لداخ کا گرم محاذ
از، حسین جاوید افروز
لداخ کا صدر مقام لیھ بلند پہاڑوں کی دامن میں واقع ایک پُر تاثیر مقام ہے۔ گزشتہ برس لداخ کو کشمیر ریجن سے الگ کرنے کے بعد جب سے یہ یونین ٹیریٹری میں بدلا گیا ہے تب سے لیھ کی اہمیت ماضی کے مقابلے میں خاصی بڑھ چکی ہے۔
بھارت سے لداخ جانے کے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ سری نگر سے براستہ زوجیلا پاس کارگل کے راستے لہہ سے منسلک ہے جب کہ دوسرا راستہ ہماچل پردیش کی منالی ویلی سے نکلتا ہے جو لداخ کو جاتا ہے۔
ماضی میں سلک روٹ کی مناسبت سے یہ خطہ اپنی ایک الگ پہچان رکھتا رہا ہے لیکن اس بار حالات اور معاملات لداخ اور خصوصاً لیھ میں ایک پُر سرار بے یقینی کے گرداب میں دکھائی دیتے ہیں۔
مئی سے ستمبر تک لداخ ریجن سیاحت کے حوالے سے ایک خاص کشش رکھتا رہا ہے جہاں پینگانگ جھیل، نوبرا ویلی کے منفرد اونٹوں کے کارواں، دریائے شیوک، سورو اور سندھ کی حسین گزرگاہیں اور سب سے بڑھ کر کھر ڈونگ لاء پاس کے بلند ترین مقام کی جانب دل کش مگر تھکا دینے والا سفری ایڈونچر جو اپنی مثال آپ ہے۔
لیکن یہ وہ لداخ تھا جو گزشتہ سال تک سیاحوں کا گڑھ تھا۔ آج کا لداخ اور خصوصاً آج کا لیھ کسی سیاحتی مقام سے زیادہ ایک جنگی مستقر کا منظر پیش کر رہا ہے۔
جی ہاں مئی 2020 میں چینی اور بھارتی فوجیوں کے درمیان شدید جھڑپوں اور اس کے بعد پندرہ جون کے خوف ناک تصادم جس کے نتیجے میں بیس انڈین فوجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان واقعات کے بعد اب لداخ میں سب کچھ نارمل نہیں رہا ہے۔
لداخ کا محاذ اس وقت گرم ہونا شروع ہوا جب گزشتہ برس لداخ کا سٹیٹیس مودی گورنمنٹ نے آرٹیکل 370 اور 35اے کے خاتمے کے بعد یک سَر بدل کر رکھ دیا، جس کے نتیجے میں بیجنگ میں گہری تشویش کے بادل چھا گئے۔
اب بھارتی فوج اپنے بارڈر انفراسٹرکچر کو اروناچل پردیش تا جنوبی لداخ اور پھر مشرقی لداخ تک متواتر بہتر کرنے میں لگی رہی تا کہ مستقبل قریب میں وہ اَقصائے چن ایریا کو ایک سرپرائز حملے کے نتیجے میں اپنے زیرِ تسلط لے آئے۔ اقصائے چن کا ویرانہ سِنہ 1962 میں ہونے والی جنگ کی بَہ دولت چین کے قبضے میں چلا گیا تھا اور بھارت اب اس پرانی ذلت کا حساب چکانے کے لیے تیار تھا۔
جب کہ اقصائے چن کی دفاعی اہمیت چین کے لیے اس لیے بھی مسلمہ رہی ہے کیوں کہ اسی سرد ریگ زار کی شکل میں اسے ایسا حربی راستہ بھی میسر آیا جس سے وہ سنکیانگ اور تبت کے درمیان زمینی راستہ بھی بحال رکھ سکتا ہے۔
لہٰذا ہندوستانی فوج کی اقصائے چن پر متوقع فوجی پیش قدمی کی صورت میں چین کو نا قابلِ تلافی دفاعی اور حربی نقصان پہنچنے کا احتمال بھی تھا اسی لیے چین نے خاصی سوچ بچار کے بعد اس خطے میں فیصلہ کن برتری کے لیے ایک ماسٹر سٹروک کھیلا اور لداخ سیکٹر میں پینگانگ جھیل میں بھارتی زیرِ انتظام علاقے پر قبضہ جما لیا۔
