کون لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں
از، آفاق سید
کہا جاتا ہے کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کسی نے کچھ نہیں سیکھا۔ بس یوں ہے کہ صدیوں سے کیلنڈر کے ہندسے تو بدلتے چلے آ رہے ہیں مگروہی غلطیاں، وہی ناہمواریاں، وہی خون خرابہ، اور وہی نا انصافیاں روپ بدل بدل کر سامنے آتی رہی ہیں۔ کبھی دنیا کے اِس کونے پرتو کبھی اْس کونے پر، کبھی جغرافیے کے اِس نقطے پر تو کبھی اْس نقطے پر۔ مولانا عبدالستار ایدھی نے ایک بار کہا کہ تاریخ میں دو قومیں آباد رہی ہیں: ایک ظالم اور ایک مظلوم۔ شاید یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ تاریخ میں دو قومیں ہر دور میں آباد رہی ہیں: ایک علم دوست اور ایک علم دشمن۔ علم دشمن، ظالم قوم کا روپ دھار لیتے ہیں اور علم دوست، مظلومیت کی چکی میں پستے رہ جاتے ہیں۔
تاریخ کا وہ منظر یاد کیجئے جب منگولوں نے بغداد پر یلغارکی تو علم کے پیش بہا خزانے ’’بیت الحکمہ‘‘ کو مسمار کردیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کیسے ابن تیمیہ کی کتب جلا دینے اور کاغذ اور قلم چھین لینے کے بعد انہیں قید میں پھینک دیا گیا۔ کون نہیں جانتا کہ الکندی کے ذاتی کتب خانے کو ضبط کرنے کے بعد سرِ عام پچاس کوڑوں کی سزا دی گئی۔ الرازی کو سزا کے طور پر اس کے سر پر اس کی اپنی کتاب اس زور سے ماری گئی کہ اس کی بینائی چلی گئی۔ ابن سینا کی کتب پر پابندی لگا دی گئی اور اس کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے گئے۔ ابن خلدون کو بدعتی قرار دیا گیا، اس کی قبر کھود کر مسمار کرنے اور اس کی کتابیں جلادینے کی تجویز پیش کی گئی۔ ابن رشد کو جلا وطن کیا گیا اور ان کی کتب قرطبہ چوک میں نذر آتش کی گئیں۔۔۔۔ اسی طرح سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ ارشمیدس کو رومن سپاہی نے قتل کر دیا۔ رومن کیتھولک کلیسا نے سائنسدانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ گلیلیو کو زندان میں پھینک دیا گیا۔ جورڈانو برنو کو زندہ جلا کر مار ڈالا گیا۔
اگرچہ یہ سب صدیوں پرانی باتیں ہیں اور انسانی تہذیب نے ان برسوں میں کافی ترقی کر لی ہے مگر افسوس کہ ہمارے معاشرے میں علم دشمنی کی روایت آج بھی ویسے ہی جاری ہے۔ آئیے اس کی ایک مختصر سی جھلک دیکھ لیتے ہیں۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ پاکستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ سائنسدان پروفیسر عبدالسلام کو ان کے اپنے ملک میں کیسے رسوا کیا گیا۔ پاکستان کے بہترین دانشور اقبال احمد کو خلدونیہ یونی ورسٹی کے پراجیکٹ کو مکمل نہیں کرنے دیا گیا۔ زیادہ پرانی بات نہیں کہ متحمل مزاج اسکالر جاوید احمد غامدی کو قتل کی دھمیکوں کے بعد ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ یونی ورسٹی آف سوات کے وائس چانسلر اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر محمد فاروق ملک کو ان کے کلینک میں طالبان نے قتل کر دیا۔ امریکہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملک کی خدمت کا جذبہ لے کر آنے والے جنید حفیظ کو ان کی ترقی پسند سوچ کے جرم میں جھوٹے مقدمے میں گرفتار کرا دیا گیا اور ان کے وکیل راشد رحمان کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت بیرون ملک سے پاکستان آنے والے ڈاکٹر مہدی علی قمر کو مذہبی اختلافات کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ ملک کی دوسری نوبل انعام یافتہ شخصیت ملالہ یوسفزئی کی کتاب پر غیر ضروری اعتراضات کئے گئے اور انہیں مذہبی رنگ دے کر اس کم سن لڑکی کی زندگی کو مزید خطرے میں ڈال دیا گیا۔
