی کبھی اُن کے اپنے ادارے یا پھر کسی معزز جج، معزز پارلیمنٹ اور محتسب نے جرأت کی؟
کبھی جسٹس منیر اور جسٹس مولوی مشتاق، جسٹس نسیم حسن شاہ سے لے کر جسٹس افتخار چوہدری تک کسی بھی جج کے گناہوں کا کہیں ازسرِنو جائزہ لیا گیا ہو؟
اور یہ جو ہماری لحیم شہیم اشرافیہ جن کی دولت زقندیں لگاتی آگے بڑھتی ہی چلی جاتی ہے، اس کے حساب کتاب کی بھی کبھی کسی کو فکر ہوئی اور فکر ہوئی بھی ہے تو اُن کی دولت کی فراوانی میں حائل ’’رکاوٹوں‘‘ کو دور کرنے اور ’’کاروباری‘‘ سہولتیں فراہم کرنے یا یہ کہیے استحصال، ٹیکسوں کی چھوٹ اور کالے دھن کو سفید کرنے کی سکیموں کے۔
لیاقت علی خان کے گولی سے احتساب سے شروع ہو کر، مسکین خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہرہ وردی کی برخاستگی تک، ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل، محمد خان جونیجو کی برطرفی سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت تک، یہ سب وزرائے اعظم ہی تھے جو احتساب کی مختلف صورتوں کی نذر ہوئے۔
جی ہاں! اب باری ہے مقتدرہ کے اپنے پرانے لاڈلے نواز شریف کی جسے بھٹو کی روایت کو مٹانے کے لیے کبھی کھڑا کیا گیا تھا۔ لیکن یہ وزارتِ عظمیٰ کی گدی ہی ہے، جو کسی کو بھی بخشتے عوام ہی ہیں، لیکن ریاست کے بھاری ستونوں کو کبھی بھاتی نہیں۔
بھئی! ہمیں مسمی نواز شریف نامی شریف خاندان کے چشم و چراغ کی ذات سے غرض نہیں، وہ جانے اور اُن کے اعمال۔ ہمیں تو اس تاریخی طور پر مظلوم وزارتِ عظمیٰ کی فکر ہے جو ہر بار تختِ ستم بنتی ہے۔ اور صرف اس لیے کہ بورژوا جمہوریت میں بھی وہ عوام کا منتخب نمائندہ بن کر عوام کی حکمرانی کا مظہر بنتا ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو اقتدار کی دائمی قوتوں سے اُس کا ٹکراؤ ہو کر رہتا ہے۔
ویسے مجھ جیسے سماج وادی کو اس سے بھی کیا غرض کہ اس گدی پہ غریبوں، محنت کشوں اور مظلوم عوام کا نمائندہ کب بیٹھا ہے! حکمران طبقوں کی جنگ میں ہم کیوں دبلے ہوں۔ لیکن جب جمہوریت کی چھٹی کرائی جاتی ہے تو کوڑے غریب جمہوری کارکنوں اور دانشوروں ہی کو پڑتے ہیں۔ اور ایسا ہم بہت بار بھگت چکے۔
چلیے، ہم آپ کی اس گھسی پٹی توجیہ کو مان لیتے ہیں (جو ہم بار بار ماضی میں سُن اور دیکھ چکے ہیں) کہ احتساب کہیں سے شروع تو ہو اور کیوں نہ اُوپر سے! اور ظاہر ہے وزیراعظم کے سوا اس سے اچھا اُمیدوارِ احتساب کون ہو سکتا ہے۔
اب ہمیں بتایا یہی جاتا رہا ہے اور عام گمان بھی یہی ہے کہ یہ اتنی سرعت سے بڑھتی، پھیلتی پھولتی شریف ایمپائر کے پیچھے یقیناً بھاری بھر کم سرکاری منصوبوں اور قومی خزانے میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں اربوں روپے کی کرپشن کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔
لیکن اس کی بھی عجب تاریخ ہے۔ ایک چھوٹی سی بھٹی سے عظیم اتفاق فاؤنڈری تک (جس میں ہزاروں مزدور قدرِ زائد پیدا کرتے تھے) ہاؤس آف شریف نے ترقی کی منزلیں ویسے طے کیں جیسے ریاستی سرپرستی میں دیگر مشہور بائیس خاندانوں نے۔ اور اُن کی ترقی کا راز جب آپ کسی بھی چیمبر آف کامرس میں جا کر معلوم کریں گے تو آپ کو یہی معلوم ہوگا کہ شریف ماڈل سبھی کے لیے مشعلِ راہ نہیں تو قابلِ ستائش ضرور ہے۔
اور جب بھٹو صاحب کے سوشلزم کی آفت ٹوٹی اور ہاؤس آف شریف زمین پر آ رہا تو پھر امارات کے شیوخ سے لے کر بنکوں نے اپنی دولت کے دروازے میاں شریف پر کھول دیے جو ’’مٹی کو سونے میں بدلنے کا گُر‘‘ جانتے تھے۔ اور جب جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو پھانسی دی اور شریف خاندان کے کارخانے واپس کیے تو ریاستی اداروں، اور بنکوں نے میاں شریف پر پھر سے مہربانیوں کے دروازے کھول دیے اور پھر سے اور بھی بڑی بزنس ایمپائر کھڑی ہو گئی۔