اس ایریا میں فنگر چار سے آٹھ تک کے علاقے میں دس ہزار چینی فوجیوں کا اجتماع قائم ہو چکا ہے۔ یاد رہے کہ بھارت فنگر8 تک کے ایریا پر اپنا دعویٰ جتلاتا رہا ہے، مگر انڈین انٹیلی جنس کی بد ترین نا کامی کی وجہ سے اب یہاں کا چالیس کلومیٹر کا ایریا چین کے قبضے میں جا چکا ہے۔
اسی طرح hot spring کے علاقے میں بھی چین نے اپنی دفاعی پوزیشن مزید بہتر بنا لی ہے۔ یہاں کہانی کا دوسرا رخ بھی دل چسپی سے خالی نہیں۔ ایک جانب تو بھارت جہاں مودی ڈوول ڈاکٹرِن کی روشنی میں اقصائے چن پر قبضے کے خواب دیکھ رہا تھا جب کہ دوسری جانب اس نے سی پیک منصوبے کو گہری زک پہنچانے کے لیے قراقرام پاس سے محض آٹھ میل دور مشرقی لداخ میں 255 کلومیٹر طویل شیوک دربوک روڈ بھی تعمیر کر لی جو کہ دولت بیگ اولڈی ایئربیس کی جانب جاتی ہے۔
یہ روڈ گلوان ویلی سے ہو کر گزرتی ہے جس کی تعمیر سے بھارت بلتستان میں اچانک حملہ کر کے شاہ راہِ قراقرم پر بھی اپنا کنٹرول قائم کر سکتا تھا، جس سے سی پیک منصوبہ شدید خطرات سے دوچار ہو سکتا تھا اور یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ بھارت نے دولت بیگ اولڈی کو ایک عام سی پوسٹ سے بریگیڈ کا درجہ دیا تھا۔
لیکن چین نے یہاں بھی بر وقت کارروائی کر کے بھارتی انٹیلی جنس اور فوج کو چکرا کر رکھ دیا، جب چینی فوج نے گلوان ویلی کی تزویراتی حوالے سے اہم اور حساس ترین بلند چوکیوں پر قبضہ جمایا اور یوں شیوک دربوک شاہ راہ بہ راہِ راست چینی فوج کے نشانے پر آ گئی۔
اس جارحانہ ایکشن سے بھارتی فوج کے لیے سیاچن اسلحہ و خوراک کی سپلائی پہنچانے کا راستہ بھی نشانے پر آ چکا ہے اور دولت بیگ اولڈی بریگیڈ میں موجود دس ہزار فوجیوں کی رسد اور کمک کے تمام راستے بھی مسدود ہو چکے ہیں۔
لہٰذا اب گلوان ویلی میں بھی چین نے تزویراتی گہرائی قائم کرلی ہے یوں اسے اس ایریا میں ایک fundamental shift دست یاب ہو چکی ہے۔ اسی لیے انڈین دفاعی ماہرین کھلم کھلا ان خدشات کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ پاکستانی فوج بھی جو کچھ عرصے پہلے ہی چین کے ہم راہ مل کر شاہین ون کے عنوان سے وار گیمز کر چکی ہے وہ بھی سیاچن کے حساس ترین مقام NJ9842 پر ہندوستانی افواج کو سرپرائز دینے کی پوزیشن میں آ چکی ہیں۔
کیوں کہ ہندوستانی افواج کا سارا فوکس اس وقت چینی افواج پر ہے۔ اور اگر مستقبل قریب میں ڈریگن نے وادی شیوک اور نوبرا ویلی پر بھی چڑھائی کر دی تو سیاچن نئی دلی کے لیے واٹر لُو جیسا مقام ثابت ہو سکتا ہے۔
