کیا اردو مذہبی زبان ہے ؟
(جمیل خان)
اردو زبان کے حوالے سے ہندوستان و پاکستان میں جس قدر تحقیقی کام ہوا ہے اور اس تحقیق کے نتیجے میں جس قدر شواہد سامنے آئے ہیں انہیں سامنے رکھا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اردو زبان کا ابتدائی نام اردو نہیں بلکہ ہندی یا ہندوی تھا اور حافظ محمودشیرانی سے لے کر ڈاکٹر سینتی کمار چیٹرجی تک تمام لسانی محققین کی اکثریت کا اس امر پر کُلّی اتفاق ہے۔
قاضی خان بدر (812 ہجری) سے لے کر 17422ء میں سراج الدین خان آرزوؔ تک سب ہی قدیم لغت نویسوں نے ہندوستان کی زبان کو ’’ہندوی‘‘ یا ’’ہندی‘‘ لکھا ہے۔ علاوہ ازیں ’’مفتاح الفضلائی‘‘ (873 ہجری) اور ’’دستور الصبیان‘‘ وغیرہ میں بھی اسے ’’ہندی‘‘ ہی لکھا گیا ہے۔
خواجہ نصیر الدین چراغ دہلویؒ (جو حضرت خواجہ نظام الدینؒ کے خلیفہ ہوئے)، مشرف الدین یحییٰ منیریؒ اور اشرف جہانگیر سمنانی وغیرہ نے بھی اپنی تحریروں اور اقوال میں ہندوستان میں رائج زبان کو ہندی یا ہندوی کے نام سے پکارا ہے۔ میراں جی شمس العشاق (وفات 1496ء)، شاہ برہان الدین جام (وفات 990 ہجری) اور جعفر زٹلی (1712ء۔1657ء) کے ساتھ ساتھ عہد بیجاپوری کی کتاب ’’ابراہیم نامہ‘‘، ملاوجہی کی ’’سب رس‘‘ (1635 ہجری) اور فضلی کی ’’وہ مجلس‘‘ (1723ء) وغیرہ وغیرہ، سب ہی میں اس زبان کو ہندی یا ہندوی کہا گیا ہے۔
شاہ عبدالقادرؒ نے اپنے ترجمۂ کلام پاک (1791ء) کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ یہ ہندی میں ہے۔ شمس الدین قادری کے بقول دکن میں ابراہیم عادل شاہ (941 ہجری) نے حکومت سنبھالتے ہی فارسی کی جگہ ہندی زبان کو دربار کی زبان قرار دیا چنانچہ خافی خان نے اس ضمن میں تحریر کیا ہے ’’ابراہیم عادل شاہ دفتر فارسی کہ بجائے ہندی جدوپدر او قرار دادہ بودند، بر طرف نمودہ سابق ہندوی مقرر نمود۔‘‘
(اردوئے قدیم۔ صفحہ 75)
اردو زبان کے نام کی وجہ سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ یہ کوئی لشکری بولی تھی کیونکہ اردو ترکی زبان میں لشکر کو کہتے ہیں۔ بعض لوگوں کو یہ دھوکہ ہوا کہ یہ زبان شاہجہاں کے عہد میں پیدا ہوئی اور اسی مناسبت سے شاہجہاں کے مشہور بازار اردوئے معلّٰی کی وجہ سے اس کا نام پڑگیا۔ یہ سب باتیں صریحاً غلط ہیں۔ غالب کے ایک عزیز اور نامور شاگرد علاؤ الدین علائی (وفات 31 ، اکتوبر 1884ء)کا ایک نادر مضمون ’’ریختہ کی کہانی علائی کی زبانی‘‘ ہے۔ یہ مضمون اُنہوں نے 5 مئی 1866ء کو ’’دلّی سوسائٹی‘‘ کے ایک اجلاس میں پڑھا تھا۔
ان کے بقول ’’واضح ہو کہ ’’لشکر‘‘ کو فارسی میں اردو کہتے ہیں، جس کا ترجمہ عربی میں جیش اور انگریزی میں کیمپ اور آرمی کے ہیں۔ ہر چند کہ بعض لوگ اردو کو بمعنی لشکر لفظ ترکی بتاتے ہیں، مگر یہ لفظ فارسی کا ہے، باایں حال جب اس زبان نے ترکیب پائی اور لشکر کے بازار گاہ میں جہاں اطراف و اکنافِ عالم کے تجّار آجاتے تھے، صرفِ محاورات و مکالمات ہوتے تو یوماً بعد یوم اس کی ترقی ہوتی گئی۔۔۔۔۔ از آنجاں کہ بعد عہدِ اکبر زمانہ شاہجہاں آباد قرار پایا اور خود اپنی ذات سے بادشاہ بھی اس جامتمکن بہ دوام رہا تو نام اس لشکر کا تعظیماً اُردوئے معلّٰی رکھا جس کا ترجمہ انگریزی میں رائل کیمپ ہوسکتا ہے۔‘‘
(ماہِ نو۔ مارچ، 1959، جلد 12، نمبر 3)
معروف محقق ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کتاب ’’اردو کی ادبی تاریخ کا خاکہ‘‘ میں تحریر کرتے ہیں:
’’اردو لشکری بولی نہیں اور نہ ہی کسی لشکر کی کوئی خاص بولی تھی اور نہ کہ یہ شاہجہاں کے عہد میں پیدا ہوئی۔‘‘
(صفحہ 9)
