کرد ریفرنڈم کے مہیب اثرات
حسین جاوید افروز
سابق سی آئی اے اہلکار جان نکسن نے پنی کتاب Debriefing the President: The Interrogation of Saddam Hussein میں صدام حسین سے دسمبر 2003 میں ہونے والی دوران حراست ملاقاتوں کا احوال تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ جب صدام حسین جان نکسن کو ایک تاریخی بات کہتا ہے کہ تم امریکی ، لوگ عراق میں ناکام رہو گے ۔تم لوگ جلد ہی جان جاؤ گے کہ عراق پر حکومت کرنا کتنا مشکل کام ہے ۔کیونکہ تم لوگ عراق کی زبان ،تاریخ اور عرب ذہن سے نا بلد ہو ۔عراق کو اس کے موسم اور تاریخ کو جانے بغیر جاننا بہت مشکل ہے۔
آج صدام حسین کی موت کے گیارہ برس بیت جانے کے بعد بھی یہ بات عراق کے معروض میں بالکل درست معلوم ہوتی ہے ۔عثمانی سلطنت کے زوال کے بعد سامراجی طاقتوں نے جس طرح عرب دنیا کے اردگرد لکیریں کھینچ کر سرحدیں بنا ڈالی۔ یہ بالکل ایک غیر فطری عمل تھا ۔اس عمل کے نتیجے میں عراق وجود میں آیا ۔لیکن اس سارے کھیل میں اسی خطے کی ایک قوم جو اپنی شناخت کی تلاش اور اپنے وجود کے تحفظ کے لیے ایک قطعہ زمین کی خواہاں تھی اس کو بے یارومددگار ہی چھوڑ دیا گیا ۔اور وہ قوم آج تک مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں بکھری تاحال اپنی زمین کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔
یہ کرد قوم ، وہی کرد قوم ہے جس نے صلاح الدین ایوبی جیسے عظیم جرنیل کو جنم دیا جس نے صلیبی جنگوں میں بیت المقدس کو فتح کرنے کی سعادت حاصل کی۔ بدقسمتی سے کرد قوم کو سامراج نے پہلی جنگ عظیم کے بعد یکسر فراموش کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی کرد، شام ، ترکی، عراق اور ایران میں منقسم ہو چکے ہیں۔ لیکن 2003 میں عراق میں صدا حکومت کے انہدام کے بعد ان کے لیے نئے مواقع پیدا ہوئے اور دھیرے دھیرے وہ اپنے پرانے خواب کی تکمیل کے لیے جدوجہد پر کاربند رہے۔
عراق کو 2003 کے امریکی حملے کے بعد سے اب تک شدید نسلی اور فرقہ ورانہ بحران کا سامنا ہے ۔یہاں آباد شیعہ ،سنی ،کرد ا قوام میں شدید مخاصمت پائی جاتی ہے ۔امریکہ کے آپریشن عراقی فریڈم کے اثرات عراقیوں کے لیے نہایت بھیانک ثابت ہوئے اور اب تک پچھلے چودہ سالوں میں دس لاکھ سے زائد عراقی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔2014 سے عراق کو ایک اور خون آشام عفریت داعش کا بھی سامنا رہا ۔ جس نے اپنی کٹر اور انتہا پسندانہ سوچ کے تحت جہاں شام کو تاراج کیا ۔وہاں ا سی وحشیانہ سوچ کے حامل گروہ نے عراقی معاشرے کی بھی چولیں ہلا دیں۔ اور ہم نے گزشتہ تین سالوں کے دوران فلوجہ، موصل اور مغربی شمالی عراق میں ابوبکر البغدادی کی قیادت تلے موت کا ننگا ناچ دیکھا۔
داعش جیسے خوفناک مظہر نے جس درجے کی دہشت اور خون آشام کارروائیاں عراق میں انجام دیں ۔اس وجہ سے عراق میں موجود تمام نسلی گروہ اس کے خلاف یکجا ہو گئے۔اور آج تین برس کے بعد موصل داعش کے خونی پنجوں سے آزاد ہوگیا ۔ کرد پشمیگرا نے داعش سے کرکوک کے علاقے چھین لیے ۔جہاں سے عراقی فورسز راہ فرار اختیار کر چکی تھیں ۔کرد پشمیگرا نے اس خلاء کو پر کیا ۔ ایسا نہیں تھا کہ کردوں نے اب اچانک ہی کامل آزادی اور ایک خطہ زمین کو پانے کے لیے خواب دیکھنا شروع کیے ہیں۔
