آ جاؤ دکان کھل گئی ہے : کچھ محاوروں پر بات ہوجائے
(آصف اکبر)
کسی بھی زبان کے محاورے، تراکیب، ضرب المثل، کہاوتیں، کہانیاں، اس کے بولنے والے لوگوں کے ماضی کے راز دار ہوتے ہیں۔اس مضمون میں ہم کچھ ایسے محاوروں پر بات کریں گے جو اس خطّے کی معاشی حالت کا آئینہ ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ برّ صغیر میں بالعموم غربت رہی ہے۔ خصوصاً انگریزوں کے آنے کے بعد۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ عام آدمی کو اچھا اور وافر کھانا ملا ہو۔ لوگوں کو دو وقت کی روٹی مل جاتی تھی تو وہ خوشحال سمجھے جاتے تھے۔ آئیے دیکھیے زبان ان حالات کے بارے میں کیا بتاتی ہے۔
چپڑی اور دو دو : یہ محاورہ اس وقت بولا جاتا ہے جب عیّاشی کا اظہار مقصود ہو۔ چپڑی سے مراد گھی چپڑی ہوئی روٹی۔ تو اگر کسی شخص کو گھی چپڑی ہوئی (لگائی ہوئی) روٹی مل جاتی تھی تو وہ بہت خوش ہوتا تھا، کیونکہ عام حالات میں تو سوکھی روٹی ہی کھانے کو ملتی تھی۔ پھر اگر چپڑی بھی دو دو مل جائیں تو عیّاشی کی انتہا۔
پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں : انتہائی عیش کی عکّاسی کرتا یہ محاورہ بتاتا ہے کہ اگر کسی شخص کو کھل کر کھانے کا موقع ملے کسی ایسی جگہ جہاں گھی بھی رکھا ہو اور مٹھائیاں کڑاہی میں جمی رکھی ہوں (کڑاہی اس برتن کو بھی کہتے ہیں جس میں مٹھائی جمائی جاتی ہے) تو وہ ایک طرف وہ بیتابی سے ایک ہاتھ کی پانچوں انگلیاں ڈال کر خشک گھی کا بڑا سا ٹکڑا نکال رہا ہوگا اور ساتھ ساتھ کڑاہی میں سر ڈال کر مٹھائیوں کو منہ مار کر کھا رہا ہوگا۔ یہاں پانچوں بھی معنی خیز ہے اور اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ لوگ صرف ایک ہاتھ سے کھاتے ہیں، دوسرا ہاتھ کھانے کے لیے استعمال نہیں کرتے۔
جب دادا مریں گے تب بیل کٹیں گے : یہ محاورہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ افراط سے گوشت کبھی کبھار ہی ملتا ہے۔ دادا مریں گے تو ان کی آخری رسوم کے لیے بیل کاٹا جائے گا اور تب پوتوں کو جی بھر کر گوشت کھانے کو ملے گا۔ بیل ایک سرمایہ ہوتا ہے اور اسی صورت میں کاٹا جاتا ہے جب یا تو مذہبی رسم/عبادت ہو یا پھر وہ کام کا نہ رہ گیا ہو۔ اور ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا تھا۔
آدھی روٹی بس؟ کائتھ (کائستھ) ہیں یا پس : اس محاورے کا مطلب یہ ہے کہ کائستھ کے گھر سے فقیر کو یا مہمانوں کو صرف آدھی روٹی مل رہی ہے۔ تو واقعی یہ کائستھ ہیں یا کوئی اور لوگ ہیں۔ یہاں پس کا لفظ اپنے عام استعمال سے ہٹ کر کچھ اور کے معنی میں آرہا ہے۔ کائستھ ہندووں کی ایک ذات ہے جو پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور مغل دور میں فارسی پڑھ کر سلطنت کے مختلف امور انجام دیتے تھے اور بالعموم خوشحال ہوتے تھے۔ یہ محاورہ بتاتا ہے کہ کبھی کبھی تنگدستی کی بنا پر کوئی معزز گھرانا بھی صرف آدھی روٹی دے سکتا ہے۔
