کچھ علم کی اور کچھ کتاب کی بات
از، رضا علی عابدی
برطانیہ میں دو چیزیں دیکھنے کے قابل ہیں، اوّل ملکہ الزبتھ اور دوسرے پاکستانی آبادیاں۔ ملکہ تو آخر ملکہ ہیں، ملیں نہ ملیں لیکن تمام بڑے شہروں میں وہ علاقے میلے کا سماں پیش کرتے ہیں جن میں پاکستان، آزاد کشمیر، بھارت اور بنگلہ دیش کے باشندوں نے بسیرا کیا ہے۔ ایسے شہروں میں چند ایک تو اس دیسی آبادی کی وجہ سے مشہور ہیں مثلاً لندن کے نواح میں ساؤتھ ہال، برمنگھم، مانچسٹر، شیفیلڈ اور بریڈفورڈ۔ بریڈفورڈ کو تو ’لٹل پاکستان‘ کہا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں ایک اشتہار چلا کرتا تھا کہ آپ کو پاکستان دیکھنا ہو تو بریڈ فورڈ دیکھیے۔ مجھے برطانیہ میں اپنے پینتالیس برس کے قیام کے دوران یہ سارے ہی شہر دیکھنے کا موقع ملا۔
جب میں پہلی بار برمنگھم گیا اور ایک شناسا راہ گیر سے پوچھا کہ یہاں کس علاقے میں پاکستانی آبادی زیادہ ہے تو جھٹ جواب ملا۔’’یہاں کسی علاقے میں پاکستانی آبادی زیادہ نہیں ہے؟‘‘عجب اتفاق ہے کہ میرا بریڈ فورڈ کئی بار جانا ہوا جس کے لیے مجھے شہر لیڈز کے اسٹیشن پر اترنا ہوتا تھا جہاں سے احباب مجھے اپنی کار میں بریڈ فورڈ لے جاتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میں ہر بار خود شہر لیڈز دیکھنے سے محروم رہا۔
اس بار دل چسپ اتفاق ہوا۔ ایک نئی کتاب کی رسم اجرا شہر لیڈز میں ہو رہی تھی اور میں اس میں مدعو تھا۔ اس کتاب کے طفیل مجھے برطانیہ کا یہ عظیم الشان شہر دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ سعادت یوں کہ وہاں جاکر مجھے کسی کا یہ قول رہ رہ کر یاد آیا کہ جس زمانے میں مغل بادشاہ ہندوستان میں شاندار محل اور قلعے بنوا رہے تھے، انگلستان میں بڑی بڑی یونی ورسٹیاں بن رہی تھیں۔ اس پر یاد آیا کہ دو اہل علم گفتگو کر رہے تھے۔ایک نے کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ مغل حکومت کیوں گری۔
اس پر دوسرے نے کہا کہ میں حیران ہوں کہ مغل سلطنت پہلے ہی کیوں نہیں گری۔ میں جو بات کہنا چاہتا تھا وہ یہ تھی کہ یونی ورسٹیاں بہت دیکھی ہیں لیکن شہر لیڈز میں دو جامعات دیکھ کر وہ مصرع یاد آیا کہ حیراںہوں کہ دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں۔ مغل دور کے محلوں کی تعمیر پر اٹھنے والی اشرفیوں کی چمک دمک کبھی کی ماند پڑ گئی لیکن لیڈز کی دو یونی ورسٹیوں سے پھوٹنے والی علم کی کرنیں آنکھوں کو خیرہ نہیں کرتیں، منوّر کرتی ہیں۔ یہ مختلف علوم کی الگ الگ عمارتیں، یہ طالب علموں کی رہائش گاہیں، یہ وسیع و عریض درس گاہیں، انہیں دیکھ کر ذہن میں پہلا خیال یہ آیا کہ یہ تو آلو اگانے والا ملک،اس کے پاس کیا دھرا تھا مگریہ دنیا بھر سے جو دولت بٹور کر لایا،ذرا دیکھیے تو وہ دولت اس نے کہاں لگائی اور دولت سے مزید دولت پیدا کرنے کی بجائے اس نے عظیم ذہن اور اعلیٰ دماغ پیدا کیے۔
بات سے بات نکلتی ہے، تو علم کی بات سے اس نئی کتاب کی بات نکالی جائے جس کی شہر لیڈز میں رسم اجرا تھی۔ یہ اپنی نوعیت کی ایک ہی کتاب تھی جسے لیڈز کے قدیم شہری اور اصل میں آزاد کشمیر کے باشندے محمود حسین میر صاحب نے لکھا۔ کتاب کا نام ہے’انوکھی پیاس ہے جو بجھتی نہیں‘۔ بڑا معنی خیز نام ہے۔ سبب اس کا یوں ہے کہ محمود صاحب اب تک مکّہ، مدینہ اور بیت المقدس کے چالیس سفر کرچکے ہیں اور ابھی دل نہیں بھرا ۔ساڑھے چھ سو صفحوں کی اس کتاب کے چالیس ہی باب ہیں اور ہر باب میں انہوں نے اپنے ہر سفر کے تجربے اور مشاہدے نہ صرف لکھے ہیں بلکہ تفصیل سے لکھے ہیں۔اس تفصیل کی ایک بڑی خوبی ہے۔ عموماًاس قسم کے سفر نامے عقیدت میں اس قدر ڈوبے ہوتے ہیں کہ کوئی ایک سفر نامہ پڑھ کر اتنی تشفی ہو جاتی ہے کہ مزید کی نہ خواہش ہوتی ہے نہ ضرورت۔