یہی نہیں بَل کہ اگر پینگانگ جھیل کا کنٹرول بھارت سے مسلسل پھسلتا جاتا ہے تو بھارت کے لیے لداخ کا دفاع کرنا بھی مزید دشوار ہوتا جائے گا۔ تاہم ہندوستانی دفاعی تجزیہ کاروں کے نزدیک انڈین فوج کے لیے یہ تناظر یہ ایک نئی طرز کا کارگل ثابت ہوا ہے جس سے موجودہ صورتِ حال اور زمینی حقائق بہت زیادہ گھمبیر ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب چین برابر رعب جماتا جا رہا ہے اور گلوان ویلی کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے چکا ہے۔ یہاں یہ امر بھی خاصا اہم ہے کہ چین نے پندرہ برس قبل جو جنگی مشقیں اقصائے چن اور لداخ کے سب سیکٹر نارتھ میں کیں، وہی اب اس کو دفاعی استحکام دینے میں معاون ثابت ہوئیں ہیں۔
جب کہ نریندر مودی کی موجودہ حالت حیران کن حد تک جواہر لال نہرو سے مشابہت رکھتی ہے جب 1962 میں چینی فوج نے بھارتی حکومت اور فوج کو اقصائے چن سے اروناچل پردیش تک بے دست و پا کر کے رکھ دیا تھا۔
تازہ ترین صورتِ حال کے مطابق اس وقت دونوں ممالک کے درمیان فوجی و سفارتی بات چیت بے نتیجہ ثابت ہو رہی ہے اور چین مسلسل بھارت کے اس مطالبے کو کسی خاطر میں نہیں لا رہا ہے کہ چین مئی 2020 سے قبل کی پوزیشن پر واپس چلا جائے۔
جب کہ چین کی واضح فوجی برتری اور خطے میں موجودہ تزویراتی بڑھت کو بھارت کسی طور پر متاثر کرنے کی پوزیشن میں ہر گز نہیں ہے۔
یہاں خود مودی جی کے لداخ میں چینی مداخلت سے متعلق بیانات ان کے اور بھارتی فوج کے لیے تمسخر کا سبب بن رہے ہیں۔ دوسری جانب راہول گاندھی مودی جی کو اس بات پر رگید رہے ہیں کہ مودی جی کو نہ تو چینی مداخلت کی کوئی خبر ہوئی اور نہ ہی ان کی زنبیل میں کوئی متبادل جنگی پلان موجود ہے۔
لہٰذا مسلسل بے یقینی اور شکست خوردگی کی یہ فضا بھارتی سینا، انٹیلی جنس اور حکومت کے مورال کو برابر پشت کرنے میں لگی ہوئی ہے جو خود کو ایک گلوبل کھلاڑی کے طور پر 56 انچ سینے کے ساتھ پیش کر رہے تھے۔
اب مودی جی اور جنرل نروانے کے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو بَہ زور گلوان ویلی کی سپلائی لائن چین سے چھین لی جائے اور سٹیٹس کو بَہ حال کرے یا پھر بات چیت سے معاملہ طے کرے۔
تاہم تا دمِ تحریر چین کو بات چیت کے تحت منانے کی نا کام کوشش کے بعد مجبوراً بھارت قریباً تین ڈویژن فوج یعنی 45 ہزار فوجیوں کو لداخ کے ریگ زاروں میں اتار چکا ہے اور ان کی معاونت کے لیے انڈین آرمڈ کور کا جدید اور مہلک ترین ٹینک بشما بھی محاذ پر پہنچا دیا گیا ہے۔
دوسری جانب لداخ کی فضا میں انڈین میراج، جیگوار اور مگ جنگی طیارے بھی ہائی الرٹ پوزیشن پر فلائنگ میں مصروف ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے محاذوں پر انڈین آرمی کی دفاعی تیاریاں کچھ اس قسم کی ہیں۔
اروناچل پردیش میں دھیما پور اور تیج پور میں دو کور براجمان ہیں جو کہ پہاڑی ڈویژن سے لیس بھی ہیں۔ علاوہ ازیں سخوئی طیاروں سے لیس ایئربیس بھی تیار ہے۔ جب کہ سکّم میں بھارتی فوج کی 33 کور سکما سلی گری کے ایریاز میں تین پہاڑی ڈویژن سے لیس ہے۔
