کیا بولی وڈ کے پاس خانز کا متبادل موجود ہے؟
از، حسین جاوید افروز
بمبئی کی فلم نگر ی نے آزادی سے لے کر اب تک ہر دور میں لازوال فلموں اور صف اول کے اداکاروں کے ذریعے ساری دنیا میں اپنی صلاحتیوں کا لوہا منوایا ہے۔ آج جب ہم 50 کی دھائی کی بات کریں کہ تو ہمارے سامنے پرتھوی راج کپور، اشوک کمار، دلیپ کمار، راج کپور، دیو آنند ،سنیل دت بلراج ساہنی ،گرودت جیسے عظیم فنکار آن موجود ہیں جنہوں اپنی جذباتی کردار نگاری سے ایک عالم کو مہبوت کئے رکھا۔ اس کے بعد 60 کی دھائی پر نظر دوڑائی جائے تو باکمال اداکاروں کی نئی کھیپ بھی فلم بینوں کو جاندار اداکاری کے ذریعے گرما دیا کرتی تھی ۔جب پردہ سکرین پر شمی کپور ،ششی کپور ،راج کمار ،منوج کمار ،پردیپ کمار اور راجندر کمار نے سنیما پر اپنی گہری چھاپ چھوڑی۔
اس کے بعد 70 کی دھائی میں فلم نگری میں ٹرینڈ بدلتے ہیں اور تاریخی و معاشرتی مسائل اور رومانوی موضوعات کے ساتھ اب ایکشن پر مبنی فلمیں بھی عوام کو اپنی سحر میں گرفتار کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ اس دور میں فیروز خان ،دھرمیندر ،جتیندر ، ونود کھنہ اور شترو گھن سنہا کا سکہ چلتا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اس دور کی نمایاں اور تاریخ ساز خصوصیت بلاشبہ ہندی فلموں کے پہلے سپر سٹار راجیش کھنہ تھے جن کے البیلے ڈانسنگ اسٹائل، اور ہلکے لہجے میں رومانوی مکالمے کی ادائیگی نے ایک پوری نوجوان نسل کو اپنا دیوانہ بنا دیا۔ ایسے میں فلم نگری میں سٹار ڈم کا مظہر سامنے آیا جب راجیش کھنہ کی لگاتار سولہ فلمیں باکس آفس پر دھوم مچاتی گئیں۔
کسی بھی فلم میں کھنہ کی دلفریب موجودگی فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جانے لگی۔ لیکن کچھ سال بعد رومانوی رنگ پھیکا پڑ گیا اور اس کی وجہ پردہ سکرین پر امتیابھ بچن کی دھماکے دار انٹری تھی۔ جس نے ایک رومانوی ہیرو کی امیج کو نا انصافیوں کے خلاف لڑنے والے نوجوان سے بدل کر رکھ دیا اور اینگری ینگ مین کی امیج نے بولی وڈ کو ایکشن فلموں کے ایک لامتناہی دور میں داخل کردیا ۔امتیابھ بچن اپنی ورسٹائل اداکاری، آنکھوں سے غصے کے تاثرات دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔
بلاشبہ انہی خصائص کی بناء پر ان کو ہندی سنیما کا دوسرا عظیم سپر اسٹار قرار دیا گیا اور دو دھائیوں تک امتیابھ کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا۔ 80 کی دھائی میں امتیابھ بچن کی سیاست میں انٹری اور فلموں سے دوری سے بولی وڈ میں ایک خلاء پیدا ہوگیا اور اس خلاء کو انیل کپور، سنی دیول اور سنجے دت بھی بھر نہیں سکے۔ ایسے میں فلم انڈسٹری میں عامر ،سلمان کی آمد ہوئی اور دونوں ہی نوجوان ہیروز نے ابتدائی سالوں میں خود بطور رومانوی ہیروبلندیوں پر پہنچا دیا۔ ان پر فلمائے گئے گانوں’’اے میرے ہمسفر اور دل دیوانہ‘‘ نے یوتھ کو اپنے کریز میں لے لیا۔
