اور ابھی کرسی آگے بڑھانے کا جھگڑا
فاروق احمد
جس فوج کے احساسِ کمتری کا یہ حال ہو کہ اس کی تمام تر توجہ اور وسائل اس مقصد پر مرکوز ہو جائیں کہ آرمی چیف کو وزیراعظم کی میز کے دوسری طرف سے اٹھا کر برابر والی کرسی پر بیٹھنے کا حق بحال کروانا ہے تو اس فوج کی من الحیث الادارہ ذہنی حالت پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
کل یعنی ۸ اگست کو فوج نے اپنا یہ تقدس بحال کروا لیا جب وزیر اعظم عباسی کے ساتھ آرمی چیف باجوہ کو اسی نمبر ون سائز کی کرسی پر بیٹھنے کی وڈیو آئی ایس پی آر کے ذریعے میڈیا پر چلوا دی۔ یقیناً یہ غزوہِ ہند اور لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے سے بڑا معرکہ تھا جس میں فوج سرخرو ہوئی۔ شاید اب سن اکہتر کی ہزیمت کا داغ بھی دھل گیا ہو۔
دراصل فوج یہ یقینی بنانا چاہتی ہے کہ اس کے مہیب انڈسٹریل ٹریڈ اینڈ بزنس ایمپائر کو کوئی ہاتھ نہ لگائے۔ ایک ہی وزیراعظم کا براجمان رہنا یہ اندیشہ اور جائز خدشہ پیدا کر دیتا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ معاملات پر اس کی بڑھتی ہوئی گرفت کہیں فوج کے آئینی مینڈیٹ سے تجاوز کر کے بنائے گئے 105 عدد کاروباروں پر مشتمل سلطنت کی شہہ رگ تک نہ جا پہنچے۔
فوج کا کام تجارت کرنا نہیں ہوتا لیکن کھربوں ڈالر کے اس ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس پر استوار ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی راج شاہی بخوبی آگاہ ہے کہ ایک معصوم اور بے ضرر، ہینڈ پکڈ اور فوجی بوٹ کے نیچے دبا ہوا سویلین وزیراعظم بھی خطرناک حد تک ضرر رساں ثابت ہو سکتا ہے۔ محمد خان جونیجو اور شوکت عزیز جیسے وزرائے اعظم کی ذات سے وابستہ منہ زوریوں اور حکم عدولیوں کے واقعات فوج کے کاروباری مفادات پر ہمہ وقت منڈلاتے اس زندہ خطرے کے گواہ ہیں۔
جس وقت عاصمہ جہانگیر اپنی حالیہ پریس کانفرنس کے ذریعے پارلیمنٹ میں دفاعی بجٹ پر کھلے مباحثے کی بات کرتی ہیں تو ان کا کم از کم ایک پاؤں فوج کی اسی دکھتی ہوئی رگ پر ہوتا ہے۔
سویلین سیٹ اپ پر فوجی بالادستی کی جان اس ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس میں ہے۔ جب تک فوج بزنس کر رہی ہے وہ سویلین سیٹ اپ کو دم نہیں لینے دے گی اور جب تک سویلین سیٹ اپ جان نہیں پکڑ لیتا وہ اس فوجی بزنس کے طوطے کی گردن نہیں مروڑ سکے گا۔ پارلیمنٹ کو کوشش کرنا ہو گی کہ وہ جلد از جلد پوری قوت سے اس سلسلے میں قانون سازی کرے اور فوج کے کاروبار بند کر کے اسے فوجیت کی بوتل میں بند کرے۔
فوج سے تصادم نہ کرنے اور ’’پنگا‘‘ نہ لینے کے مشوروں کا دور گزر چکا۔ زرداری اور نواز حکومتیں اپنی ذلت کی قیمت پر فوج سے تصادم سے حتی الامکان گریز کرتی رہیں لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا اور مشرف کو کھلا رستہ دیے جانے کے باوجود فوج خود سویلین حکومت کو ہڑپ کر جانے کے لیے بہانے گھڑتی رہی کبھی میمو گیٹ تو کبھی ڈان لیکس کے نام پر۔ اس بھیڑیے کی مانند جو بھیڑ کے بچے کو کھانے کے لیے مختلف بہانے تراشتا رہا۔
اب وقت آ گیا ہے کہ تمام مصلحتیں پس پشت ڈال کر پارلیمنٹ کے ذریعے ڈائریکٹ ایکشن لیا جائے اور فوج کو بیک جنبش قلم اس بنیاد سے محروم کر دیا جائے جس کو بچانے کی خاطر آئندہ بھی وزیر اعظم معزول کیے جاتے رہیں گے اور ادارے کمزور کیے جاتے رہیں گے۔ صاف ظاہر ہے کہ اب فوج میں وہ دم خم نہیں کہ مارشل لاء لگا سکے ورنہ یوں پانچ ججوں کے پیچھے چھپ کر وار کرنے میں اسے چار سال نہ لگ جاتے۔
مارشل لاء کا دور تمام ہوا اور اب رہ گئی ہیں تو صرف گیدڑ بھبھکیاں۔ اس لیے پارلیمنٹ کو چاہیے کہ اب کھل کر چڑھائی کر دے۔ جس دن یہ ہوا اس دن ساری دہاڑیں غراہٹیں خرخر اور ہاؤ ہاؤ ہاؤلنگ، زبان سے پاؤں چاٹتی چیاؤں چیاؤں اور میاؤں میاؤں میں تبدیل ہو جائیں گی۔