لا تعلق سی بے رحمی
از، نصیر احمد
مور پکھا سر اوپر راکھی ہو، میں گونج کی مال (مالا) گرے (گلے) پہراؤں (پہناؤں) گی۔ ایک بھگتی گیت مور پنکھ کیا، چندر ماں اور اگنی دیو کے مکٹ مالا پہنا دیں کہ نند کشور، مرلی منوہر، چت چور، نند لال، گوپال، گو وند، گردھاری لال اور ماکھن چور کی بھگتی تو شاید بنتی ہے کہ کالیا ناگ کے سر پر تانڈو ناچتے ہیں، مرلی کے مدھر سروں سے گائیں ہانکتے ہیں، اندر دیو کو پچھاڑتے ہیں، آسوروں کو بھسم کرتے ہیں، راکھشسوں کا خاتمہ کرتے ہیں، دھنش جو کسی سے اٹھایا نہ جائے اس کو توڑتے ہیں، گج راج سے پرنام وصولتے ہیں، مدھو بن میں راس رچاتے ہیں، اور گووردھن پربت کو چھوٹی انگلی پر اٹھا لیتے ہیں۔
اور بھی نہ جانے کتنے معجزے ہیں، کتنی کرامتیں۔ مگر جب واسو دیو بن کر ارجن کے لیے پند نامہ جاری کرتے ہیں اس کی روحانی اہمیت کی جتنی بھی بھگتی کریں اس میں عقل نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ ان کی تعلیم کا بنیادی پیغام یہی ہےکہ ایک ایسی مشین کی طرح قتل کرو جس کے کوئی احساسات نہیں ہوتے، کوئی جذبات نہیں ہوتے، جو زندگی کو بے معنی جانتی ہے، جسے کسی حادثے سانحے کی پرواہ نہیں ہے کیونکہ یہ تو قتل ہے ہی نہیں۔ یعنی جیون سے کوئی ناتا رکھے بغیر جیون مکت کرو۔
دوسری سمرتیوں کے قوانین میں بھی یہ بے تعلق سی بے رحمی موجود ہے جن کے قوانین آج کل رسم رواج کی شکل میں موجود ہیں اور سیکولر قوانین کے کالیا ناگ کو پچھاڑ کر ان سیکولر قوانین کے سر پر تانڈو ناچتے ہیں۔
یعنی جو خرد دشمنی کتھا میں ہے، وہ خرد دشمنی ان رسم و رواج میں موجود ہے۔ اور جب دھرمی کا دھرم فساد، بلوے، غدر، جنگ اور نسل کشی کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے تو پچھتاوے، ندامت اور سیکولر قانون سے بچنے کے لیے واسو دیو کا ہی سہارا لیا جاتا ہے کہ نہ تو کوئی مرتا ہے اور نہ کوئی مارتا ہے۔
لیکن پورے خطے میں ہر کسی کے تحفظ کے لیے سیکولر جمہوری قوانین پر عمل در آمد کی ضرورت ہے۔ دکھ کے ساگر میں ڈوب کر بھرشٹا چار کرنے سے تو کوئی بھی سمسیا نہیں حل ہو گی۔ تانڈو کرنے سے، بھسم کرنے سے اور پربت انگلی پراٹھانے سے تو کسی کو بھی اس کے حق نہیں ملیں گے۔
اگر ایسے ہوتا تو اونگ سانگ سوئی کی کو کہتے کہ وہ پیپل کی چھاؤں تلے آسن جما لیں تو روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا خود بخود خاتمہ ہو جائے گا۔ مودی جی کے سر پر مور پنکھ رکھ دیتے اور بھارت کی ساری اقلیتیں سکھی ہو جاتیں۔ اپنے وزیر اعظم کو کہتے کہ کچھ درود وظیفہ کر لیں تو یہاں کے سارے لوگوں کے دکھ غائب ہو جاتے۔
لیکن اونگ سانگ سوئی، مودی اور ہمارے وزیر اعظم ثقافت کی خرد دشمنی کو اپنے ووٹ بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور آخر میں انسانی بدحالی سے بے رحم سی لاتعلقی کا ہی مظاہرہ کرتے ہیں جو واسو دیو نے ارجن کو تعلیم کی تھی۔
مودی تو مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو اکسانے کے مجرم ہیں اور اس جرم کی بھارت کے ہندوؤں کی اکثریت نے انھیں پردھان منتری بنا کر تائید کی ہے۔ اسی طرح اونگ سانگ سوئی کی کو بڑے جمہوری اعزاز ملے، ترقی یافتہ جمہوریتوں نے ان کو بہت تعظیم دی لیکن جب اقلیتوں کے تحفظ کا معاملہ آیا تو ان کی حکومت نسل کشی کرنے لگی۔ ہمارے ہاں تو اب کچھ کہنے کی جگہ اتنی کم ہو گئی ہے کہ بات کرنے کے لیے اتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کہ بات کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