اگر ہم تاریخ سے رجوع کریں تو 1880 سے ہی کرد قومیت کا مظہر سامنے آیا تھا۔ جب کرد رہنماء شیخ عبید اللہ نے عثمانی سلطنت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا۔ تاہم عثمانیوں نے اعلیٰ عہدوں کا کارڈ استعمال کرتے ہوئے کردوں کو رام کر لیا۔ لیکن جب ترکی پہلی جنگ عظیم کے بعد جمہوریہ بن گیا تو کردوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا۔ ان کو جلاوطن کیا گیا۔ یوں کرد چار ممالک میں بکھر گئے۔ تاہم اب عراق میں مقیم کرد لیڈر مسعود برزانی کھل کر سامنے آئے ان کی کوششوں سے 25 ستمبر کو عراقی کردوں نے کرد اکثریتی علاقوں اربل، سلیمانیہ، کرکوک، سنجار اور خاناکن میں ریفرنڈم منعقد کیا جس کے نتیجے میں 93 فیصد کرد آبادی نے آزادی کے حق میں رائے دے دی۔
کردستان ریجنل گورنمنٹ نے بیان دیا کہ ابھی ہم کامل آزادی کے لیے جدوجہد کا آغاز نہیں کریں گے۔ کیونکہ ہم عراقی حکومت سے مذاکراتی عمل کے تحت اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوششوں پر یقین رکھتے ہیں ۔یاد رہے اس سے پہلے 2005 میں بھی عراق میں ریفرنڈم کیا گیا جس میں 98 فیصد کردوں نے آزادی کی حمایت کی تھی ۔کردستان ریجنل گورنمنٹ کے مطابق علاقے میں تقسیم کا ذمہ دار سابق عراقی وزیر اعظم مالکی تھا جس نے اپنے دور میں کردوں پر تیل برآمد کے حوالے سے پابندیاں عائد کیں اور ان کو فراہم کی جانے والی فنڈنگ کو بھی روکا۔ مالکی دور کے خاتمے کے بعد حیدر العبادی نے عراق میں زمام اقتدار سنبھالی اور داعش کے خاتمے پر تمام گروہوں کو آمادہ کیا ۔یاد رہے عراقی سپریم کورٹ اور پارلیمان نے بھی ستمبر 2017 میں اس ریفرنڈم کو مسترد کیا۔
اس ریفرنڈم کے حوالے سے عراقی حکومت کا واضح موقف ہے کہ تمام عراقیوں کی رضا مندی کے بغیر اس اقدام کی کوئی حیثیت نہیں۔ جبکہ اب حکومت کی جانب سے کردوں کی فضائی حدود کو بھی بند کردیا گیا ہے ۔یاد رہے عراق میں پانچ ملین کرد آباد ہیں جو کہ کل عراقی آبادی کا سترہ فیصد ہیں ۔عراق میں مسعودبارزانی ستر کی دہائی سے مسلح جدوجہد میں ملوث رہے ۔ جبکہ صدام دور میں 1988 میں کردوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں پانچ ہزار کرد ہلاک ہوئے ۔یہی وجہ ہے کہ جب صدام دور 2003 اپریل میں اختتام پذیر ہوا تو کردوں نے قابض امریکی فوج کو خوش آمدید کہا۔
یوں کردوں کو عراقی معاشرے میں سانس لینے کا موقع ملا۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2005 کے نئے عراقی آئین میں کردستان ریجنل گورنمنٹ کو بھی قانونی کور دیا گیا۔ شام جو پہلے ہی داعش کی تباہ کاریوں اور خانہ جنگی سے نڈھال ہوچکا ہے۔ وہ بھی کردوں کی آزادی کی جانب کوششوں سے خاصا شاکی رہا ہے ۔شام میں کرد آبادی دو ملین کے قریب ہے جو کہ مجموعی شامی آبادی کا ۹ فیصد بنتا ہے۔ جبکہ کرد دمشق اور الیپو کے علاقوں میں اکثریت میں ہیں ۔اسی طرح ترکی کا رویہ بھی کردوں کے حوالے سے نہایت سخت رہا ہے ۔یہاں چودہ ملین کرد آباد ہیں ۔جو کہ مجموعی ترک آبادی کا اٹھارہ فیصد بنتا ہے۔ کردوں نے مصطفی کمال پاشا اور اس کے بعد 60 اور 80 کی دھائیوں میں لگے ترک فوجی مارشل لاء کے ادوار میں کئی سختیاں جھیلیں ۔1984 سے1999 کے دوران کرد مسلح تنظیم PKK کے ساتھ ترک فوج کی کئی خونریزجھڑپیں بھی ہوئیں ۔ترک صدر رجب طیب اردگان کے مطابق یہ ریفرنڈم عراقی سا لمیت کے منافی اور ایک ہمالیائی غلطی کے مساوی ہے ۔یہی نہیں ترکی نے کرد وں کو تیل کی تجارت کے حوالے سے پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
