تربوزی سوچ ، یا سیب بڑا؟
از، نعیم بیگ
گذشتہ دنوں چلتے چلتے سڑک پر رکنا پڑا۔ گاڑی کے ایک پرزے فیول پمپ نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا، جس سے گاڑی میں پٹرول کی فراہمی رک گئی تھی۔ میرے ساتھ اگلی سیٹ پر نصف بہتر بیٹھی تھیں۔ پہلے سوچا یہی بہترین موقع ہے کہ انھیں زندگی بھر ساتھ رہنے کی سزا دی جائے۔ اور چلتی سڑک پر انھیں گاڑی کو دھکا لگانے پر لگا دیا جائے۔ پھر سوچا یہ تو کوئی سزا نہیں ہوئی۔ جرم تو بہت بڑا ہے، لہذا سزا کو موخر کرتے ہوئے خود اتر کر گاڑی کو سڑک کے کنارے کرنے کی ٹھانی۔
ابھی باہر نکلا ہی تھا کہ کسی چھنک کی آواز نے مجھے متوجہ کیا لیکن چونکہ مکمل توجہ تیزی سے لہراتی ہوئی قریب سے گذرتی تربوزی موٹر سائیکلوں پر تھی، جن کی بدولت پہلے بھی دو چار بار پسلیاں اور پاؤں سہلا چکا تھا۔ چھنک کی آواز پر توجہ نہ دے سکا۔ شیشہ اتار کر گاڑی کا سٹیرنگ گھماتے دھکا لگاتے ہوئے سامنے دیکھا تو ایک دس بارہ سال کا لڑکا کسی کو موبائل پر بتا رہا تھا کہ اسے یہ موبائل سڑک پر گرا ملا ہے۔ دوسری طرف سے یہ کہا گیا ہوگا کہ میری تو ابھی ان سے بات ہوئی تھی جس پر اس لڑکے نے کہا، مینوں کی۔ میں تے تربوز کھا رہیا ساں ؟ اور دوڑ لگا دی۔
اس لڑکے کے جواب اور دوڑ سے یکلخت ایک جھماکا میرے ذہن میں ہوا کہ میرا موبائل تو میری جھولی میں تھا وہ کہاں گیا؟ چھناکے کی آواز اب واضح ہونے لگی وہ میری جھولی سے سڑک پر گرنے والے میرے موبائل کی آواز تھی، جو اس لڑکے نے پلک چھپکتے ہی اٹھا لیا تھا جب میں آگے ٹریفک کو دیکھ رہا تھا۔ شور مچانے اور پکڑو پکڑو کی آوازوں میں لڑکے سے موبائل برآمد کروایا، اور مکینک کو فون کیا کہ بھائی آ جاؤ، ٹریفک میں پھنسا ہوں۔ اس نے کہا، کوئی پندرہ بیس منٹ میں پہنچتا ہوں، تربوز کھا رہا ہوں۔
اتنے میں سامنے والے گھر سے ایک گارڈ نکل آیا، جناب یہ گاڑی یہاں سے ہٹا دیں۔ میں نے بتایا کہ خراب ہو گئی ہے، مکینک کے آنے پر ہمیشہ کے لیے ہٹ جائے گی، ابھی چند لمحوں کے لیے برداشت کرلیں۔ وہ منھ سا بنا کر وی آئی پی ڈیوٹی دینے لگا، لیکن مجھے لگا کہ اب میں اور نصف بہتر اس کے لیے ایک سیکورٹی تھریٹ بن چکے ہیں۔ وہ ہمیں مسلسل گھور رہا تھا۔
اتنے میں فون بجا، سنا تو “اپنے مہین خان” تھے۔ ممیائی اور منحنی آواز میں مجھے بے نقط سنانے لگے۔
” ارے میاں، عجیب بے ہنگم معاشرہ ہے۔ جہاں دیکھو تربوزی سوچ ہے، “راستے بند ہیں، پیدل ہی تمہاری بھابھی کو لے کر ہسپتال جا رہا ہوں۔ اگر جلدی مر گئی تو بہرحال شام تک پہنچ جانا۔ جنازہ صبح ہی کروں گا۔
” خان صاحب! ہوا کیا؟ ” میں پوچھ بیٹھا۔
اب خان صاحب نے حسب عادت لمبی داستان شروع ہی کی تھی کہ میں نے ٹوک دیا۔ بھائی سڑک پر کھڑا ہوں۔ گاڑی خراب ہو چکی ہے۔ طویل بات نہیں کرسکتا۔ فوراً مجھے ٹوکا “اچھا تم تربوز کھاؤ” تم میں حوصلہ اور برداشت کا مادہ بڑھے گا۔”
