اور کچھ کی کہانی کھو جاتی ہے
از، اسد گوندل
وہ آج بھی نانی اماں سے بچپن کی باتیں کررہا تھا، اور اپنی شرارتیں یاد کر کر کے کبھی مُسکرا دیتا تو کبھی آنسو صاف کرلیتا۔
پہلے اس کی کل کائنات اس کی فیملی تھی، اور اسے پتا چلا کہ وہ مُسلم گھرانے کا فرد ہے اور مسلم اُمہ تاریخ کے نازک ترین ادوار سے گزر رہی ہے، پھر اسے پتا چلا کہ وہ ایک قوم کا فرد ہے جو پاکستانی قوم کہلاتی ہے، پھر اس نے سیکھا انسان اشرف المخلوقات ہے، انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے۔
خیر وہ وہاں کھڑا کھڑا وقت کے ساتھ ساتھ چلتا دور جا نکلا تھا جہاں ۔۔۔۔۔۔ ایک بچہ کھڑا تھا،
اتوار کا دن تھا اور وہ ہمیشہ کی طرح گھر کے ساتھ والی روڈ پر کھڑا دور سے آنے والے کسی ٹانگے کو دیکھ رہا تھا اور کوئی دس پندرہ منٹ بعد اسے ٹانگے کی پہلی جھلک دکھائی دی تھی۔ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا تھا۔
ٹانگہ سٹاپ پر رکا تھا اور نانی اماں نے اترتے ہی اسے گلے لگا لیا تھا، اس نے لپک کر نانی اماں کے ہاتھ سے چیز والا شاپر پکڑا تھا اور گھر کو چل پڑے تھے۔
نانی اماں سے باتیں کرتے وہ گھر پہنچے تھے، جہاں اماں سب نانی کا انتظار کررہے تھے۔
یہ ہر ہفتے کی روٹین تھی، نانی اماں صبح صبح آجاتیں تھیں۔ اسے نانی کو ملنا اور نانی کے ساتھ آنے والی کا چیز کا انتظار کرنا بہت اچھا لگتا تھا۔
پھر وقت گزرتا گیا، وہ سکول جانے لگا، صبح اٹھنا، سکول جانا، واپسی پر ٹیوشن اور پھر شام کو کرکٹ گراؤنڈ جانا۔
یہی زندگی تھی۔
اور زندگی سادہ اور پرسکون تھی، وہ اتوار کو کزنز اور بھائی کے ساتھ کبھی پیدل، کبھی سائیکل پر اپنے گاؤں بھی چلے جایا کرتا تھا، جہاں ننھیال میں ماموں، کزنز ہوتے تھے، جو اس سے بہت پیار کرتے تھے، نانا جی کا لگایا ہوا آموں کا باغ، ماموں سے بہت سی باتیں۔
پھر وقت کا بدلا، کسی کی بد نظر لگی، اور خاندان ٹوٹ کر بکھر گیا۔
گھر سے گھر چراغ کو بجھا دیا گیا تھا، پنجاب کی روایتی دشمنی کی آگ ان کے گھر بھی پہنچی تھی، جس نے اس کا ننھیال جلا کر راکھ کردیا تھا۔
ساتھ ساتھ عالمی منظر نامہ بھی تھا، ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا سانحہ پیش آیا تھا، جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
اس نے جہاں اپنے جوان کزنز کی لاشیں دیکھیں تھیں وہاں ہی امریکہ کے افغانستان پر حملے کی تباہ کاریوں کو بھی دیکھا تھا۔
قلعہ جنگی میں پیش آنے والے جنگی جرائم کو دیکھتے ہوئے وہ جوان ہوا تھا، اسے آج بھی رات کو ڈر لگتا تھا جب اسے قلعہ جنگی میں تیزاب کے ڈرموں میں ڈالے گئے زندہ انسانوں کے ڈھانچے نظر آتے تھے۔
پھر اس نے عراق کو اجڑتے دیکھا تھا، بات اسلحے اور تیل کے کاروبار سے نکلی تھی، اور پورے عرب میں پھیل گئی تھی۔
وہ ان کو یہ سب بتا رہا تھا اور وہ حیران پریشان اسے دیکھ رہے تھے جیسے وہ کسی اور دنیا کی باتیں کررہا ہو۔ وہ بھی اپنی جگہ درست تھے کیونکہ وہ بہت عرصہ ہوا تھا، اپنے شہر سے نکلے ہی نہیں تھے۔
وہ اس سے اپنوں کا پوچھ رہے تھے جنہیں وہ پیچھے چھوڑ آئے تھے، وہ چپ تھا، بس مسکرا کے سب ٹھیک ہے کہہ دیتا تھا۔
جہاں عالمی منظر نامہ بدلہ تھا وہاں پنجاب بھی بدلہ تھا، پاکستان بھی بدلہ تھا، مارشل لاء لگا، پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کردیا گیا، ملکی سیاست اور معیشت نے کئی ایک قلابازیاں لیں، اس امریکہ افغان جنگ کے پاکستان پر اثرات بھی دیکھے تھے، اس نے اپنے پِنڈ کے سے گزرتی روڈ کو ہائی وے بنتے دیکھا تھا، اس نے پنجاب کے جوانوں کو بیرونِ ملک معاش کی تلاش میں جاتے دیکھا تھا۔
اس نے اپنے کو بچپن کے ایک ذہین طالب علم سے لے کر ٹوٹل فلاپ ہوتے ایک خوفزدہ بچے کے روپ میں دیکھا تھا، آخری بار جو اسے یاد تھی، اس نے خود کو مرتے دیکھا تھا، پر وہ مرا نہیں تھا، اس نے دوسرا جنم لیا تھا، جس جنم وہ ایک پراعتماد شخص کی صورت میں نانی اماں کے سامنے کھڑا تھا، وہ اپنی پہلی جاب کا بتانے آیا تھا نانی اماں کو ماموں کو، دادا جی۔
وہ سب بہت خوش ہوئے تھے، پر وہ اس کی باتیں سن کر حیران بھی ہوئے تھے، اتنا کچھ بدلا تھا۔
انہیں یقین نہیں آیا تھا، پِنڈ کے سٹاپ پر پولیس چوکی نہیں تھی، پِنڈ کے ساتھ ہائی وے بن گیا تھا، پِنڈ سے اسلام آباد، لاہور کا سفر چند گھنٹوں میں سمٹ گیا تھا، اور تو اور اس کے ہاتھ میں ایک مشین تھی، جس سے اس نے کے گھروں کی تصویر بنا لی تھی۔
وہ آج بہت دنوں بعد آیا تھا، سب سے ملا تھا، اسے آج پھر شدت سے اس ٹانگے کا انتظار تھا، جس کا وہ بچپن میں انتظار کیا کرتا تھا۔
اچانک اسے کسی نے بلایا تھا، وہ چونکہ تھا، اماں جی اسے کہہ رہیں تھیں کہ اب گھر چلیں، بہت دیر ہوچکی۔
بوجھل قدموں سے اپنے پیاروں کے شہر کو پیچھے چھوڑا، آج میں اپنے دفتر بیٹھا لکھ رہا ہوں مسکرا رہا ہوں۔
سب کی ایک کہانی ہوتی ہے، کچھ کہانی میں کھو جاتے ہیں، کچھ کی کہانی کھو جاتی ہے۔