کنور مہندر سنگھ بیدی ، زندگی کے میلے اور محبت کا جادُو
از، ڈاکٹر شاہد صدیقی
حدِ نظر تک سبز لان کی وسعتیں اور جابجا رنگا رنگ سٹالز۔ ایک میلے کا سا منظر۔ میں ان دنوں برٹش کونسل کے سکالرشپ پر یونیورسٹی آف مانچسٹر میں پڑھ رہا تھا اور یونیورسٹی آف لنکاسٹر ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کے لیے آیا تھا۔ مختلف سیشنز کے درمیان وقفے میں کانفرنس کے شرکا کتابوں کے اس میلے میں گھومتے رہتے۔ اسی میلے میں میری ملاقات اُرملا سے ہوئی۔ شاید یہی نام تھا اس کا یا شاید اس سے ملتا جلتا کوئی نام۔ باتوں باتوں میں اس نے بتایا اُس کا تعلق اردو کے معروف ادیب اور شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی کے خاندان سے ہے۔ میں نے کہا ”واقعی؟۔‘‘ وہ بولی: کیا آپ ان کے نام سے واقف ہیں؟
میں نے اسے بتایا کہ اردو ادب سے محبت کرنے والا ہرشخص ان کے نام سے واقف ہے۔ اس کی آنکھوں میں تفاخرکی ایک کرن جگمائی، پھر وہ اداس لہجے میں بولی: کاش میں اردو پڑھنا جانتی اور ان کی تحریروں کو پڑھ سکتی۔ یہ میری اس سے پہلی اور آخری ملاقات تھی۔
اس واقعے کو گزرے تین دہائیاں بیت گئیں۔ ایک مدت بعد آج اسلام آباد میں یونیورسٹی کا لٹریچر کارنیوال دیکھا۔ سبز لان کی وسعتوں میں رنگا رنگ سٹالز اور شرکا کی چہل پہل دیکھ کر مجھے یوں لگا جیسے یہ منظر پہلے بھی دیکھا ہے۔ کہاں دیکھا تھا اس طرح کا منظر؟ بعض اوقات کوشش کے باوجود بیتے منظروں سے دھند نہیں چھٹتی۔ لٹریچر کارنیوال میں پاکستان کے معروف ادیب آئے ہوئے تھے۔ بالکل میلے کا سا سماں تھا۔ اسی میلے میں کتابوں کا رسیا رؤف کلاسرا بھی تھا۔ کتابوں کی کشش اتنی تھی کہ وہ صبح کے چار پانچ بجے سونے والا اور سہ پہر کو بیدار ہونے والا آج جلدی جاگ گیا تھا۔
کتابوں کے مختلف سٹالز کا مشاہدہ کرتے اور کتابیں خریدتے ہوئے آخر ہم ایک بک سٹال پر رکے اور وہاں سے ڈھیر ساری کتابیں خریدیں۔ وہیں سے رؤف نے ایک ضخیم کتاب اٹھائی، اس پر کچھ لکھا اور میری طرف بڑھا دی۔ میں نے دیکھا، خوب صورت لکھائی میں میرا نام لکھا تھا، ”شاہد صدیقی کے لیے جن سے کسی پرانے جنم کا رشتہ محسوس ہوتا ہے۔‘‘ کتاب کے تحفے سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں۔
میں نے جلدی سے کتاب بند کرکے اس کا سرورق دیکھا۔ یہ کنور مہندر سنگھ بیدی کی خود نوشت”یادوں کا جشن‘‘ تھی، جسے گگن شاہد نے بڑے اہتمام سے اپنے مکتبہ سے شائع کیا تھا۔ کنورمہندر سنگھ بیدی کے نام سے دور کہیں گھنٹیاں سی بج اٹھیں، جیسے منظرکا دھندلا پن ختم ہو گیا ہو۔ اب مجھے معلوم ہوا یہ منظر مجھے مانوس سا کیوں لگ رہا تھا۔ لنکاسٹر کانفرنس اور، کنور مہندر سنگھ بیدی کے خاندان کی اُرملا۔
