لفظ کے معنے
رضوان سہیل
لفظ کی سب سے بڑی بے توقیری یہ ہے کہ اُس کے معنے بھلا دیے جائیں۔ ایسا لفظ جو صرف پرانی کتابوں تک محدود ہو کر رہ جائے اس زخمی گھوڑے کی طرح ہوتا ہے جسے دوڑ کے میدان سے نکال کرہمیشہ کے لیے اصطبل میں باندھ دیا جائے۔ میں نے ایسے الفاظ اور ایسے گھوڑں کی آنکھوں میں ایک عجیب سی بے بسی دیکھی ہے۔ وہ جو کبھی ہر کسی کی زبان پر تھے آج حسرت کی تصویر بنے کاغذی زندان میں پڑے موت کا انتظار کرتے ہیں۔
جِس طرح گھوڑا اپنی نسل اور اپنے مالک کا مان ہوتا ہے اِسی طرح الفاظ بھی اپنی قوم اور ثقافت کی پہچان ہوتے ہیں لیکن جب کوئی قوم اپنی زبان اور اپنے الفاظ سے بے اعتنائی برت کر اجنبی الفاظ کو اپنے خیالات اور احساسات کا ذریعہ بنا تی ہے تو نہ صرف صدیوں پرانے الفاظ اپنی وقعت کھو بیٹھتے ہیں بلکہ اُن کے ساتھ ہی وہ احساسات اور تجربات ہمیشہ کے لیے ماضی کی اندھیری قبر میں دفن ہو جاتے ہیں جوگھاٹ، آنگن، چوکھٹ، نارنجی ، موقلم اور ان جیسے بیسیوں متروک الفاظ سے وابستہ تھے۔
یوں تو ہماری بے حسی کی داستان ہزار راتوں میں بھی نہیں کہی جا سکتی لیکن جو سلوک ہم نے اپنی زبان اور الفاظ کے ساتھ کیا ہے اس کا ازالہ شاید ہم کبھی بھی نہ کر سکیں۔ اگر آپ دنیا کی کسی بھی زبان کی پچاس سالہ پُرانی کتاب پڑھ کر دیکھ لیں آپ کو اُس کتاب کی لفظیات اور آج بولی جانے والی زبان میں کچھ زیادہ فرق محسوس نہیں ہو گا۔ وقت کے ساتھ الفاظ اپنا استعمال اور رجحان ضرور بدلتے ہیں لیکن یہ ایک قدرتی ارتقائی عمل ہے جو ہر زندہ زبان کی پہچان ہے لیکن اس کے مقابلے میں اگر آپ ہماری قومی یا علاقائی زبان کی کسی پرانی کتاب کا مطالعہ کریں تو آپ خود جان لیں گے کہ اس میں سے کتنے الفاظ رہ گئے ہیں جو آج بھی نوجوان نسل کے زیرِ استعمال ہیںیا کم از کم وہ اس کا مطلب بھی سمجھتے ہیں۔
ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی زبان اور اس کے ساتھ وابستہ اپنی ثقافت کا گلہ گھونٹ دیا ہے۔ آج اگر ہمیں دنیا میں کسی جگہ اپنی ثقافت اجاگر کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تو کبھی ہم مغرب کی طرف دیکھتے ہیں اور کبھی ہندوستان کی طرف گویا ہماری اپنی کوئی زبان کوئی روایت اس قابل ہی نہیں کہ اسے دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے۔
دوسری طرف ہمارے ادب کا وہ بہت بڑا سرمایہ جو شاعری اور داستانوں کی صورت میں ہمارے اجتماعی شعور کی ترجمانی کرتا ہے اس کا رابطہ ہماری نوجوان اور بے زبان نسل سے منقطع ہو گیا ہے۔
ہر مظلوم کی طرح رَد کی ہوئی زبان بھی اپنے طور پرضرور انتقام لیتی ہے۔ جو قوم اپنی زبان اور روایات کو بھلا دیتی ہے وہ ایک ایسی مفلوج اور اپاہج قوم بن جاتی ہے جو اپنا مطمع نظر بھی ادا نہیں کر پاتی۔ اس کی ایک مثال ہمارے ٹی وی چینلز پر چلنے والے ان پروگرامز سے بھی لی جاسکتی ہے جن میں عام شہریوں بِلخصوص راہ چلتے نوجوانوں سے کوئی سوال کیا جاتا ہے اور ایک سادہ سے سوال کا جواب دینے کے لیے بھی ان کے پاس الفاظ میسر نہیں ہوتے۔ ہما ری مختصر سی گفتگوبھی اتنی بے ربط ہوتی ہے اور اس میں انگریزی کا ایسا بے ترتیب استعمال ہوتا ہے کہ سننے والے کے ذہن پر اس کا کوئی دیرپا نقش نہیں بن پاتا۔
اجنبی الفا ظ کبھی بھی دلی جذبات کی ترجمانی نہیں کر پاتے۔ خلش کا اظہار نہیں کر سکتا، sorry پشیمانی کی جگہ نہیں لے سکتا اور so sad میری افسردگی کا مداوہ نہیں ہے۔ اسی طرح smile میں تبسم زیرِ لب کی سی نزاکت کہاں اور نہ ہی happiness میری بے پایاں مسرت کے لیے مناسب لفظ ہے۔ بے شک انگریزی زبان میں بھی بہت طاقتور اور خوبصورت الفاظ موجود ہیں لیکن ہم نے جو انگریزی اپنی نصابی کتابوں سے سیکھی ہے وہ اس قابل نہیں کہ ہمارے گہرے اور دلی جذبات کی ترجمانی کر سکے ۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں شیکسپیئر پلے پڑتا ہے اور نہ ہمیں غالب اور اقبال کی کچھ سمجھ آتی ہے۔