قطع نظر اس کے کہ کیوں ہر دور میں سوال کرنے پر یا نئی سوچ دینے پر یا اپنا ذہن استعمال کرنے پر اس قدر شدید رد عمل سامنے آتا ہے، ایک بات تو واضح ہے کہ کوئی ظلم، کوئی تشدد، کوئی نفرت، کوئی قانون انسانی تجسس اورسوال کے وجود کو ختم نہیں کر سکتا۔ جبر کے تمام تر ہتھکنڈے ماضی میں بھی ناکام ٹھہرے اور حال میں بھی ایسا ہی ہے۔ جہاں کسی زمانے میں چھاپہ خانوں (پرنٹنگ پریس) پر پابندی تھی، وہاں اب ہر برس ہزاروں کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔ اسی طرح وہ جو لاؤڈ اسپیکر میں شیطان کے بولنے کا فتویٰ دیتے تھے، اب اسی لاؤڈ اسپیکر پر تبلیغ کر رہے ہیں۔ ٹرین پر سفر کرنا حرام قرار دینے والے خود ہوائی جہازوں میں یورپ آ جا رہے ہیں۔ تصویر کو حرام قرار دینے والے اپنے ٹی وی چینلز پر درس قرآن دے رہے ہیں وغیرہ۔ ان مثالوں سے واضح ہے کہ زمانہ ایک ایسی چھلنی کی طرح ہے جو کثیف سوچوں کو چھان کر الگ کر مارتا ہے۔
اس لمبی تمہید کا مقصد حال ہی میں ہونے والے کچھ واقعات ہیں جن سے علم اور سوال دشمنی کی روایت کا تسلسل اجاگر ہوتا ہے۔
کچھ دنوں پہلے معروف اداکار اور میزبان حمزہ علی عباسی نے رمضان کے ایک پروگرام میں ایک سوال کیا کر لیا، اس کے اگلے روز مولانا کوکب نورانی نے لائیو ٹی وی پروگرام میں’ غیرت مند‘ مسلمانوں کو اس کے قتل پر اکسانا شروع کر دیا۔ حمزہ کا قصور یہ تھا کہ اس نے ایک ایسی اقلیتی جماعت کے بحیثیت پاکستانی زندہ رہنے کے حق کی بات کر دی، جن کی زندگیوں کی یہاں کے شہریوں اور ریاست کی نظر میں کوئی وقعت نہیں۔ الٹا ان کا سماجی مقاطع اور قتل ثواب کا موجب سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا حمزہ نے ان بارودی سرنگوں پر قدم رکھ دیا جس کے نتیجے میں ایسا ہونا حیرانی کی بات نہیں کہ اسے بھی قتل کی دھمکیاں دی جائیں۔ کیا ایک انسانی جان کی یہی قیمت رہ گئی ہے کہ اسے محض ایک سوال کرنے کے نتیجے میں ختم کر دینے کی دھمکیاں دی جائیں؟
نفرت کا یہ قاعدہ ہمارے ہاں نہ صرف رائج ہے بلکہ اسے پورے جوش و خروش سے پھیلایا جا رہا ہے۔ اس کی ایک نمایاں مثال پاکستانی میڈیا میں اوریا مقبول جان صاحب کی موجودگی ہے۔ آپ کا ٹریک ریکارڈ حقائق مسخ کرنے، مبالغہ آرائی اور اس کے نتیجے میں دوسروں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے سے عبارت ہے۔ مثال کے طور پر آپ ماضی میں نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کی کتاب ’آئی ایم ملالہ‘ کے خلاف جھوٹ پر مبنی کمپین کے بانی رہے ہیں۔ آپ نے اس نہتی لڑکی کو توہین مذہب کے جھوٹے الزام میں فریم کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح آپ مشرق وسطیٰ میں برسر پیکار جہادیوں اور داعش کو کھلم کھلا سپورٹ کر چکے ہیں اور انہیں ڈھکے چھپے الفاظ میں امام مہدی کے سپاہی تک قرار دے چکے ہیں اور لوگوں کو ان کی مدد کو شام جانے کی ترغیب دے چکے ہیں۔ آپ القاعدہ اور طالبان کے پر زور حامی ہیں اور اسامہ بن لادن کو بڑے فخر سے شہید قرار دیتے ہیں۔ کالعدم حزب التحریر کے لئے حمایت کے جذبات رکھتے ہیں۔ آپ پاکستان کے آئین کی کسی شق پر سوال اٹھانے کو غداری سے تعبیر کرتے ہیں، یہ اور بات کہ خود جمہوریت کے سخت مخالفین میں سے ایک ہیں اور جمہوری نطام کے خلاف کالمز لکھتے ہوئے انہیں آئین کے تقدیس کا خیال نہیں رہتا۔ حیرانی کی بات ہے کہ نام نہاد قومی ایکشن پلان کی موجودگی میں اوریا مقبول جان صاحب پورے طمطراق سے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی حمایت کرتے پھر رہے ہیں اور انہیں پورے چاؤ سے میڈیا پر لیا جاتا ہے۔