اس روز میں گھر آیا تو بیدی کی یادوں کے جشن میں کھو گیا۔ یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو منٹگمری (ساہیوال) میں پیدا ہوا۔ ایچی سن اور گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور متحدہ ہندوستان کے کئی شہروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہا۔ تقسیم کے بعد وہ ہندوستان چلا گیا لیکن پاکستان کی محبت کبھی دل سے نہ نکال سکا۔ بیدی کی کتاب کیا ہے ایک طلسمِ ہوشرُبا ہے جسے پڑھتے ہوئے وقت کا احساس نہیں رہتا۔
جب میں نے کتاب ختم کی تو صبح کے آثار نمودار ہو رہے تھے۔ مجھے کتاب پڑھتے ہوئے جابجا احساس ہوا حسنِ اخلاق، محبت اور شفقت سے کیسی کیسی منزلیں سر ہو جاتی ہیں۔ میری زندگی کا بڑا حصہ ٹیچر ایجوکیٹر کے طور پر گزرا۔ ایک سوال جس کا اکثر مجھے سامنا کرنا پڑتا ”اچھے استاد کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں؟‘‘ میرا خیال ہے کہ اچھے استاد کے لیے علم اور طریقۂ تدریس کے ساتھ اس کا رویہ اس کی مہربانی، اس کا شاگردوں کی بات سننا، انہیں اہمیت دینا ان کی عزت کرنا بھی بہت اہم ہے۔ یہ ساری باتیں مجھے پھر سے یاد آئیں جب میں نے مہندر سنگھ بیدی کے بچپن کا یہ قصہ پڑھا۔ آئیے بیدی کی زبانی سنتے ہیں:
”گورنمنٹ ہائی سکول منٹگمری میں میری تعلیم کا آغاز ہوا۔ پانچویں جماعت تک میں نے وہیں تعلیم حاصل کی لیکن میری یہ ابتدائی تعلیم کا زمانہ میری زندگی پرگہرا نقش چھوڑ گیا۔ اردو زبان سے مجھے جو محبت ہوئی اور تادم حیات رہے گی اس کی ابتدا بھی یہیں سے ہوئی۔ بعض اوقات معمولی سے واقعات بھی زندگی کی تربیت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
“اسی سکول میں ایک ماسٹر تھے جن کا نام بشمبرداس تھا۔ یہ ہمیں حساب پڑھاتے تھے۔ مولوی عبدالمجید صاحب بھی اسی سکول میں ٹیچر تھے، جو ہمیں اردو پڑھاتے تھے۔ دونوں کی عادت اور برتاؤ میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ ماسٹر بشمبرداس تو خود دھوپ سینکا کرتے تھے مگران کاایک اپاہج لڑکا ان کی جگہ ہمیں پہاڑے رٹایا کرتا تھا۔ اس کے مُنھ میں سے ہروقت رالیں ٹپکتی رہتی تھیں اوربعض اوقات ایسی حرکتیں کرتاتھا کہ لڑکوں کوبے ساختہ ہنسی آجاتی تھی۔
“اس پروہ بگڑ کراپنے والد سے شکایت کرتا تھا اور وہ بغیر پوچھ توچھ کیے لڑکوں کو بید سے پیٹنا شروع کر دیتے تھے۔ ادھر مولوی عبدالمجید صاحب اس قدر شریف اورمُشفق تھے کہ بچوں کو بڑے پیار سے پڑھاتے تھے۔ سبق کو موثر بنانے کے لیے اچھی اچھی مثالیں دیتے اور کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ اپنے شاگردوں کا اس قدر خیال کیا کرتے کہ اگرکوئی لڑکا سکول نہیں آتا تو اگلے روز اس کے گھرجا کرخیریت دریافت کیا کرتے۔ ان کی والہانہ شفقتوں کی وجہ سے لڑکے ان سے محبت کیا کرتے تھے۔ مجھے بھی ان سے بے پناہ عقیدت تھی اور عقیدت کی وجہ سے اردو زبان سے بھی محبت ہوگئی۔‘‘