اس اقدام سے کردستان ریجنل گورنمنٹ کو شدید نقصان ہوسکتا ہے۔ ترک حکومت نے تیل کے حوالے سے اب براہ راست بغداد حکومت سے معاملات طے کرنے کا بھی اشارہ دیا ہے ۔جبکہ کرد تنظیم پشمگرہ کی فوجی تربیت سے بھی ہاتھ کھینچنے کی دھمکی دی جو کہ داعش کے خلاف کامیابی سے مدافعت کرچکی ہے ۔ جبکہ ترک میڈیا پہلے ہی اس اقدام کو صہیونیت کی جانب سے اس خطے میں قدم جمانے کی ایک مذموم کوشش سے تعبیر کر رہا ہے ۔تاکہ اس کرد ریاست کی آڑ میں دو لاکھ یہودیوں کو یہاں لا کر بسایاجا سکے ۔جبکہ دوسری طرف ایران بھی کرد ریفرنڈم کے حوالے سے گہرے تحفظات رکھتاہے ۔ایرانی روحانی رہنماء آیت اللہ خامنائی کے مطابق یہ اقدام عراق کو منقسم کرنے کی طرف اہم قدم ہے ۔یاد رہے ایران میں 8 ملین کرد آباد ہیں جو کہ مجموعی ایرانی آبادی کا دس فیصد ہیں ۔لیکن یہاں ترکی ،شام اور عراق کی نسبت کردوں کو معاشرے میں ایک بہترمقام دیا گیا۔
رضا پہلوی کے دور میں ان کو اعلیٰ عہدوں تک رسائی حاصل رہی ۔جبکہ شیعہ کردوں کی ایران حمایت نے بھی ایران میں کرد قومیت کو پنپنے نہیں دیا ۔تاہم 2004 سے کردوں کی تنظیم PJAK ایرانی فورسز کے ساتھ برسرپیکار ہے ۔جبکہ اب بدلتی صورتحال کے تناظر میں ایران، عراقی ملیشاز کے ذریعے کردوں کو عراق میں دبا سکتا ہے۔ جبکہ اس سارے کھیل میں اسرائیل نے کردوں کے حق خود ارادیت کی کھل کر حمایت کی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ برطانیہ اور امریکہ نے بھی اب اپنا رویہ بدلا ہے جو کہ جو ماضی میں کرد فیکٹر سے خاصے شاکی رہے ۔اب وہ کردوں کی فضائی ناکہ بندی اور تیل کے حوالے سے پابندیوں کے خلاف خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اور وہ کردوں کے مستقبل کے حوالے سے اب بغداد حکومت سے ڈیل کے خواہاں بھی نظر آتے ہیں۔
اس سیر حاصل بحث کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کردوں کے حق خود اردیت کے حوالے سے مشرق وسطیٰ ایک نئی کشیدگی کے دور میں داخل ہوا چاہتا ہے ۔جہاں ایک طرف خطے میں داعش کی ہوا اکھڑ رہی تھی وہاں اب کرد فیکٹر ترکی ،شام عراق اور ایران کے لیے سوہان روح بنا رہے گا۔ جبکہ اس تازہ ریفرنڈم کے نتیجے میں عراقی سماج مزید انتشار و افتراق کا شکار ہو جائے گا۔ جہاں پہلے ہی ایک غیر فطری عراقی قومیت وینٹی لیٹر پر آخری سانسیں لے رہی ہے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ سامراجی ممالک پہلی جنگ عظیم کے بعد عراق ،شام اور اردن کے قیام کے ساتھ ایک کرد ریاست کی بھی داغ بیل ڈال دیتے تو آج یہ مسئلہ دوبارہ سر نہ اٹھا پاتا۔ مگر اب لگتا ہے کہ ایک بار پھر سامراجی طاقتیں دوبارہ مشرق وسطیٰ کو انارکی کے ایک نئے الاؤ میں دھکیلنا چاہتی ہیں۔ اور بندر بانٹ کے اسی دور کو دہرانا چاہتی ہیں جب پہلی جنگ عظیم کے بعدجس طرح مشرق وسطیٰ میں غیر فطری بنیادوں پر لکیریں تراش کر ممالک بنائے گئے۔ تاکہ اس کی آڑ میں تاکہ خطے میں ہمیشہ تقسیم کرو اور لڑاؤ کے اصول کو تقویت دی جا سکے۔ صدام حسین کا تجزیہ اس پیرائے میں بالکل سچ ثابت ہوتا ہے کہ سامراج ہر دور میں عراق اور اس سارے خطے کی زبان ،تاریخ اور عرب ذہن سے نا بلد رہا ہے ۔ اس خطے کو اس کے موسم اور تاریخ کو جانے بغیر جاننا بہت مشکل ہے۔