لیکن جلد ہی دونوں کو چند کمزور سکرپٹ پر مبنی فارمولا فلموں کی بدولت ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑا ۔یوں 90 کی دھائی میں تیسرے خان شاہ رخ نے بھی پہلی فلم سے ہی اپنی موجودگی کا احساس دلا دیا ۔مزے کی بات یہ رہی کہ شاہ رخ نے ابتداء میں ہی ڈر اور بازی گر کے ذریعے منفی کرداروں سے جاندار ایکٹنگ کرتے ہوئے اپنی شناخت مضبوط کردی۔ جبکہ اس سے قبل عامر اور سلمان انہی دونوں فلموں میں کام کرنے سے معذرت کرچکے تھے ۔ان تینوں کی آمد اور رومانیت سے جذباتیت پر مبنی فلموں نے فلم بینوں کو امتیابھ بچن کے بعد گویا سٹار پاور کا نیا م مظہر دیا۔
جہاں سلمان ’’ہم آپ کے ہیں کون سے ہم دل چکے صنم ‘‘تک اور عامر ’’رنگیلا سے سرفروش اور غلام ‘‘کے ذریعے عوام میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کر رہے تھے وہاں شاہ رخ نے بھی’’ دل تو پاگل ہے، کچھ کچھ ہوتا ہے ،دل وال دلہنیا لے جائیں اور محبتیں‘‘ کے ذریعے خود کو بولی وڈ کا بادشاہ ثابت کیا ۔یہاں ایک بات بھی قابل غور ہے کہ ان تینوں خوانین نے اپنے فلمی کیرئیر میں کئی غیر معیاری فلمیں بھی کیں جیسے سلمان کی ’’ایک لڑکا ایک لڑکی ،سنگدل صنم چاند کا ٹکڑا ،عامر کی ’’دولت کی جنگ ،آتنک ہی آتنک ‘‘جبکہ شاہ رخ کی ’’گڈو ،دل آشنا ہے اور زمانہ دیوانہ‘‘ شامل ہیں۔
لیکن جلد ہی انہوں نے اپنی غلطیوں سے سیکھا اور بہتر اور اچھوتے موضوعات پر مبنی فلموں کا انتخاب کیا ۔جیسے عامر خان ’’منگل پانڈے ،لگان ،دھوبی گھاٹ اور گجنی ‘‘کے ذریعے منفرد اداکاری کرتے دکھائی دیے ۔وہاں سلمان نے ’’وانٹڈ،دبنگ سیریز ،بجرنگی بھائی جان اور ایک تھا ٹائیگر‘‘ میں خود کو منوایا ۔اسی طرح کنگ خان نے ایک رومانوی ہیرو کی امیج سے ہٹ کر’’سوادیش ، ہے رام ،چک دے انڈیا ،فین ،رئیس اور مائی نیم از خان‘‘ میں خود ایک ورسٹائل ایکٹر کے طور پر ساری دنیا میں منوایا ۔خصوصاٰ سن95 سے تاحال بولی وڈ کو ان تینوں نے سارے دنیا میں پرموٹ کرنے میں کلیدی کردار نبھایا۔
عامر جہاں ایک کامل اورمنفرد اداکار کے طور پر جانے جاتے ہیں وہاں سلمان خان اپنے ایکشن اور سٹائلش ترین شحصیت کے طور پر کروڑوں دلوں کی دھڑکن بن چکے ہیں۔ جبکہ شاہ رخ اپنی حساس اور اپراعتماد ایکٹنگ سے ایک دیومالائی کردار بن چکے ہیں۔ انہی کی بدولت آج ہندی فلمیں بھارت سے باہر اوور سیز میں بھی اپنا مقام بنا چکی ہیں۔