ابھی کچھ ہی دن پہلے اوریا مقبول جان صاحب نے نیو چینل کے بیس جون کے پروگرام ’حرف راز‘ میں سوشل میڈیا کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے سیکولر لکھاریوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے بنگلہ دیش کا حوالہ دیا جہاں پچھلے کچھ عرصے میں بہت سے بلاگرز کا قتل ہوا ہے۔ گویا آپ نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ پاکستان میں ایسے لکھنے والوں کا ایسا انجام ہوسکتا ہے (یا ہونا چاہیئے)۔ اگلے روز، یعنی اکیس جون کے پروگرام میں اسی موضوع پر بات آگے بڑھاتے ہوئے اوریا مقبول جان صاحب نے پاکستان میں بسنے والے ملحدین کو آئین کا باغی اور توہین مذہب کا مرتکب قرار دیا۔ اس عمل کی سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ ان پر تنقید کی آڑ میں اوریا مقبول نے پاکستان کے روشن خیال اور ترقی پسند یعنی پراگریسو دانشوروں اور لکھاریوں پر ملحد ہونے اور پاکستان اور اسلام مخالف ہونے کا الزام عائد کر کے ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ایسا نہیں کہ اوریا مقبول جان صاحب نے کوئی عمومی بات کی ہو۔ اس کے برعکس آپ نے اپنے الزامات کے ثبوت کے طور پرٹی وی اسکرین پر کچھ لکھاریوں کے نام اور تحریریں بھی دکھائیں۔ ان میں فرنود عالم، اقدس طلحہ سندھیلا، کنور خلدون شاہد اور معروف دانشور وجاہت مسعود شامل تھے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جو تحریریں دکھائی گئیں وہ سب کی سب وجاہت مسعود کے آن لائن میگزین ’ہم سب‘ کی تھیں جو اس وقت انٹرنیٹ پر اردو لکھاریوں کے لئے سب سے معیاری اور متوازن پلیٹ فارم ہے اور جہاں دائیں اور بائیں بازو، دونوں کے نمائندگان کو اپنی رائے کے اظہار کا برابر موقع دیا جاتا ہے۔ جن لکھاریوں کی تحریریں دکھائی گئیں، وہ سب یقینی طور پر مسلمان اور پاکستان کے خیر خواہ ہیں۔ انہیں ملحدین قرار دینا اور اسلام اور پاکستان کا باغی کہنا صریحاََ نا انصافی اور ان کا خون بہانے کی سازش دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ پروگرام میں فون کال پر بیرون ملک سے ایک پاکستانی بلاگر کو بھی لیا گیا۔ اوریا مقبول سے علمی اختلاف کی پاداش میں اکیس جون کے پروگرام میں ان کی کال کا کلپ چلانے کے فوری بعد قرآن پاک کی ایک آیت چلا کر جس میں اللہ تعالیٰ نے خفگی کا اظہار کیا ہے، یہ تاثر دیا کہ گویا اس آیت کا مخاطب وہ بلاگر اور’ ہم سب‘ کے دوسرے لکھاری ہیں جن کا تذکرہ ہم پہلے کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اس پروگرام میں ایک خاتون کا ذکر بھی کئی بار آیا جن پر حال ہی میں سوشل میڈیا پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا ہے۔ گویا اس طرح اوریا مقبول جان صاحب کے پروگرام میں یک طرفہ طور پر چھ افراد کا باقاعدہ نام ظاہر کر کے اور انہیں ملحدین اور اسلام و پاکستان دشمن ظاہر کر کے اپنے سننے والوں کو ان کی جان اور عزت و آبرو پر حملہ کرنے کو اکسایا گیا۔ اس کے علاوہ اوریا مقبول جان صاحب نے عمومی طور پر تمام ترقی پسند اور بائیں بازو کے مفکرین کو ملحدین قرار دے کر ان پر زندگیاں تنگ کرنے کی واضح سازش کی ہے۔
