لا حاصل

ڈاکٹر عبدالواجد تبسم

لا حاصل

از، ڈاکٹر عبدالواجد تبسم

دنیا کی زندگی حاصلات کا مجموعہ ہے۔ انسان دنیا میں آنکھ  کھولنے اور پھر یہاں سے جانے تک اسی چکر میں رہتا ہے کہ کچھ نہ کچھ حاصل کر لے۔ یہ حاصل کرلے، وہ حاصل کر لے، گویا اس کی ساری تگ و دو اسی مادیت کے حصول کی سرگردانی ہے اور پھر وہ جس چیز کو حاصل کر لیتا ہے تو اسے ایک طرح کی مسرت حاصل ہو جاتی ہے جو محض وقتی ہوتی ہے کہ اس نے کچھ حاصل کر لیا ہے۔ وہ تھوڑی دیر کے لیے اس سے دل لبھاتا ہے اور پھر اسے اتنی نا قدری سے پھینک دیتا ہے کہ جیسے بچہ نئے کھلونے کی طرف لپکتا ہے اور دو چار دن کے بعد جب اس کی چمک دمک سے اس کا دل بھر جاتا ہے تو وُہی دیدۂِ زیب کھلونا کبھی پاؤں کی ٹھوکر سے ادھر جاتا ہے اور کبھی ادھر، انسان کی ساری زندگی کی تلاش بھی اسی جستجو اور طلب کے گرد گھومتی ہے اور آپ اگر کوئی ایسا کام کر رہے ہو کہ بظاہر جس کا کوئی حصول نظر نہیں آتا تو آپ کو ہر ایک دیوانہ، پاگل، بے وقوف اور نہ جانے اور کن کن خطبات سے نوازے گا۔

ایک دوست نے کہا کہ میں زندگی کے اس حصے میں ہوں کہ میں نے مادی حوالے سے سب کچھ حاصل کر لیا ہے، اب سوچتا ہوں اور کیا کروں، مجھ میں اب اور کہیں جانے کی چاہ نہیں ہے، اور مزید آگے بڑھنے کی صلاحیتیں سلب ہو چکی ہیں۔ میں ساری زندگی حاصلات کی تلاش میں رہا اور سب کچھ حاصل بھی کر لیا ۔ اب میں تمہیں دیکھتا ہوں تو مجھے تمہارا سفر مثلث کے عمودی زاویے کی صورت مسلسل مائل بہ ارتقا نظر آتا ہے اور میں ااسی مثلث کے وتری زاویے سے نزول کی طرف جا رہوں، میں نے کہا آپ سے یہ کس نے کہہ دیا کہ میں حاصلات کی تلاش میں ہوں۔

میری زندگی تو اب تک لا حاصل کی تلاش میں رہی ہے۔ جو مجھے حاصل ہے وہ تو مجھے ملنا تھا، یہ الگ بات ہے کہ اس میں میری جستجو اور کوشش بھی شامل تھی مگر مجھے یہ مادی چیزیں تسکین نہیں دیتیں اور میرے نزدیک ان کی اہمیت ضرورت سے زیادہ نہیں۔

میں کسی ایسی منزل کی تلاش میں ہوں جس کا بظاہر کچھ بھی تو حاصل نہیں مگر میری تسکین اسی لا حاصلی میں ہے کسی اُلُوہی تصور میں کھوئے رہنا۔ کسی لا حاصل کی تلاش میں رہنا اور اسی تلاش میں خود کو مٹا دینا میری زندگی کا حاصل ہے۔ میرے جسم کا مادی وجود مسلسل زمین کے پا تال کی جانب گام زن ہے، جب کہ میری روح عالم بالا کے تصورات میں گم ہے۔ کیوں کہ مجھے پتا ہے کہ اس جسمِ خاکی کی بدولت میں کبھی حاصلات کی دنیا سے باہر نہیں آ سکوں گا اور میری سعی لا حاصل مجھے اس دنیا کے بیچوں بیچ کہیں بھٹکا دے گی اور میں نہیں چاہتا کے میری روح ان حاصلات کے چکر میں اپنی سعیِ لا حاصل چھوڑ دے۔