گلہ ہے کہ تعلیم میں ہم بہت پیچھے ہیں، صحت کے مسائل بہت زیادہ ہیں، صاف پانی نہیں ملتا، بچوں سے زیادتی ہوتی ہے، عزت سلامت نہیں، جان کی کوئی قدر نہیں، امن کی کمی ہے، کوئی شے خالص نہیں ملتی، بد عنوانی اور بے انصافی کا دور دورہ ہے اور ان سب مسئلوں کو لے کر میڈیا روزانہ ہمارے سروں پر تانڈو کرتا ہے کہ میڈیا بھی بنیادی طور پر واسو دیو کے پند پر عمل پیرا ہے کہ ریٹنگز ہی دھرم ہے اور اس فرض کی ادائیگی کے لیے لاتعلق سی بے رحمی ضروری ہے۔
تانڈو سے زیادہ بامعنی س گفتگو کی ضرورت ہے اور با معنی گفتگو کے لیے گفتگو کی آزادی ضروری ہے اور گفتگو کی آزادی کے لیے ایک جمہوری نظام ضروری ہے اور جمہوری نظام کے لیے جمہوری اداروں کی ضرورت ہے اور جمہوری اداروں کے لیے جمہوری افراد کی ضرورت ہے اور ان افراد کے لیے ایک تعلیمی نظام کی ضرورت ہے جو بامعنی گفتگو کو رواج دے۔ اور وہ تب ہی رائج ہو گی، عقل سے دشمنی کی حوصلہ شکنی کا آغاز ہو گا۔
اگر کچھ لوگ اس طرح سوچنا شروع ہو جائیں کہ کالیا ناگ کے پھن پر کوئی تانڈو نہیں ہوا، یہ انگلی سے پربت اٹھانا ناممکن ہے تو اس ڈویلپمنٹ کی ایک منزل صاف پانی، اچھے ہسپتال، سائنسی تعلیم، فلاحی ریاست، انسانی حقوق کا تحفظ بھی تو ہے۔ پھنیر کے سر پر تانڈو کا جادو ٹوٹے گا تو شاید ثقافت میں موجود لا تعلق سی بے رحمی بھی کم ہونا شروع ہو گی۔ اور جمہوری قوانین پر عمل در آمد کی بھی آسانی ہو جائے گی۔ اس لیے ایسے لوگ جو ذرا ہٹ کے سوچتے ہیں ان کی معاشرتی افادیت سماج سدھار کی وجہ بن جاتی ہے۔ اس لیے ان لوگوں کا اور ان کے افکار کا تحفظ لازمی ہے۔
اب مور پنکھ کا مکٹ اور گونج کی مالا پہنانے کے ساتھ کچھ عقل، کام اور انسان دوستی بھی وابستہ کر لیں تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ میڈیا جمہوریت کے خلاف روزانہ تانڈو کرتا ہے اور عقل سے دشمنی پر مبنی ثقافت کا روزانہ راس رچاتا ہے لیکن چاہے راہو کیتو میں جائے یا افسون زحل روزانہ منجم کے گوش گزار کریں یا ایک ہی برہماستر سے عقد جوزا چا ک چاک کر دیں اس سے پانی کی صفائی نہیں ممکن ہو گی۔
زیادہ سے زیادہ یہی ہو جاتا ہے کہ ملکی وسائل خرچ کر کے بیرون ملک سے ٹیکنالوجی خرید لی جاتی ہے اور اس ٹیکنالوجی پر کسی رشی راجا یا کسی مسیحا کے خوشامدیوں کا قبضہ ہو جاتا ہے لیکن اس سے سوچنے، تخلیق کرنے، بنانے، ایجاد کرنے، دریافت کرنے کی صلاحیت میں کچھ خاص اضافہ نہیں ہوتا۔ اس اضافے کی شرط یہی ہے کہ ایک جمہوری نظام ہے جو فکر ونظر کی آزادی کا تحفظ یقینی بنائے۔
اب یہ کہیں کہ سمرتیوں کو لفظ بہ لفظ سچ مان کر جمہوری قوانین پر عمل در آمد ہو، انسانی حقوق کا تحفظ ہو، سائنسی ترقی ہو، تعلیم، صحت اور امن عامہ کے مسائل کم ہوں، ایجاد و دریافت کی ایک ثقافت کا فروغ ہو تو یہ نہیں ہو سکتا کہ سمرتیاں اسی فرد کے موہوم اور معدوم ہونے کی تمنائی ہیں جس نے یہ سب کچھ کرنا ہے۔
اور فرد کا یہ عدم اور غیاب اسی لاتعلق سی بے رحمی کو فروغ دیتے ہیں جس کی تبلیغ واسو دیو نے کی تھی اور جو ابھی تک خطے میں انسانی بدحالی کو بڑھاتی رہتی ہے۔