میں اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔
اُسی روز اپنے رفیع اللہ میاں نے اچانک فیس بک پر ایک پوسٹ لگا دی ” اردو تنقید کا سب سے بڑا سوال، تربوز بڑا کہ سیب؟ “
چاروں طرف ہاہا کار مچ گئی۔
آدم شیر نے کہا، ” تنقید کو گولی مارو، جو کھلاؤ گے کھا لوں گا ! “
آدم شیر سکہ بند صحافی ہے۔ صبح سے اخبار میں بیٹھا بھوک سے نڈھال ہو چکا ہوگا۔
تب لندن سے عاقب محمود مسکراتے ہوئے پاس سے گزر گئے۔ میں نے دیکھا ایک جم غفیر ان کا راستہ روکے ایک چوک میں دھرنا دیے بیٹھا ہے، ہاہاہا، اور مسکرائیے؟
میں دبے لہجے میں بولا۔
انیلا اسد نے مسکرا کر کہا، “دیکھا جائے تو تربوز، سوچا جائے تو سیب۔”
خواتین کی سوچ بھلا اس دور میں کیونکر ہمہ جہت نہ ہو۔ ابھی تو انھوں نے بصیرت اور بصارت کی ہی بات کہی ہے۔ لطف و سزا و جزا کی بات نہیں چھیڑی۔
کشمیر سے ایک دوست ڈاکٹر ریاض توحیدی نے فوراً ورچوئیل بارڈر کراس کیا اور بولے، یہ تو تولنے کے بعد معلوم ہوگا”۔ دوسرے لفظوں میں وزن کہاں ہے؟
دلائل میں جہان سوال کا چارہ نہ ہو، تو وزن کہاں سے آئے گا؟ لوگوں نے اپنی سوچوں پر اسلحہ بردار پہرے دار بٹھال رکھے ہیں۔ جڑواں شہر ہی کو دیکھ لیں۔
جب ہم نے سوال اٹھایا تو رفیع اللہ میاں کہنے لگے، “آپ کا کیا خیال ہے کہ آج کل تربوزی تنقید ہو رہی ہے۔” ہم نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا بات صرف تنقید تک محدود نہیں رہی بلکہ پورے معاشرے میں ہماری سوچوں پر تربوزی رنگ و بو اور بصیرت چھا چکی ہے۔”
اس پر شیخ نوید کہنے لگے، “مہنگائی کا زمانہ ہے۔ غریب تنقید نگار تربوز کو ہی ترجیح دے گا۔ “
اس مہنگائی میں بریانی اور دیگر لوازمات بشمول حلوہ کی تو مسلسل کھپت ہو رہی ہے۔ لاکھوں کا بجٹ کروڑوں میں جا چکا ہے۔ دباؤ ہے کہ بڑھ رہا ہے۔ لیکن پشتو میں کہا جاتا ہے، “نے منم”
اسی اثنا میں ڈاکٹر صولت ناگی آسٹریلیا سے آن پہنچے۔ بورژوائی معاشروں میں جہاں صرف تعداد دیکھی جاتی ہے سیب اور تربوز میں کوئی فرق نہیں۔ “
ڈاکٹر صولت ہمیں دیکھتے ہوئے مسکرانے لگے، انھیں اندازہ ہے کہ یہاں سیب کم کھائے جاتے ہیں۔
سو میاں رفیع اللہ کی پوسٹ پر یاروں نے خوب دل کی بھڑاس نکالی۔ لیکن بات یہیں تک محدود نہیں۔ سوشل میڈیا تو اس وقت تمام سماجی ابلاغی ضروریات پوری نہیں کر سکتا۔
کیا اس سماج میں کبھی پیاز اور جوتے ایک ساتھ اور کبھی تربوزی سوچ ہمارے پیرہن سے اترے گی کہ نہیں؟ یہ بڑا سوال ہے۔
ایک اور دوست نے کہا، “ہم نے سوچوں کو صدیوں پہلے جو پیرہن پہنائے تھے اب تک وہی چل رہے ہیں، پھٹ چکے ہیں، لیکن بدلنا نہیں چاہتے۔
دھرنے کو پندرہ دن ہو گئے ہیں۔ یہاں سارے گر آزما چکے۔ مذاکرات ہو چکے۔ سینٹ کے چیرمین وار لارڈز کی نشان دہی کر چکے۔
تو میرے ذہن میں ایک سوال آیا کیا اب ہم ہمیشہ تربوز ہی کھائیں گے؟
بشکریہ محترم رفیع اللہ میاں روزنامہ ایکسپرس کراچی