اس تلاش میں کسی کا تصور ہے، آدھے ادھورے خواب ہیں، جستجو ہے، بیتی ہوئی یادیں ہیں جو میرے وجود کو شکست و ریخت سے بچائے ہوئے ہیں، اگر میں ان تصورات میں زندہ نہ رہوں تو میری زندگی بھی ان ہی حاصلات کا مجموعہ بن کر رہ جائے گی۔

دوسرے مجھے بھٹکنے اور ٹوٹ جانے کا ڈر بھی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میں ٹوٹ کر بکھر جاؤں اور میری ریز گاری زمین کی اس مادیت میں گم ہو کر رہ جائے اور میرے خواب شکستہ ہوجائیں۔ اس لیے ان میں رہنا مجھے زندگی نظر آتا ہے اور ان سے باہر نکلنا ایسی موت کہ جو محض عارضی ہے، چند روزہ ہے اور اس میں دوامیت نہیں۔


مزید دیکھیے: علم کا مقام ذہن ہے لیکن عشق کا قلب


میں نے ایک دوست سے کہا دیکھو میری زندگی کچھ ایسے ہی خوابوں اور تصورات سے جڑی ہے جو ہر لمحے میرے وجود کو یک جا کیے ہوئے ہیں اور میں نے جس دن یہ خواب دیکھنے چھوڑ دیے یا کسی سے وابستہ یادوں کو دل سے نکال دیا تو پھر میری سعیِ لا حاصل بھی ختم ہو جائے گی۔

کہا نہیں تم ایسا نہ کرو میں جب تمہیں ایسے خوابوں اور تصورات میں الجھا دیکھتا ہوں تو مجھے تمہاری یہ حالت تکلیف دیتی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم ان سے باہر آ جاؤ، دیکھو باہر کی دنیا بہت حسین ہے۔ اسے دیکھو، اس کا نظارہ کرو، اس سے حظ اٹھاؤ کیوں خود کو تباہ کر رہے ہو۔ میں نے کہا میں تمہیں اپنی کیفیت سمجھا نہیں سکتا اور تم شاید اسے سمجھ نہیں سکتے۔

میرے نزدیک وہ تمام رشتے جو کسی نام سے جڑتے ہیں وہ حاصلات کا مجموعہ ہیں اور جب وہ ٹوٹ کر بکھرتے ہیں تو ان کی کرچیاں مادی دنیا میں بکھر جاتی ہیں اور کچھ  ہمارے تن بدن میں جنھیں وقت آپریشن کر کے خودہی نکال دیتا ہے اور انسان پھر سے تنومند گھومتا ہے۔ اس لیے کیا ضروری نہیں کسی ایسی سعیِ لا حاصل میں نکلا جائے کہ جس کی کوئی منزل نہ ہو، ٹھکانہ نہ ہو، منظر تو آنکھ کا دھوکا ہے، فریبِ نظر ہے، مگر یہ دیکھنا چاہیے کہ یہ منظر اپنے پسِ منظرسے کیسے جڑا ہوا ہے۔

یہی تلاش اور جستجو انسان کو کسی ارفع منزل کی طرف لے جائے گی کہ جہاں کم از کم کسی تعلق کے ٹوٹنے کا غم تو نہیں ہوگا، کرب تو نہیں ہوگا، مجھ میں اور تم میں بس فرق صرف اتنا ہے کہ تم عارضی تعلق کو جوڑنے کی فکر میں رہتے ہو اور میں کسی دائمی رشتے کی تلاش میں سعیِ لا حاصل میں ہوں اور مجھے امید ہے کہ میری یہ سعیِ لا حاصل حاصل بن کر رہے گی اور اگر نہ بھی ہوئی تو کم از کم امر تو ہوجاؤں گا۔