ریپ، ہراسانی جیسے جرائم کو شریف مردوں کی ہتکِ عزت کا مسئلہ بنانا
از، یاسر چٹھہ
دیکھنے میں آیا ہے کہ جب معاشرے میں کسی حاشیائی طبقے، گروہ، یا جُزوِ انسانی پر زیادہ بجلی کَڑکٹی ہے تو وہ اپنے گھاؤ پر بلند آہنگ انداز سے چیختے ہیں۔ اس چیخ سے آس پاس کے شُرَفاء کی نیند میں خلل آتا ہے۔ وہ کمال کرَم سے فرماتے ہیں:
چیخو سہی، پر راگ درباری میں چیخو!
آپ میں سے جو جو میری ان سطروں کو پڑھیں گے، شاید ان کی کوئی سماجی یاد داشت جاگ جائے: اس وقت کی یاد داشت جب آپ نے کسی کی بے حسی کے خلاف احتجاج کیا ہو۔ احتجاج کیا ہو تو چیخنے والے کو discredit کرنے کے واسطے، ہدفِ احتجاج صاحبان کا پہلا گِلہ یہی ہوتا ہے کہ آپ کی چیخوں کے راگ اور راگنیاں درست نہیں۔ حرفِ شوق ارزاں ہوتا ہے کہ اے کاش تُو نے فلانے استاد سے پہلے زانُوئے تلمُّذ تہہ کیا ہوتا!
متعلقہ تحریریں:
لاہور رنگ روڈ موٹروے ریپ سماج کی انسانیت کی خلاف ورزی: اداریہ
ریپ انسانی رضا، consent کے آدرش پر رذیل مجرمانہ حملہ ہے از، نصیر احمد
شرمین عبید چنائے اور ہراسیت کا منطقہ: آئینے سے ہم کنار ہوئیے از، علی ارقم
یہی حال شاہی والوں کی راہ پر، جسے شاہ راہ کہا جاتا ہے، دو تین روز قبل دو مجرموں کی رات کے اندھیرے کو مزید سیاہ کرنے، اور اپنے مُنھ پر خاتون سے ریپ کی کالک ملنے پر چلنے والا سماجی مکالمہ ہے۔ جی، آپ سے لاہور رنگ روڈ کے پاس سیال کوٹ لاہور موٹروے پر زَبر جنسی کا معاملہ ذہن میں رکھنے کی استدعا ہے۔
اس معاملے میں حسب معمول بکری کو بتایا جا رہا ہے کہ وہ شیر کی ندی سے ہی کیوں پانی پیتی ہے؟ مطلب victim bashing کے لیے تعزِیری جملے ہمارے معتدل مزاج، اور معتدل مزاجی سے زیادہ پاسبانِ حرم قسم کے افرادِ معاشرہ__ اور ان کی شبیہ میں ڈھل چکی، ان کی رعیّت کی عادی ہو چکی عام خواتین کی زبانوں پر رواں ہو جاتے ہیں؛ جی یہ آخرالذکر وہی خواتین ہوتی ہیں جو گھر کی ملکہ کے پوسٹر اٹھا کر عورت مارچ کا رَد کرنے بھی نکلتی ہیں۔
اس دوران چیخوں کی آوازوں کے مطلوب و مقبول سُروں اور راگوں میں نہ ہونے کے متعلق استحقاق مشتعل احتجاج، privileged protest ایسا معاملہ ہے، جس پر حرفِ سوال دراز کرنے کی ہمت کرتا ہوں۔
تو بات کو کچھ ایسے ہے کہ ہمارے اندر کی reactionary جِہت، یعنی ردِّ عمل سے اَکھوے کھولتی سوچ اور فہم کے پہلو ہمیں کسی معاملے کی دُم کُھجانے اور اس کی جُوئیں نکالنے پر لگا دیتے ہیں۔
اب یہ بھی مت سمجھیے کہ کسی بھی معاملے کی دُم نہیں ہوتی کہ سب مرکز ہی مرکز ہوتے ہیں! (سب ساتھ ہوتا ہے۔ فلسفیانہ مسئلے کسی دیگر ثانیے لمحے میں دیکھ لیں گے۔ مرکز کی definition عمل و عمل شد کی سیاسیات ہے۔)
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمہ دَم کسی معاملے کی دُم پر ہی نظر گاڑی جائے؟
یہ سوچنے اور بات کرنے کے لیے تناسبوں کے توازن کا قابلِ سوال انتخاب ہے۔
کیا اس وقت زیادہ گھمبیر معاملہ مرد کی ہتکِ عزت ہے، یا جنسی جرم ہے؟
کیا ان اُمُور کو، جن کو آپ بحث کے لائق بنانے کا مُوجب بن رہے ہیں، یہ انفراد کے بیان سے زیادہ، کہیں زیادہ ایک مرکزی معاملے کی المیاتی سنجیدگی کی قیمت پر، کسی ایسے ضمنی معاملے کو، جسے مؤخّر کیا جاسکتا ہے، جسے مؤخر کیا جا سکتا تھا، اس معاملے کو بحثنے کے انتخاب کی اخلاقی، انسانی، انصاف کے آئیڈیا اور empathy پر سوال نہیں؟
کیا آپ احباب خواہ مہ خواہ کسی معاملے کو ضرورت سے زیادہ مرکزِ نگاہ نہیں کر رہے؟ جس معاملے کو مکالمے کی پائنتی میں بیٹھنا چاہیے تھا، جسے فُٹ نوٹ میں رکھا جا سکتا تھا، اسے عنوان بنانا! آہ … یہ ہمیں گدلاہٹ والے گروہ کا ساتھی بنا سکتا ہے۔
مردوں کے کنٹرول، مرکز کے مالکان اور ان کے ضبط کے نظام کو دھڑام سے گر جانے کا جو فوری خطرہ آپ محسوس کرتے ہیں، اس سے زیادہ نہ گھبرائیے ، اَز رہِ کرم!