کچھ سوالات تھے می لارڈ : توقعات کا بوجھ
بابر ستار
سپریم کورٹ نے شریفوں کی نظر ثانی کی اپیل کی سماعت کی اوراسے مسترد کردیا۔ نظر ِثانی کے محدودامکانات کودیکھتے ہوئے کسی ڈرامائی پیش رفت کی توقع نہیں تھی ۔ مقدمات میں ہارنے والے بھی ہوتے ہیں اور جیتنے والے بھی۔ اس کیس میں شریفوں کو شکست ہوئی۔ اس کیس کے نتیجے میں نوازشریف کا سیاسی کردار ختم ہوسکتا ہے۔ چنانچہ پی ایم ایل (ن) کی طرف سے فیصلے پر تنقید خلافِ توقع نہیں۔
سیاسی نتائج ایک طرف، اس کیس کے لیے اختیار کردہ طریقِ کار اور سامنے آنے والے فیصلے کے قانون سازی پر اثرات فاضل عدالت کے لیے بذات خود کسی ٹرائل سے کم نہیں۔ چنانچہ اس نظر ثانی اپیل نے سپریم کورٹ کو بھی ایک موقع دیا تھا کہ کیس سے وابستہ اُس تشویش کا تدارک کرلے جو جسٹس سسٹم اورججوں کی فعالیت کے بارے میں لاحق ہوچکی ہے۔ کیا سپریم کورٹ کو یقین ہے کہ کیس کے لیے اختیار کیا گیا طریق کار ناگزیر نہیں تھا؟ پاناما سماعت اٹھرویں ترمیم کے ذریعے آئین میں شامل کردہ آرٹیکل 10-A کے مطابق نہیں ہوئی (یہ آرٹیکل فیئر ٹرائل کا حق دیتا ہے) ، اور نہ ہی یہ وضاحت کی گئی کہ اسے آرٹیکل 184(3)، جو سپریم کورٹ کے اختیارات کی تشریح کرتا ہے، کے ساتھ ملا کر کس طرح پڑھا جائے۔ سپریم کورٹ کا ایک سابق فیصلہ بھی موجود ہے جو پی سی او ججوں کو کسی ٹرائل کے بغیر منصب سے ہٹانے کا جواز پیش کرتا ہے۔ اور وہ فیصلہ فطری انصاف کے طے شدہ اصولوں کے منافی تھا۔ اور اب سپریم کورٹ نے کسی ٹرائل کے بغیر ایک وزیر اعظم کو نکال باہر کیا، حالانکہ اُن پر الزامات کے حقائق متنازع تھے۔
مروجہ طریق ِ کار کے سوال کا تعلق اختیارات کی علیحدگی(افقی اور عمودی۔۔۔اداروں اور عہدوں کے اختیارات کی تقسیم) کے نظام سے ہے۔ کیا سپریم کورٹ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ مخصوص حالات میں اختیارات کی اُس تقسیم کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے جس کی ضمانت آئین دیتا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو کیا سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے پاس ان مخصوص حالات کی معروضی جانچ کا کوئی معیاری طریق کار موجود ہے ؟ یہ ایک طے شدہ قانون ہے کہ نظر ِثانی کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ہماری عدالتی ںصرف ایسے احکامات کو ہی تبدیل کرتی ہیں جو غیر قانونی، غیر منطقی اور جوڈیشل طریق کار کے برعکس ہوں۔ تاہم وہ ایگزیکٹو کے اختیارات استعمال نہیں کرسکتیں، اور نہ ہی کیے گئے فیصلوں پر اپنی داخلی ترجیحات کے مطابق تنقید کرتی ہیں۔
پاناما کیس میں سپریم کورٹ نے نیب کے فیصلوں کو غیر قانونی ہی قرار نہیں دیا، اور نہ ہی اسے ان فیصلوں کو قانون کے مطابق دوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت کی۔ اس کی بجائے سپریم کورٹ نے یہ قیاس کرلیا نیب حکمران جماعت کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح ہے، گویا اس کی آئینی فعالیت پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ عدالت نے خود ہی وہ اتھارٹی حاصل کرلی جو نیب آرڈیننس نیب کو تفویض کرتا ہے، اور اسے نواز شریف اور اُن کے بچوں اور اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا۔ قانونی سوال یہ ہے کہ کیا فاضل عدالت کے پاس اس بات کی جانچ کرنے کا کوئی معیاری ٹیسٹ ہے جس کے نتائج کی روشنی میں عدالت کسی ریاستی ادارے کو خود ہی غیر فعال قرار دے کر اس کے اختیارات کو برا ہ راست استعمال کرلے؟