یہ معاملہ پیمرا کے چیئرمین ابصار عالم کے آگے اٹھایا جا چکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حمزہ عباسی پر بین لگانے والی پیمرا، اوریا مقبول جان صاحب کی اس ہیٹ سپیچ کا کوئی نوٹس لے گی؟
جب معاملہ مختلف آراء کا آئے تو ایک اصول آفاقی ہے اور وہ یہ کہ علم اور مباحثے کی دنیا میں جذبات کا دخل نہیں۔ اونچی آواز دلیل نہیں، غلط اور غیر متعلقہ حوالے دے کر وقتی طور پر مدمقابل کو چپ کرا دینا کامیابی نہیں۔ اردو زبان پر عمدہ دسترس رکھنے والے، ایک اچھے مقرر اور صاحب مطالعہ ہونے کی اعلیٰ صفات رکھنے کے باوجود بسا اوقات ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اوریا مقبول جان صاحب ایک غیر متحمل مزاج طرز فکر کے نمائندہ بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ اکثر یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ آپ اختلاف برداشت کرنے کی اعلیٰ صفت اور سوال کرنے اور غور و فکر کرنے کی آزادی دینے سے عاری ہیں۔ آپ مذہب کے لبادے میں کسی بھی شخص پر کوئی بھی بہتان لگا سکتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے حقائق کی پرواہ بھی نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر آپ کچھ عرصہ پہلے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں میزبان اویس اقبال پر بغیر کسی جائز وجہ کے توہین مذہب کا الزام لگا چکے ہیں۔ اس سے پہلے آپ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کی کتاب کے حقائق اور حوالہ جات بدل کر پیش کر چکے ہیں اور ملالہ پر بھی توہین مذہب کا الزام لگا چکے ہیں۔
فیس بک پر اوریا مقبول جان صاحب سے منسوب ایک پیج جو آفیشل ہونے کے دعوٰی دارہے ، جس پر آپ کی براہ راست تقاریر بھی نشر ہوتی ہیں اور جس پر پانچ لاکھ سے ذائد فالوورز موجود ہیں، نے اب ایک نئی تحریک کا آغاز کیا ہے۔ اس نے سوشل میڈیا پر اپنے پیروؤں (فالورز) کو یہ تاکید کی ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں اپنے اساتذہ کرام کی خفیہ ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کریں تاکہ ایسے اساتذہ کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے جو بقول اوریا مقبول کے الحاد کی ترویج کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اوریا مقبول کے ہاں ہر جدید سوچ اور غور و فکر کرنے کی ترغیب یا سوال کرنا الحاد کے ذمرے میں آتا ہے۔ اس کی مثال ہم پہلے ہی دے چکے ہیں کہ کیسے آپ نے ’ہم سب‘ کے ترقی پسند لکھاریوں پر الحاد کا الزام لگایا۔ اوریا مقبول کی دی گئی اس ترغیب کے بعد اساتذہ کرام کے خلاف ذاتی عناد نکالنے اور ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہونے کے امکانات واضح ہیں۔
ایسا نہیں کہ اردو پریس میں صرف اوریا مقبول جان صاحب ہی ایک متشدد فکر کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ نظر دوڑانے پر ہمیں ایسے دوسرے کردار بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ضمنی طور پر ان میں سے چند ایک کا تذکرہ بے جا نہ ہو گا۔ مثال کے طور پر دفاعی تجزیہ نگار زید حامد، جو حال ہی میں سعودیہ کے شکنجے سے بمشکل اپنی جان بچا کر آئے ہیں، ایک سخت گیر سوچ کو مسلسل پروان چڑھا رہے ہیں۔ آپ ہر وقوعے کا الزام غیر ملکی ایجنسیوں پر دھرنے کے قائل ہیں اور اس کے لئے کسی ثبوت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، بس ان کے سازشی نظریات (کانسپریسی تھیوریز) کا منترہ ہی کافی ہے۔ آپ کئی برسوں سے نوجوانوں کو غزوہ ہند کے لئے تیار کر رہے ہیں۔ آپ اہل تشیع مسلمانوں پر ہونے والے ظلم (پرسیکیوشن) کو تسلیم کرنے سے بھی انکاری ہیں۔ آپ احمدیوں کو ملک دشمن قرار دے کریہاں سے جلاوطن ہوجانے کا مشورہ دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ میں عمر متین نامی ایک شخص کے ہاتھوں ایک کلب میں پچاس افراد کی ہلاکت کو سپورٹ کرتے اور اس پر خوشیاں مناتے پائے گئے ہیں۔
