کون سی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم
از، منزہ احتشام گوندل
یہ کائنات، اس کے عمیق راز، اس کے لمحہ بہ لمحہ انکشاف: وہ دو ہیں، ایک دوسرے کے بالکل برابر، ان دو متوازی لکیروں کی طرح جو ساتھ ساتھ چلتی ہیں، بہت دور تک حتی کہ ہفت آسماں سے بھی آ گے تک، مگر ایک دوسرے کو قطع نہیں کرتیں۔
قطع کرنے کے لیے لکیروں کو سیدھ سے ہٹنا پڑتا ہے۔ تھوڑا سا ٹیڑھا ہونا پڑتا ہے۔ دونوں نہ ہوں تو کسی ایک کو تو ضرور ہی تھوڑا ٹیڑھا ہونا پڑتا ہے۔ تب کراس ہوتا ہے، تب زاویے بدلتے ہیں۔ اور تب کوئی نئی شکل وجود میں آتی ہے، نئی سمت ملتی ہے، نیا انکشاف ہوتا ہے۔
دو متوازی لکیروں کی شکل میں چلتے ان دو کرداروں میں ایک مرد ہے، دوسری عورت۔ مرد کا مُنھ مغرب جبکہ عورت کا مشرق کی طرف ہے۔ وہ اپنے سامنے آ گے کی طرف چل رہے ہیں، پھر بھی ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ اتنے کہ ان میں مکالمہ سنا جا سکتا ہے:
عورت: چھے سال بیت گئے
مرد: ہاں
جانتے ہیں کس بات کو چھے سال بیت گئے؟
تم دنوں کا حساب بہت رکھتی ہو۔
عورت ہوں نا، دن میری کوکھ میں پلتے ہیں۔
امید مرد کے دماغ میں پلتی ہے۔
کیا کوئی اور بھی عورت ہے جس سے ان چھے سالوں میں آپ کا مسلسل رابطہ رہا ہو؟
مرد: (ہنستا ہے) بہت سی ہیں۔ سب سے بات چیت کے دورانیے کو ملا کے جمع کروں تو شاید چھے سال بن جائیں۔
اور میں ان سے ہٹ کر اکیلی ہوں (عورت کو یہ مان ہی بچتا ہے۔)
تم نے تو اور بھی بہت کچھ بچا کے رکھا ہوا ہے
مثلا کیا؟
مثلاً بدن۔
مگر آپ تو بدن کے علاوہ بھی برسوں سے میرے متوازی چل رہے ہیں؟ اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ کیا میں اس اتفاق کو محبت کہہ لوں؟
اجازت کی کیا ضرورت ہے۔ تم کہہ سکتی ہو۔
دراصل میں آپ کی انا کا خیال رکھتی ہوں۔
میں کسی مقابلے میں نہیں ہوں کہ تم انا کی بات کرتی ہو۔
مجھے آپ کی سبھی نفسیاتی سہولتوں کا خیال رہتا ہے۔
تبھی بدن کو ایک بھید کی طرح چھپا کے رکھے ہوئے ہو؟
بدن میں کیا ہے؟ ساری عورتوں کا ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔
(مرد چپ کر جاتا ہے۔ عورت جانتی ہے اس کا شعور مرد جتنا دور از کار اور پختہ نہیں پھر بھی اس کے ساتھ کج بحثی مزا دیتی ہے۔)
عورت: ملنے کی خواہش اور کوشش ہمارے درمیان قوت ربط (binding force) ہے۔ یہ ہو چکا ہوتا تو شاید ہم میں سے کوئی ایک آ گے نکل جاتا۔
مرد: آگے نکل جاتا یا پیچھے ہٹ جاتا۔
ایک ہی بات ہے۔
ایک ہی بات نہیں ہے۔ آ گے نکلنا اور ہے، پیچھے ہٹنا اور زیادہ اہم کیا ہے؟
پیچھے ہٹ جانا۔
پھر آپ کبھی پیچھے کیوں نہیں ہٹے؟
میں آگے بھی نہیں جا سکتا تھا۔
یہ تو کوئی جواب نہیں ہے۔ کیا آپ مانتے ہیں کہ اس دنیا میں ہر شے اسباب و عِلل کے ساتھ وجود رکھتی ہے؟
شاید، یقینا۔
یہ الجھا دینے والا جواب ہے۔
ہم کون سا سلجھے ہوئے ہیں۔ یہ الجھی ہوئی ڈور ہی تو ہے جس نے ہمیں باندھ رکھا ہے۔ ہم دونوں مخالف سمتوں میں رخ کیے اپنے اپنے راستوں پہ بھاگ رہے ہیں، مگر کوہلو کے بیل کی طرح یہ خطِ مستقیم ہمیشہ ایک دائرے میں بدل جاتا ہے۔