اس وقت سوال یہ ہے کہ کیا بولی وڈ میں عامر ،سلمان اور شاہ رخ کے عہد ساز دور کے بعد ہمارے سامنے کون سا ایسا اداکار ہے جو ان جیسے بھاری بھرکم سٹارڈم کا مالک بن سکے؟جس کو سٹائل آئی کون مانا جائے اور جس کی فلموں کی رہلیز پر ایسا کریز ہو کہ جیسے دنیا جیسی پاگل ہوتی ہوئی دکھائی دے۔ فی الحال ہمارے سامنے رنبیر کپور اوررنویر سنگھ کے نام ہی سامنے آتے ہیں جو کہ اپنی جگہ متاثر کن ہیروز ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ رنبیر کپور کو فلمی صنعت میں ایک دھائی کا عرصہ بیت چکا ہے مگر ماسوائے’’برفی اور راک سٹار‘‘ کے علاوہ ان کے کریڈٹ پر فلمیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بلکہ ان کو تو رنویر سنگھ نے ہی خاصی ٹکر دے رکھی ہے جو’’باجی راؤ مستانی ، رام لیلہ اور اب پدما وتی‘‘ میں شاندار اداکاری کے ذریعے اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔
تاہم رنویر کو ابھی خانز کے نقش قدم کو پانے کے لیے ایک ہمالیائی سفر طے کرنا ہوگا۔ رہے اکشے کمار تو انہوں نے ہمیشہ سے خانوں کے بعد خود کو’’ رستم ، بھول بھلیاں،گبر اور اےئر لفٹ‘‘ کے ذریعے ایک غیر معمولی پرفارمر ثابت کیا ہے ۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہ ابھی تک سٹار ڈم تک نہیں پہنچ پائے۔ جبکہ ہرتیک روشن جودھا اکبر کے بعد سے اب تک جدوجہد کے مرحلے میں ہی موجود ہیں۔ ہم یہاں شاہد کپور کو بھی فراموش نہیں کرسکتے جنہوں نے’’حیدر ،رنگون ،جب وی میٹ اور اڑتا پنجاب‘‘ میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا مگر ان میں بھی سٹار پاور والی بات نظر نہیں آتی۔
اس کا سب سے بڑا ثبوت تینوں خانوں کی حالیہ کچھ عرصے میں رہلیز ہونے والی فلمیں ہیں جن کا بزنس بھارت میں اور بھارت سے باہر چکرا کر رکھ دیتا ہے۔ شاہ رخ کی فلمیں چند سال پہلے تک سلمان اور عامر کی فلموں کے مقابلے میں کہیں زیادہ منافع کی حامل تھیں۔ خصوصاٰ کبھی الوداع نہ کہنا، مائی نیم از خان ،اوم شانتی اوم کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں مگر اب سلمان اور عامر ان سے بزنس کی دوڑ میں آگے جاچکے ہیں ۔پھر بھی کنگ خان کی فلموں کی لاگت اور کمائی کا فرق دیکھیں تو چنئی ایکسپریس ایک ارب کی لاگت سے بنائی گئی اور اس نے 423 کروڑ کا منافع کما کردیا۔
جبکہ ہیپی نیو ایئر150 کروڑ میں تیار ہوئی اور 397 کروڑ کمانے میں کامیاب ہوئی۔ دل والے پر 150 ارب لاگت آئی جبکہ اس کا منافع 390 کروڑرہا۔ اگر رئیس فلم کی بات ہو تو اس کی تیاری میں 127 کروڑ روپے لگے اور اس کا منافع 308 کروڑ رہا ۔جبکہ شاہ رخ کی ڈبل رول والی فلم فین 150 کروڑ میں تیار ہوئی اور اس نے 188 کروڑ روپے منافع کمایا۔ دبنگ خان کی بات کی جائے تو پچھلے چھ سالوں سے ان کی فلمیں سونا بن کر منافع کمانے میں مگن رہی ہیں۔جیسا کہ دبنگ ٹو 400 کروڑ کمانے میں کامیاب رہی۔