سپریم کورٹ نے نہ صرف قانونی اختیار اپنے ہاتھ میں لیا اور ریاست کی اُس اتھارٹی کو استعمال کیا جسے آئین ایگزیکٹو کو سونپتا ہے، بلکہ فیصلہ سناتے ہوئے اپنے اختیارات کو انتہائی عمودی، یعنی قطعی انداز میں استعمال کیا۔ ٹرائل پر نظر رکھنے کے لیے ایک نگران جج کو متعین کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے یہ طے کرلیا کہ نیب پر احتساب کی کارروائی کے لیے اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں تین واضح سوالات اٹھتے ہیں:
پہلا ، اگر نیب اور احتساب عدالتیں غیر فعال ، اور اتھارٹی کے سامنے لچک دکھانے والی ہیں تو کیا سپریم کورٹ تمام مقدمات کی نگرانی کرے گی(یا کم از کم اُن تمام مقدمات کی جن میں اشرافیہ ایک فریق ہے )کیونکہ آئین تمام شہریوں کے ساتھ مساوی قانونی تحفظ کا وعدہ کرتا ہے ؟دوسرا، جب ہمارا آئین عدالت کو تمام اختیارات اپنے ہاتھ لینے کا حق نہیں دیتا تو سپریم کورٹ ٹرائل عدالت کی براہ ِراست نگرانی کرتے ہوئے ہائی کورٹ کو کہاں کھڑا کرتی ہے ؟ اور یہ ہائی کورٹ ہے جو ٹرائل کورٹ پر انتظامی اختیار رکھتی ہے۔ کیا سپریم کورٹ کی براہ ِراست نگرانی ہائی کورٹ کے اختیارات کو اپنے ہاتھ لینے کے مترادف نہیں؟ اور تیسرا، جب سپریم کورٹ کی نگرانی میں ایک احتساب عدالت رولنگ دے گی تو اس پر اپیل کا کیا بنے گا؟ کیا ایک ہائی کورٹ طے شدہ طریق کار کو نظر انداز کرنے کی مجاز ہوگی؟ کیا سپریم کورٹ اُس فیصلے کی اپیل سنے گی جس کی تمام کارروائی اُس کی نگرانی میں ہوئی تھی؟
کیا سپریم کورٹ کو یقین ہوچلا ہے کہ اسے ’’ گلے سڑے ، بدعنوان اور غیر موثر نظام‘‘ کو تباہی سے بچانے کے لیے ودیعت کیا گیا ہے، چنانچہ اس آفاقی امر کی انجا م دہی میں معمول کے اصول وضوابط کو نظر انداز کرنے میں کوئی حرج نہیں؟ کیا یہ وہی ’’نظر یہ ضرورت ‘‘ نہیں جس پر حلف اٹھانے کی پاداش میں بہت سے ججوں کو گھر بھیج دیا گیا تھا ؟ کیا اُس وقت یہ نہیں کہا گیا تھا کہ تمام اتھارٹی آئین اور قانون کی تفویض کردہ ہے (جو کہ اختیارات کی علیحدگی کا اصول ہے)؟اگر اشرافیہ کو من مانی سے روکنے کے لیے قانون کی حکمرانی ضروری ہے تو پھر اُن فیصلوں پر کیا کہا جائے جب اعلیٰ ترین عدالت ’’غیر معمولی حالات میں‘‘ مروجہ طریق ِ کار کو اٹھا کر ایک طرف رکھنا درست سمجھتی ہو؟
کیا کوئی ماہر قانون پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ پاناما فیصلے نے بعد میں آنے والے مقدمات کے لیے کوئی قانونی مثال پیش کی ہے؟ کیا سپریم کورٹ کا بنیادی فنکشن یہ نہیں کہ وہ قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کے لیے قانون کی بامعانی تشریح کرے؟ عام شہری ہمارے عدالتی نظام کے مروجہ طریق کار کا ناقد ہے۔ اس تنقید کا جواب دینے کے لیے ضروری ہے کہ قوانین اورقانونی طریق کار درست اہداف کے حصول میں نہ صرف معاون ہوں بلکہ شہریوں اور ریاست کے درمیان اختیارات اور حقوق کے توازن کوبھی یقینی بنائیں۔ پاناما کیس ظاہر کرتا ہے کہ مطلوبہ اہداف کا جواز بھی خود ہی پیش کرنا پڑتا ہے۔ تو کیا سپریم کورٹ اُسی شاخ کو کاٹنے جارہی ہے جس کے ساتھ ہمارا جسٹس سسٹم لٹکا ہوا ہے؟