ہاں ہم بھاگ بھاگ کے بھی وہیں ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں۔ یہ کیسی حرکت ہے جو جمود جیسی ہے؟
عورت: ہمارے بیچ صرف ایک قدم کا فاصلہ ہے۔ اس کے باوجود میں کبھی آپ کی کنپٹیوں کے خاکستری بالوں کو نہیں چوم سکی، ہمیشہ بات کے اختتام پہ آپ کہتے ہیں “چلواب گلے لگو” اور مجھے ذرا سا مڑنا ہی تو ہوتا ہے۔
مرد: یہی تو تمہارے خوف ہیں۔
عورت: سیدھ کی اپنی کشش ہے۔
مرد: کیا کبھی کوئی طغرا اترا تمہارے لیے آسماں سے کہ “اے عورت مبارک ہو، تم دنیا کی پاک باز عورت ہو۔”
عورت: طغرے آسمان سے نہیں اترتے، یہ ہمارے اندر سجتے رہتے ہیں۔ میں تھک گئی ہوں۔ کبھی میرے لیے مردانہ وجاہت کا معیار صرف آپ تھے۔
مرد: اور اب؟
عورت: اب معلوم نہیں
معلوم کو نا معلوم میں کیسے بدل لیتی ہو؟
بہت آساں نہیں ہوتا، نیندیں گم ہوجاتی ہیں، معدہ سکڑ جاتا ہے، وزن بڑھتا ہے اور خون سوکھ جاتا ہے۔ تب معلوم نامعلوم میں بدلتا ہے۔
مرد: یک “نا” کے لیے اتنی مشقت؟
عورت: جی آپ کو کیا پتا۔ کیا آپ کو پتا ہے عورت کیا چاہتی ہے؟
مرد: عورت کے چاہنے کو کبھی کوئی نہیں سمجھ سکا۔
عورت: حالانکہ یہ بہت آ سان اور سادا سی بات ہے۔
مرد: یہ سادا نہیں ہے، یہ گُنجل ہے جو کبھی نہیں کھلتی۔
عورت: آپ کی اسی بات میں اس کا جواب چھپا ہے۔ وہ گُنجل بنتی ہے۔ اپنی صلاحیت سے بنتی ہے۔ سانپ کا بدن بل کھا کے کسی بھی شے کے گرد کیوں لپٹ جاتا ہے؟ کیونکہ وہ ایسا کرسکتا ہے، اس کی بناوٹ ایسی ہے، اس کے اندر صلاحیت ہے۔ کیا کبھی شاخ یا تنا کسی سانپ کے گرد لپٹا ہے؟
مرد: گر تم تو کبھی نہیں لپٹیں اپنی شاخ سے؟
عورت: مجھے میری شاخ ملی ہی نہیں کہ لپٹتی، ورنہ میرے اندر کے فن کی کیا مجال تھی۔ اس بہار کو میں نے محسوس کیا تھا۔ مگر۔۔۔۔۔۔
مرد: تم دل گرِفتہ کیوں ہو؟
عورت: ہم عورتیں دل گرِفتہ ہی رہتی ہیں۔ سفر میں قیام، قیام میں بچھڑنے کا دھڑکا، وجود سے الگ ہونے کا خدشہ، جسم اور روح کی تقسیم کا اندیشہ؛ دل گرفتی کی کتنی ہی جہتیں ہیں۔ میں نے اب کے ایک خواب دیکھا تھا۔ مضبوط بنیادوں کا خواب، ایک بلند ستوں، یا دیودار کا تناور درخت جس کے ناقابل شکست تنے کے ساتھ میں پیچ در پیچ لپٹ جاؤں کہ کبھی نہ اتروں، کسی کو کاٹ کے اتارنا پڑے۔
مرد: تو پھر کیا ہوا؟
عورت: مگر وہ خواب تعبیر نہ پاسکا، میں دانستہ پیچھے ہٹ گئی۔
مرد: یہی تو مسئلہ ہے تمہارا۔
عورت: مجھے کچھ بھی عارضی نہیں چاہیے۔ جو بھی ہو مستقل ہو۔ سنیں!
مرد: جی
عورت: یا ایسا ہے کہ ہم دانستہ جسے چھوڑتے ہیں کبھی اس کی خواہش سے باہر بھی نہیں جا پاتے؟
مرد: جو چھوڑتا ہے وہ پچھتاتا ہے اور جس سے چھنتا ہے، اسے بہتر دیا جاتا ہے۔
یہ کہانی تو لا مُختتم ہے۔ اس لا مختتم کہانی کے سفر میں وہ دونوں یونہی ایک خطِ مستقیم میں ایک دوسرے کے الٹ چل رہے ہیں۔ پھر بھی ایک دوسرے کے متوازی ہیں، صرف ایک قدم کی دوری پر۔