بیدی اسی طرح کا تجربہ ایچی سن کالج کے دو استادوں کے حوالے سے لکھتے ہیں۔ دیکھئے کیسے ایک استاد اپنے شفقت اورمحبت سے اپنے شاگردوں کے دلوں میں گھر کر جاتا ہے ”میری طالب علمی کے زمانے میں کیلی صاحب چیفس کالج کے پرنسپل تھے اور آر جی رائٹ نائب پرنسل۔ دونوں کی عادات اور رویے میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ کیلی صاحب نہایت شریف، ملنسار، سادہ مزاج اور خدا ترس آدمی تھے۔ رائٹ صاحب خود پسند، خود بیں، تنک مزاج اور قدامت پسند تھے۔
“مسٹرکیلی ہمیشہ سائیکل پر گھوما کرتے تھے۔ ان کا کتا روری بھی ساتھ بھاگا کرتا تھا۔ جب وہ پڑھاتے تھے تو بھی کلاس روم میں ساتھ ہی آتا تھا۔ مسزکیلی بھی ایک نہایت ہی شریف خاتون تھیں جوطلباء کو بالکل اپنی اولاد کی طرح سمجھتی تھیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ خود بے اولاد تھیں۔ اگرکوئی لڑکا بیمار ہوتاتو اس کی دیکھ بھال کرتی تھیں بلکہ ایسا بھی ہوا کہ وہ بیمار لڑکے کو اپنی کوٹھی میں لے گئیں تاکہ ہروقت اس کی تیمارداری کریں۔ طلبا بھی ان سے بے حد محبت کرتے۔‘‘
محبت کے کرداروں کا ذکرہو تو کیسے ممکن ہے ماں کا ذکر نہ آئے ماں جو دنیا میں بے لوث محبت کا استعارہ ہے۔ بیدی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک روز وہ اپنی کوٹھی میں حسبِ معمول سائلوں سے ملاقات کر رہے تھے کہ ایک ضعیف عورت آئی اور دہاڑیں مارمار کر رونے لگی۔ پوچھنے پراس نے بتایا کہ اس کے بیٹے نے بہو کے ورغلانے پر اسے مارا ہے۔
بیدی صاحب نے ڈاکٹر کو بلا کراُس کی مرہم پٹی کرائی۔ وہ یہ کہتی تھی کہ جس طرح مجھے پیٹا گیا ہے اُسی طرح جب تک اس کے بیٹے کی کھال نہیں اُدھیڑی جائے گی اسے چین نہیں آئے گا۔ اس سے آگے کا احوال بیدی صاحب کی زبانی سنیے:
”میں نے تھانیدار کو فون کیا کہ اُس کے بیٹے کو میرے سامنے پیش کیا جائے۔ دو تین گھنٹے کے بعد تھانیدار اُس کے بیٹے کو لے کر میری کوٹھی آیا۔ اُس کو دیکھتے ہی پھر بڑھیا نے رونا چیخنا شروع کر دیا اور کہا کہ یہی وہ ظالم ہے جس نے مجھے اِس بے رحمی سے پیٹا ہے، اس کا بھی وہی حال کر دیا جائے جو میرا ہے۔ میں نے تھانیدار سے کہا کہ اس کومرغا بنایا جائے۔ تھانیدار نے شہ پاتے ہی اُس کو لٹا لیا اورجوتے برسانے شروع کیے۔ دوسرے تیسرے جوتے پر ہی وہ چیخ اٹھا۔ بڑھیا پاس ہی کھڑی تھی۔ فوراً شیرنی کی طرح جھپٹی اوراُس کے اوپر لیٹ گئی اورکہنے لگی کہ یہ میرا بچہ ہے معاف کر دیجیے۔ تھانیدار نے اُسے اور پیٹنا چاہا لیکن بڑھیا اُس سے لپٹ گئی اورجوتے اُس کے ہاتھوں سے چھین لیے۔‘‘
ماسٹر عبدالمجید، پرنسپل کیلی، اور ماں، یہ سب محبت کے استعارے ہیں جو زمانے کی بھیڑ میں سب سے ممتاز ہیں جو زندگی کے میلے میں کہیں کھو گئے لیکن دل کے نہاں خانوں ابھی تک لو دے رہے ہیں۔ محبت بھی کیسا جذبہ ہے جو ہر منطق اور منفعت سے بے نیاز ہے۔ جسے چاہیں بھی تو بیان نہیں کر سکتے۔ اسے تو بس محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو خوش رنگ پھولوں میں بسی خوشبو کا جھونکا ہے، سرسبز وادیوں میں بہنے والا جھرنا ہے، زندگی کے تاریک جنگلوں میں اترتی کرن ہے۔ آج مہندر سنگھ بیدی کی مُشکبار یادوں نے میرے گرد و پیش کو مہکا دیا ہے۔