اس زبان کو ’’اردو‘‘ کا نام دے کر اِسے صرف مسلمانوں کی زبان قرار دینا دراصل انگریزی عہد کی منظّم سازش ہے، جو ولیم فورٹ کالج کے تحت پروان چڑھائی گئی۔ اس حوالے سے دلائل ہم اگلے باب میں پیش کریں گے۔ پہلے ہندوستانی زبان جسے ہم آج اردو اور انڈیا والے ہندی کہتے ہیں، سے ابتداء میں ہندو مذہب کے لوگوں کے گہرے تعلق کی نشاندہی کرنا چاہیں گے۔
مولانا عبدالحلیم شررؔ اپنے ایک مضمون ’’ہندوؤں کا تعلق اردو سے‘‘ میں تحریر کرتے ہیں:
’’اردو سے اگرچہ ہندو اور مسلمانوں دونوں کا قریبی تعلق ہے اور دونوں اس کے پیدا کرنے والے ہیں، مگر ہندوؤں کا تعلق زیادہ مضبوط اور بڑھا ہوا ہے۔۔۔۔۔ خسروؒ کے بعد ہندوؤں نے فارسی پڑھ کر سلطنت کے دفاتر میں ملازمت شروع کی اور اسی کے مقابلے میں بعض ریاستوں نے جہاں ہندو راجاؤں کی حکومت تھی، اپنے دفاتر میں خاص ہندوستان کی وطنی زبان کو برقرار رکھا اور مسلمان ان ریاستوں میں ملازمت کے حصول کے لئے یہاں کی وطنی زبان علمی حیثیت کے ساتھ سیکھنے لگے۔‘‘
(اقتباس: اردو سے ہندوؤں کا تعلق۔ ڈاکٹر اجمل اجملی)
فارسی زبان میں ہندوؤں کی ترقی مسلمانوں سے کسی طرح کم نہیں تھی، یہاں بوجۂ طوالت ہم ایسے ہندو علماء وفضلاء کے نام پیش کرنے سے معذور ہیں، مگر حقائق ثابت کرتے ہیں کہ اردو کو فارسی زدہ کرنے میں مسلمانوں کی بہ نسبت ہندوؤں کا زیادہ کردار ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا والیوم 2 کے محقق نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے۔۔۔۔۔ مولوی عبدالحق تحریر کرتے ہیں ’’مسلمان جب یہاں آکر بس گئے اور اُن کا اپنے سابقہ وطن سے کوئی تعلق باقی نہ رہا تو فطری طور پر اُن کا تعلق ہندوستان کے اصل باشندوں کے ساتھ بڑھنا شروع ہوا۔
میل جول کا سب سے بڑا ذریعہ زبان ہوتی ہے۔ اس زمانے میں دفتری زبان فارسی تھی، دربار کی سرکاری زبان بھی فارسی تھی اور مکتبوں اور مدرسوں میں بھی فارسی پڑھائی جاتی تھی۔ نتیجے میں ہندوؤں کو سرکاری دربار تک رسائی کے لئے فارسی سیکھنا لازم تھا چنانچہ فارسی ہندوؤں کی بول چال، تحریر و تقریر میں اس طرح رچ بس گئی کہ اُنہوں نے دانستہ یا نادانستہ فارسی زبان کے ہزار ہا الفاظ بلاتکلف اپنی زبان میں داخل کرلئے۔ یہ جو ہمیں الزام دیا جاتا ہے کہ ہم نے ہندوستانی زبان میں بہت سے عربی و فارسی الفاظ بھردیے ہیں، بالکل غلط اور بہتان ہے۔ عربی فارسی کے لفظوں کو اردو میں داخل کرنے والے ہندو ہیں نہ کہ مسلمان‘‘۔۔۔۔۔ (خطبات۔ صفحہ 163-162)
سرتیج بہادر سپرو بھی اردو زبان کو ہندو اور مسلمانوں کا ناقابلِ تقسیم ترکہ بتاتے ہیں اور علامہ صفیؔ لکھنوی کے تاثرات بھی اِسی بنا پر یہی ہیں کہ
فارسی ہندی کی آمیزش سے ہے اِس کا وجود
یادگارِ اتحادِ اہلِ اسلام و ہنود
مولوی عبدالحق تحریر کرتے ہیں:
’’فورٹ ولیم کالج کے قیام سے قبل اردو زبان کو ناگری رسم الخط میں لکھنے کا شاید کسی کو خیال بھی نہ گزرا ہوگا۔ اس کالج کے اربابِ حل و عقد کی جانب سے ہندوؤں کے لئے ناگری رسم الخط تجویز کیا گیا اور اُن کی زبان کا نام ’’ہندی‘‘ رکھا گیا اور مسلمانوں کے لئے فارسی رسم الخط میں لکھی جانے والی زبان کا نام ’’اردو‘‘ تجویز کیا گیا۔ گارسن دتاسی کے الفاظ ریکارڈ پر ہیں کہ ’’ایسٹ انڈیا کمپنی سرکار کی ابتداء سے یہ حکمت عملی رہی تھی کہ اردو کو ہندی سے علیحدہ تصور کیا جائے۔‘‘
(خطبات 526 لیکچر 1866ء)
اہم نوٹ: یہ اقتباس مصنف کی زیرِ قلم کتاب ’’محبت کی زبان‘‘ سے پیش کیا گیا، جس کا موضوع اردو زبان ہے، جسے برصغیر کے مسلمانوں کی گویا مذہبی زبان سمجھ لیا گیا ہے، زبان کوئی بھی ہو کسی بھی مذہب سے کسی بھی صورت کوئی علاقہ نہیں رکھتی، مزید یہ کہ زبان بولی ہے، جو بولی جارہی ہے، وہی زبان ہے، اور ایک زبان کئی رسم الخط میں لکھی جاسکتی ہے۔ اس عمدہ موضوع پر یہ زیر تحریر کتاب اپنے ناشر کی تلاش میں بھی ہے۔