بجرنگی بھائی جان 90کروڑ کی لاگت سے بنی اور اس کا بزنس ساڑھے 6 ارب تک پہنچ گیا ۔سلطان کی تیاری میں بھی 90 کروڑ صرف ہوئے مگر اس کا منافع پونے 6 ارب تک گیا ۔جبکہ اس سال سلمان کی قدرے ناکام رہنی والی فلم ٹیوب لائٹ بھی 211 کروڑ جمع کر گئی۔ اب بات ہوجائے انڈسٹری کے سب سے کامل اور ذہین ایکٹر عامر خان کی جنہوں نے تمام اعداد و شمار الٹ کر رکھ دیے اور ان کی فلم دنگل نے ساری دنیا بشمول ہندوستان سے 2000 کروڑ کی افسانوی کمائی کی۔
یاد رہے یہ فلم محض 70 کروڑ میں بنی تھی۔ دنگل نے باہو بلی کا 1700 کروڑ کا کمائی کا ریکارڈ بھی چکنا چور کردیا۔ جبکہ اس سے پہلے فلم PK نے بھی 7 ارب روپے کا منافع کمایا جو کہ75 کروڑ کی لاگت سے تیار کی گئی۔ جبکہ عامر کی ہی دھوم تھری نے بھی کمال کر دکھایا اور 125 کروڑ کا خرچہ 500 کروڑ منافع کے ساتھ پورا کیا۔ ایسے میں تھری ایڈیٹ بھی کیسے پیچھے رہتی۔ محض 50 کروڑ کی لاگت سے بننے والی یہ فلم بھی 400 کروڑ کمانے میں کامیاب رہی۔
یہ ناقابل یقین اور چکرا دینے والے اعداد و شمار ہی ان تینوں کے سٹار ڈم کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بولی وڈ میں فلمی کاروبار ان تینوں سپر سٹارز عامر ،سلمان اور شاہ رخ کے نام پر ہی چلتا ہے ۔ کیونکہ عامر کا اچھوتے اور حساس موضوعات اور اپنے گیٹ اپ پر جان توڑ محنت ، شاہ رخ کا ہاتھ لہراکر ایک خاص ہی انداز میں کھڑا ہونا اور سلمان کا محض اپنی بیلٹ کو حرکت دے کر اربوں کی کمائی لوٹ لینا ہی وہ عنصر، وہ سٹار ڈم اور کرشمہ ہے جس کو دوہرانا مستقبل قریب میں کسی بھی اور ہیرو کے لیے ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
آخر میں ایک مفروضاتی مگر دلچسپ بات پر اس بحث کو ختم کرتا ہوں کہ اگر آج انداز اپنا اپنا کے سیکوئل میں سلمان اور عامر ایک بار پھر امر پریم بن کر سکرین پر جلوہ گر ہوجائیں، یا پہلی بار شاہ رخ اور عامر کا ٹکراؤ ایک فلم میں میں فلم بینوں کو دیکھنے کو مل جائے۔ یا چلیں جانے دیں اگر سلمان اور ایشوریا رائے کو ایک بار پھر کسی فلم میں ساتھ کاسٹ کرنے کا اعلان ہی کردیا جائے تو ا ن ساری فلموں کا بزنس رہلیز سے پہلے ہی تمام سابقہ ریکارڈز پانی کی طرح بہا کرلے جائے گا۔ لہذا آج بھی بولی وڈ کے پاس ڈان کا کوئی متبادل نہیں، آج بھی سلطانی اکھاڑے میں سلمان کے آگے کوئی دم مارنے کی مجال نہیں کرتا اور آج بھی حساس موضوعات پر فلمیں اچھوتے طرز میں کاملیت کے ساتھ پیش کرنے کا دنگل عامر کے سوا کوئی جیتتا دکھائی نہیں دیتا۔