ہر روز روز عید ہو، ہر شب شبِ برات: خوشحالی کی دعا دیتے ہوئے یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ اچھا کھانا صرف ان دو مواقع پر ملتا تھا۔ اس لیے ہر روز عید اور ہر رات شب برات ہونے کا مطلب وافر خوراک۔
گڑ نہ دے گڑ کی سی بات تو کرے : اس زمانے میں گڑ ایک قیمتی اور بڑی اہم چیز ہوتی تھی۔ کسی مہمان کو گڑ پیش کرنے کا مطلب اس کی خاص تواضع تھا۔ اس محاورے میں شکوہ ہے کہ چلو آدمی گڑ نہ کھلائے کوئی بات نہیں، لیکن بات تو اچھی طرح کر لے۔
اندھا بانٹے ریوڑیاں، اپنے اپنوں کو : یعنی جو شخص بصارت یا بصیرت سے محروم ہو وہ صرف اقرباء کو نوازتا ہے۔ یہ محاورہ خوشی کے موقع پر ریوڑیاں بانٹنے کی رسم کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ عام آدمی لڈّو بانٹنے کی سکت نہیں رکھتا تھا اس لیے ریوڑیاں، نکتی دانے، بتاشے اور اسی قسم کی سستی مٹھائیاں تقسیم کر کے خوشی مناتا تھا۔
ایک عجیب و غریب کہاوت “آدھی روٹی آدھا کباب، گنجے کو مارنا بڑا ثواب” بھی ہمارے معاشرے میں رائج رہی ہے۔ مزاح اور خوشدلی کی آڑ میں دراصل یہ بے حسی کی نشاندہی کرتی ہے جس میں کسی فرد کی جسمانی کمی کو مزاح کا عنوان بنا لیا جاتا ہے۔ بہرحال یہاں ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آدھی روٹی اور آدھا کباب بھی بہت سمجھا جاتا تھا گزارے کے لیے۔
ایک نظر ڈالتے ہیں کہ منشی پریم چند اپنے مشہور افسانے “کفن” میں عیّاشی کی کیفیت کیسے کھینچتے ہیں:
“گھیسو کو اس وقت ٹھاکر کی برات یاد آئی جس میں بیس سال پہلے وہ گیا تھا۔ اس دعوت میں اسے جو سیری نصیب ہوئی تھی وہ اس کی زندگی میں ایک یادگار واقعہ تھی۔ اور آج بھی اس کی یاد تازہ تھی۔ بولا، ” وہ بھوج نہیں بھولتا۔ تب سے پھر اس طرح کا کھانا اور بھر پیٹ نہیں ملا۔ لڑکی والوں نے سب کو پوڑیاں کھلائی تھیں سب کو۔ چھوٹے بڑے، سب نے پوڑیاں کھائیں، اور اصلی گھی کی۔ چٹنی، رائتہ، تین طرح کے سوکھے ساگ۔ ایک رسیدار ترکاری، دہی، چٹنی، مٹھائی۔ اب کیا بتاؤں کہ اس بھوج میں کتنا سواد ملا۔ کوئی روک نہیں تھی۔ جو چیز چاہو مانگو۔ اور جتنا چاہو کھاؤ۔ لوگوں نے ایسا کھایا، ایسا کھایا، کہ کسی سے پانی نہ پیا گیا۔ مگر پروسنے ولے ہیں کہ سامنے گرم گرم، گول گول، مہکتی ہوئی کچوریاں ڈالے دیتے ہیں۔ منع کرتے ہیں کہ نہیں چاہیے _ پتّل کو ہاتھ سے روکے ہوئے ہیں۔ مگر وہ ہیں کہ دیے جاتے ہیں۔ اور جب سب نے منہ دھو لیا تو ایک ایک بیڑا پان بھی ملا۔ مگر مجھے پان لینے کی کہاں سدھ تھی۔ کھڑا نہ ہوا جاتا تھا۔ چٹ پٹ جا کر اپنے کمبل پر لیٹ گیا۔ ایسا دریا دل تھا وہ ٹھاکر۔”