میاں شریف کی ترقی کے ماڈل کو اب ضرورت تھی سیاسی طاقت کی اور وہ بھی جنرل جیلانی اور جنرل ضیاء الحق نے فراہم کر دی اور یوں ’’تیز تر معاشی ترقی اور سرعت اقتدار‘‘ کا کامیاب ’’شریف ماڈل‘‘ وجود میں آیا جو بھٹو کے ماڈل کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا۔ کھڑا تو یہ ماڈل ہوا ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور نوکرشاہی کی سرپرستی میں، لیکن جلد ہی یہ ماڈل اپنی طاقت آپ بن گیا اور پنجابی بورژوازی کا تنومند رہنما بھی۔
اس کے راستے میں اب اس کے ہی خالق آ گئے اور جن سے اب خلاصی ضروری تھی۔ جس کا اظہار صدر غلام اسحاق خان سے وزیراعظم نواز شریف کے ٹکراؤ سے ہوا اور دونوں کو جانا پڑا۔ پھر جب نواز شریف دوبارہ وزیراعظم بنے تو اُن کی ترقی کے وژن اور اختیارات کے استعمال میں رکاوٹ بنے بھی تو ایک کے بعد ایک آرمی چیف۔ آخر جب نواز شریف اور واجپائی نے لاہور سے امن کی راہ نکالی تو کارگل کا دھماکہ کر دیا گیا اور وزیراعظم کو ہتھکڑی لگی، عمر قید ہوئی اور پھر طویل جلاوطنی۔
جب تیسری بار نواز شریف وزیراعظم بنے تو وہ بی بی شہید کے بعد سب سے باآ واز اور بڑے لیڈر بن کر سامنے آئے۔ مگر ابھی اقتدار ملا ہی تھا تو ’’دھاندلی‘‘ کا ہنگامہ بپا کرایا گیا۔ وزیراعظم کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا جاتا رہا، لیکن وہ ڈٹے رہے اور اُنھوں نے پارلیمنٹ کی چھت تلے پناہ لی اور دھرنا کرانے والوں کی سازش ناکام ہوئی۔ ابھی وہ سنبھلے ہی تھے اور اپنی ترقی کے مخصوص ماڈل پہ رواں دواں کہ پھر ایک اور آسمانی گولا آیا اور وہ تھا پانامہ کے انکشافات۔
پانامہ کا مقدمہ شروع ہوا، سپریم کورٹ نے 13 سوالات پر JIT بنائی اور اتنی طاقتور کہ سارے ادارے اس کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے۔ دس جلدوں پر مبنی جلی لفظوں میں لکھی شہادتوں کے انبار جمع کر دیے گئے۔ بات پانامہ کے انکشافات میں چھپی آف شور کمپنیوں سے شروع ہو کر ختم ہوئی بھی تو امارت میں اقامت کے لیے اقامہ کی جھوٹی سچی پرچی پر۔ JIT ایسی شہادتیں دکھا پائی جس سے ’’ناقابلِ تردید شہادتیں‘‘ سامنے آئیں اور نہ مسؤل علیہان کے وکلا سارا کچھ کھول رکھ دینے کو تیار تھے۔
اس سارے معاملے میں ایسی سیاسی دھما چوکڑی مچی کہ کیا سچ ہے کیا جھوٹ کسی کو خبر نہیں۔ ایک سیاستدان نے اپنے سب سے بڑے حریف سیاستدان کے خلاف کیس کیا بھی تو اس لیے کہ اُسے بھی خفیہ ہاتھوں کی مدد سے یا پھر قانون کے ہاتھوں سے راہ سے ہٹایا جائے اور وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کا خواب پورا ہو۔ عدالت کے باہر اور میڈیا پر صبح شام ایسا طوفانِ بد تمیزی مچا کہ کسی کی پگڑی بچی نہ کسی کا سچ، اور نہ کسی کا جھوٹ ثابت ہوا۔
اب سبھی کا امتحان ہے۔ عدالت کا بھی جو آئین و قانون اور انصاف کے تقاضوں کی پابند ہے یا پھر ’’ناقابلِ تردید شہادتوں‘‘ کے انتظار میں۔ انصاف ہو بھی اور دِکھتا بھی نظر آئے۔ وگرنہ ماضی کے عدالتی تاریخی فیصلوں کا حشر ہم بار ہا دیکھ چکے ہیں۔ ملزم کو انصاف کے تمام مراحل کے مواقع فراہم کیے بنا انصاف کا قتل تو ہو سکتا ہے، انصاف نہیں۔
اب ایک اور عوام کے منتخب وزیراعظم کی قسمت عوام نہیں عدالت کے ہاتھ میں ہے۔ جبکہ سیاست اور تاریخ میں فیصلے عوام ہی کرتے ہیں، بھلے اُس کے نتائج وہ نکلیں جو اُنھوں نے سوچے بھی نہ تھے۔ کاش! کوئی ’’صادق و امین‘‘ وزیراعظم بھی اسلامی جمہوریہ کو نصیب ہوتا۔
اگر کوئی ہوتا بھی تو اس کا اس لوٹ کھسُوٹ کے نظام، اس کے نظریاتی دعویداروں اور مسلح محافظوں کے ہاتھوں کیا حشر ہوتا؟ ہمیں تو جمہوری عبور اور عوام کی حکمرانی سے غرض ہے جو بالآخر اقتدارِ اعلیٰ کی اصل مالک ہو۔ اور وزیراعظم کی فکر صرف اسی لیے کہ وہ عوامی مینڈیٹ کا حامل ہوتا ہے، خواہ ہمیں اچھا لگے، یا نہ لگے۔
شالہ (بیچارہ) کوئی وزیراعظم نہ تھیوے (ہو)!