یہی وہ سیکٹر ہے جہاں 2017 میں ڈوکلام اور 1967 میں نتھولا پاس میں شدید سرحدی کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ 2014 سے بھارتی فوج میں ایک سٹرائیک فورس بھی بن چکی ہے جس کی تزویراتی حرکیات ابھی تک مخفی رکھی گئی ہیں۔
اس فورس کا ہیڈکوارٹر مغربی بنگال میں قائم کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پہاڑی صوبے اتراکھنڈمیں سکستھ پہاڑی ڈویژن ریزروو حالت میں موجود ہے جو حسبِ ضرورت لداخ یا اروناچل پردیش کی جانب روانہ کیا جا سکتا ہے۔
اس وقت سب سے زیادہ گرما گرمی چُوں کہ لداخ میں دیکھنے میں آ رہی ہے یہاں 14 کور کا مستقر کارگل جنگ کے بعد قائم کیا گیا تھا۔ اس سے قبل لداخ بَہ راہِ راست جموں کشمیر کے 15 کور کی کمانڈ میں آیا کرتا تھا۔
اب یہاں تین ڈویژن موجود ہیں۔ جب کہ ڈیمچوک، کارو اور کیاری میں پہلی بار ایک آرمرڈ بریگیڈ اور انفنٹری بریگیڈ بھی رکھا گیا ہے۔ اسی طرح نیوما اور دولت بیگ اولڈی میں انڈین فضائیہ کی ایئربیس متحرک اور آپریشنل ہیں۔ جہاں ہر کولیس طیاروں کے تحت افواج کو اتارا جا سکتا ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ 2014 کے بعد سے تا حال بھارتی افواج نے ان سیکٹرز میں تیزی سے سڑکیں تعمیر کرنے، برِج بنانے اور ٹنل کی تعمیر پر خاصی سرعت سے کام کیا ہے۔ جب کہ بنیادی تنازعہ بھی گلوان ویلی میں سڑک کی تعمیر کے حوالے سے ہی گھومتا ہے جس سے چین برآ فروختہ ہوا ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ چین بھی گلوان ویلی میں افواج کے اجتماع میں متواتر اضافہ کرتا جا رہا ہے۔ ہم نے 2017 میں بھی ڈوکلام تنازعے میں دیکھا کہ بَہ ظاہر تو بھارت نے یہی تاثر دیا تھا کہ بات چیت کے تحت بیجنگ اور دلی میں کشیدگی کی فضا زائل کر دی گئی ہے مگر حقیقت تو یہی ہے کہ ڈوکلام میں چین نے اب ہر موسم کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مضبوط دفاعی کمپلیکس بھی تعمیر کر لیا ہے جس سے بھارت کے لیے مزید سبکی کا سامان پیدا ہوا ہے۔
لداخ میں اس وقت خوف اور بے یقینی کی فضا موجود ہے اور یہ سکوت کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ محسوس ہو رہا ہے۔ تاہم چین بھارت حالیہ سرحدی کشیدگی کے اثرات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو بھی چوکس رہنے کی ہَمہ وقت ضرورت ہے کیوں کہ دلی اور اسلام آباد کے درمیان جاری سفارتی کشیدگی بھی ختم ہونے میں نہیں آ رہی اور نریندر مودی بھی چین کے ہاتھوں لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر خِفَّت اٹھانے کے بعد پاکستانی کشمیر پر کسی مِس ایڈونچر کی آڑ لے سکتے ہیں۔