اسی طرح انصار عباسی کو کون فراموش کر سکتا ہے جو اپنے سے اختلاف رکھنے والوں کے لئے ’جاہل‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ ملالہ یوسف زئی کی کتاب پر جھوٹ کی بنیاد پر بدنیتی سے اعتراضات کر کے اس کے خلاف عوامی رائے عامہ ہموار کر چکے ہیں، اور اسی ضمن میں ملک کے مایہ ناز دانشور پروفیسر پرویز ہود بھائی کے خلاف ایک لائیو پروگرام میں جرح کر کے ان کی آواز خاموش کرانے کی کوشش کر چکے ہیں۔ لال مسجد کے تکفیری ٹولے کے حمایتی ہیں۔ انصار عباسی، سوات میں طالبان کی جانب سے ایک نہتی لڑکی کو سر عام کوڑے مارنے کے عمل کا دفاع کرتے ہوئے بھی پائے گئے ہیں۔
آٹھ سو ناولوں کے خالق اور پاکستان میں بچوں کے ادب میں غیر معمولی مقام اور نام رکھنے والے اشتیاق احمد (مرحوم ) اپنے ناولوں میں اہل تشیع مسلمانوں، ہندؤں، مسیحیوں اور احمدیوں کے خلاف ایک متشددانہ سوچ کو ابھارتے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چونکہ وہ طالبان سے بھی ہمدردی رکھتے تھے، آپ نے اپنے ایک ناول میں خود کش حملہ آوروں کو بھی ہیرو کے طور پر پیش کیا۔ یہ ایک تکلیف دہ سوچ ہے کہ بچوں میں ہر دل عزیز مصنف نے اپنی مذہبی فکر کو ناپختہ ذہنوں میں ڈال کر ایک ایسی نسل کی بنیاد رکھی جو پاکستان میں جاری دہشت گردی کو جہاد اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا عمل سمجھتی ہو گی۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ وہ اپنی مذہبی رائے کو بچوں کے ناولوں میں شامل کرنے کی بجائے الگ سے کسی تحقیقی کتاب کی صورت میں پیش کرتے تاکہ اس کا علمی انداز میں جائزہ لیا جا سکتا۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے متنازعہ کردار ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی ایک موقع پر ٹی وی پر تحریک طالبان کی حمایت میں دلائل دیتے نظر آئے۔ اسی طرح آپ نے ڈاکٹر عامر لیاقت کے پروگرام میں ایک اقلیتی فرقے کے بارے میں ایسا جملہ بولا جسے مہذب دنیا میں بد ترین تعصب کا نام دیا جاتا ہے۔ اسی طرح آپ آغا وقار کی پانی سے چلنے والی گاڑی کے غلط دعویٰ کو سائنس کی کسوٹی پر پرکھے بغیر درست قرار دے چکے ہیں، حالانکہ اس دعویٰ کے مطابق سائنس کے مسلمہ قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوتی تھی۔
ملک کے طول و عرض میں ایک لاکھ سے ذائد خود کش حملہ آوروں کی موجودگی کا اعتراف کرنے والے مولانا عبدالعزیز کو ان دعوؤں کے باجود ٹی وی چینلز پر پورے ادب و احترام سے بلایا جاتارہا۔ دوسری طرف طالبان کے نمائندگان کو بھی ٹی وی پر ’’آپ، جناب، ہمیں وقت دینے کا شکریہ، آپ سے پھر بات ہوگی ‘‘ وغیرہ جیسے پروٹوکول ملتے رہے ہیں۔
یہاں ہم نے محض چند ایک مثالیں دی ہیں۔ یہ تمام وہ صاحبان ہیں جن کے چاہنے والے اس معاشرے میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ وہ ان کی کہی ایک ایک بات اور ان کے لکھے ایک ایک حرف کا اثر لیتے ہیں۔ جب ان کے سامنے کوئی متشدد بات رکھی جائے گی تو کیا اس سے ہم امن اور یک جہتی کی طرف جائیں گے یا معاشرے میں قطبیت (پولیرٹی) میں مزید اضافہ ہو گا؟ اس کا جواب کوئی ایسا مشکل تو نہیں۔