محمود صاحب کی یہی خواہش ہے جو انہیں بار بار مقدس سر زمین پر لے گئی۔ لیکن انہوں نے اپنے ہر سفر کا حال کبھی کبھی تویوں بیان کیا ہے جیسے وہ ساری عقیدت اور جذباتی وابستگی سے ہٹ کر ایک عام مسافر بن گئے ہوں۔انہوں نے حیرت انگیز طور پر غیر جانب دار بن کر اپنے ہر سفر اور ہر قیام کے مشاہدے اتنی دیانت داری سے لکھے ہیں کہ اتنی ضخیم ہو کر بھی کتاب وزنی نہیں لگتی۔انہوں نے دل چسپ واقعات، ہنسانے والے قصے، دل دکھانے والے واقعات اور تکلیف دینے والی بد انتظامیوں پر کہیں پردہ نہیں ڈالا۔ انہوں نے زائرین کی حماقتوں، زیادتیوں اور بد اعمالیوں تک کی تفصیل لکھ ڈالی۔
اگرچہ وہ بے شمار کتابوں کے مصنف نہیں لیکن مثال کے طور پر حاجیوں کے خیموں میں قیامت خیز آگ بھڑک اٹھنے کے واقعہ کی انہوں نے ایسی منظر کشی کی ہے کہ ان پر کہنہ مشق مصنف ہونے کا گماں ہوتا ہے۔ رسم اجرا کے موقع پر محمود صاحب نے میری رائے دریافت کی تو میں نے یہ کہا کہ کاش آپ کی کتاب کی ایڈیٹنگ ہوئی ہوتی۔ کسی ماہر ایڈیٹر نے اس پر عمل جراحت کیا ہوتا تو یہ بڑی ہی نکھری ہوئی، سدھری ہوئی تصنیف بنتی۔ انہوں نے بتایا کہ اپنی اگلی کتاب انگریزی میں لکھ رہے ہیں، انہوں نے موضوع تو نہیں بتایا لیکن اقرار کیا کہ کتاب کی تکمیل کے عمل میں رائے مشورہ کریں گے۔
کتاب کا آخری حصہ تصویری ہے۔ وہ ہر مقدس اور تاریخی مقام پر بکھرے ہوئے پتھر بھی ہمراہ لے آئے ہیں اور بعض مقامات کی خاک بھی لائے ہیں اور ان سب کو نوادرات کا نام دے کر عجائب گھر کی طرح نہ صرف آراستہ کیا ہے بلکہ کتاب کے اس حصے میں پتھروں، مٹھی بھر خاک اور دوسری متبرک چیزوں کی تصویریں بھی شامل کر دی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ان ہی جیسے عقیدت مند ان تصویروں کو چومیں گے۔
تقریب میں شامل اکابرین نے محمود صاحب کی کاوش کو بہت سراہا۔ ان کے مشاہدے اور بیان کے ہنر کی بہت تعریف ہوئی۔ اپنے چالیس دوروں کی روداد کو انہوں نے کس سلیقے سے محفوظ کیا، اس کی بھی توصیف ہوئی۔ انہوں نے روزنامچہ لکھا یا سب کچھ ذہن میں محفوظ کرتے رہے، یہ بات بھی تعریف کے زمرے میں بیان ہوئی۔ محمود صاحب خود خطاط بھی ہیں اور ان کے لکھے ہوئے کتبے اور طغرے شہر کی مسجدوں میں آویزاں ہیں۔ خوش نویسی کا یہ سلیقہ ان کی تحریر میں الگ ڈھنگ سے جھلکتا رہا۔ تقریب کے آخر میں محمود حسین میر صاحب نے مختصر تقریر کی اور وہی اپنی کتاب کے انداز میں کی اور شکوہ کیا کہ لوگوں نے حج کو کاروبار بنا لیا ہے اور اسے پیسے کمانے کا ذریعہ سمجھ لیا ہے۔
لوگ وہاں آرام کے دن گزارنے پر بھاری رقمیں خرچ کرنے لگے ہیں۔ اوپر سے سعودی حکام نے مختلف محصول لگا کر اپنی آمدنی کی ایک اور راہ کھول لی ہے۔ غرض یہ کہ فریضۂ حج اب گراں عمل بن کر رہ گیا ہے۔ میر صاحب نے کسی کی رعایت کیے بغیر صاف بات کہہ دی۔ یہی خوبی ان کی کتاب میں بھی ہے۔ بس اسے پڑھ کر ایک بات ضرور سوچتا ہوں۔ ان کی جگہ میں ہوتا تو ایک سفر کرتا اور باقی انتالیس زیارات پرخرچ ہونے والی ساری رقم اٹھا کر غریبوں، محتاجوں، ناداروں، یتیموں، بیواؤں، اپاہجوں اور معذوروں کو سونپ دیتا اوربڑے یقین کے ساتھ سفید چادر اوڑھ کر چین کی نیند سورہتا۔