کیا سپریم کورٹ ایک نظام کی نگرانی کرتی ہے جو مروجہ قانون کی طرح کام کرتا ہے، یا پھر قانون کے تصورات جج حضرات کے اپنے اپنے اخلاقی اصولوں سے جلا پاتے ہیں؟ اور یہ تابانی مختلف کیس میں تبدیل ہوتی رہتی ہے ؟ معمول کے قانونی نظام کی کنجی جوڈیشل استدلال ہے ۔ یہ استدلال بتاتا ہے کہ قانون کیا ہے ، اور ایک جیسے کیسز پر کس طرح اصولوں کا اطلاق ہوتا ہے ۔ بدقسمتی سے پاناما کیس میں یہ استدلال بہت کمزور ہے۔ اسے ایک ایسا کیس سمجھا گیا (اور اس پر جشن بھی منایا گیا )جس نے ٹیکنیکل بنیاد پر نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا، لیکن جج حضرات کے نزدیک غیر بیان کردہ دلیل یہ تھی کہ نوازشریف کے پاس ناجائز دولت ہے۔ یہ احساس اُس وقت مزید تقویت پاجاتا ہے جب نظر ِثانی کی اپیل کی سماعت کرنے والے ایک فاضل جج صاحب فرماتے ہیں کہ پاناما کیس میں دیا گیا استدلال تو صرف عظیم برف کے تودے کا باہری کنارہ ہے ۔ قانونی طور پر کیا ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کسی کے خلاف ایسا فیصلہ دے سکتی ہے جس کے پیچھے قانونی استدلال موجود نہ ہو؟ پھر اس فیصلے کو کیا سمجھا جائے اوراس کی کیا تشریح کی جائے جب جج صاحب خود کہہ دیں کہ اصل وجوہ کو تو ابھی بیان ہی نہیں کیا گیا ؟ اگرایگزیکٹو کے فیصلوں میں استدلا ل کا فقدان ہو تو کیا ہماری عدالتیں ایسے فیصلوں کو اٹھا کر ایک طرف نہیں پھینک دیتیں؟ کیا ہم تاریخ کا ایک ایسا صفحہ پلٹنے جارہے ہیںجس میں عدالت کو فیصلہ سنانے کے بعد اس کا مناسب جواز تلاش کرتے دیکھا جائے گا؟
سپریم کورٹ کس معلومات کو ابھی فیصلے سے باہر سمجھتی ہے ؟ یعنی اگر آئس برگ کا صرف باہری کنارہ ہی سامنے آیا ہے تو ابھی اندر کیا ہے ؟کیا فیصلے پیش کردہ ٹھوس مواد کی بنیاد پر ہوتے ہیں یا خفیہ اداروں کے غیر روایتی ذرائع سے پیش کردہ مواد بھی مد ِ نظر رکھا جاتا ہے ؟کیا جج حضرات عدالت سے باہر خفیہ ایجنسیوں سے رابطے میں رہتے ہیں؟ کیا عدلیہ اور انتظامیہ کو علیحدہ کردینے والے نظام میں جج حضرات ایجنسیوں سے بند کمروں میں ، یاپردوںکے پیچھے معلومات لے سکتے ہیں؟’’آفاق کی اس کار گاہِ شیشہ گری ‘‘ میں ہوسکتا ہے کہ عدالتیں اور خفیہ ادارے ’’قومی مفاد ‘‘ کے نازک کام میں فقید المثال ہم آہنگی دکھارہے ہوں۔ اور یہ فعالیت نئی نہیں۔ ہمارے ذہن سے وہ تاریخ محو نہیں ہوئی ،اور نہ ہوسکتی ہے جب عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کے توسیع شدہ بازو کا کردار ادا کرتی رہی ۔ آخر میں محترم جسٹس کھوسہ کا حالیہ دنوںخلیل جبران کا حوالہ قابل ِ غور ہے ۔۔۔’’افسوس اُس قوم پر جو قانون کے سامنے تو مساوات کی دہائی دیتی ہے ، لیکن اسے حقیقت میں امتیازی انصاف ہی پسند ہے۔‘‘