ایک ایسا ملک جو ایک طویل عرصہ سے مسلسل اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے، جہاں پچاس ہزار سے زائد شہری انتہا پسندی اور دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، جہاں گلی گلی تکفیر کے کارخانے کھلے ہوئے ہیں اور فرقہ واریت کا ناگ اپنا زہر پھیلائے ہوئے ہے وہاں ریاست اور قومی ایکشن پلان کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ اردو پریس (پرنٹ اور برقی) انتہا پسندی اور دہشت گردی کے بیانئے کو فروغ دیتا دکھائی دے رہا ہے اور اِس کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔
آئیے پھر پیچھے اوریا مقبول جان صاحب کی جانب چلتے ہیں۔ واضح رہے کہ ہم اصولی طور پر ان اور دیگر صاحبان کی آزادی رائے کا احترام کرتے ہیں اور ایک ایسے صحتمندانہ مکالمے کو فروغ دینے کے قائل ہیں جس میں تمام فریقین کو اپنی بات کہنے کی پوری اجازت ہو، مگر یہ کسی طور مناسب نہیں کہ وہ جھوٹ اور چرب زبانی کا سہارا لیں، دوسروں کو اپنی بات کہنے کا موقع دینے کے روادار نہ ہوں اوراپنے سے مخالف نکتہ نظر رکھنے والوں کی نیت پر شک کریں،ان کی حب الوطنی پر انگلی اٹھائیں، ان کے خلاف مذہبی بنیادوں پر نفرت پھیلائیں اور ان کی زندگیاں خطرے میں ڈالتے پھریں۔ کیا یہ زیادہ مناسب نہ ہو گا کہ مختلف طبقہ ہائے فکر کے افراد کو جینے کا حق دیا جائے اور انہیں اپنے اپنے بیانئے کو مہذب انداز میں پیش کرنے دیا جائے تاکہ غور و فکر کے دروازے کھلیں، علم و آگہی کی فضا استوار ہو اور ایک صحت مندانہ مکالمے کو فروغ دیا جائے۔
اس تحریر کے آغاز میں ہم نے تاریخ کی دو قوموں کا ذکر کیا تھا: علم دوست اور علم دشمن۔ ہم نے ابن رشد، الرازی، ابن سینا اور ابن خلدون وغیرہ کا حوالہ دیا تھا کہ کس طرح ان کی زبان بندی کی کوششیں کی گئیں، کیسے ان کو بدعتی قرار دیا گیا اور ان کی کتب جلا دی گئیں۔ یہ وہ نقطہ تھا جہاں مسلمان بحیثیت مجموعی زوال آشنا ہونا شروع ہوئے۔ دوسری طرف اندھیروں میں ڈوبا یورپ یہیں سے اپنی نشاۃ ثانیہ کی طرف بڑھا۔ اس کی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں کہ آج وہ کہاں کھرا ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔
قرآن الحکیم میں مسلمانوں پر علم حاصل کرنے (تفکر) اور ٹیکنالوجی (تسخیر کائنات) کے حصول کے لئے بار بار زور دیا گیا ہے۔ ہم آج مغربی دنیا سے تعلیم اور ٹیکنالوجی دونوں میدانوں میں صدیوں کے فاصلے پر ہیں اور افسوس یہ کہ اپنی اصلاح کو بھی تیار نہیں۔ اس طرز عمل کی ذمہ داری اس تنگ نظر سوچ پر آتی ہے جو تفکر اور تعقلی آزادی (انٹلیکچول فریڈم) کی مخالف ہے، جو سوال کا جواب دینے کی بجائے سوال کرنے والے کا گلہ گھونٹ دینے پر یقین رکھتی ہے، یہ سوچے بغیر کہ ایسا کرنے سے سوال تو نہیں مرتا۔
شاید ایسے ہی افراد کے بارے میں جون ایلیا نے کہا تھا:
ہیں ظلمتوں کی مربی طبیعتیں ان کی
کبھی یہ روشنیِ طبع کو نہیں مانے
ہے روشنی کا انہیں ایک ہی نظارہ پسند
کہ جشنِ فتح منے اور جلیں کتب خانے
گزشتہ عہد گزرنے ہی میں نہیں آتا
یہ حادثہ بھی لکھو معجزوں کے خانے میں
جو رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں
کیا اوریا مقبول جان کی رائے اورتجزیے کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ ہرلکاری ان کے تجزیے کو موضع بحث بنائے۔