لاہور رنگ روڈ موٹروے ریپ سماج کی انسانیت کی خلاف ورزی: اداریہ
از، مدیر
لاہور رنگ روڈ سے نکلتے اور لاہور سیال کوٹ موٹروے کے داخل ہونے کے رستے کے قرب و جوار میں ہونے والے ریپ جیسے جنسی جرم پر سماجی مکالمے کو بھی ہم طعنے اور تشنیع کی نذر کر رہے ہیں۔
نتیجہ؟
رنگ ہیں کہ بَد رنگ ہیں، یا بَھد رنگ ہیں؟ جانے کیا ہیں، پر یہی ہے، جو دِکھ رہا ہے۔
کچھ اس زَبر جنسی کے جرم کی بے ہودگی کے خلاف مدافعتی ہو جاتے ہیں۔ کہتے پھرتے ہیں کہ فلاں ملک میں بھی تو ایسا ہوتا ہے، فلاں جگہ بھی ایسا ہی تو ہے۔ یہ انکار کے حرفِ غلط کی پھیکی سی، بھدی سی رنگت ہے۔ یہ جرم کو normalise کرنے کا ذرہعہ بنتے ہیں۔
کَج ادائی اور کج فہمی کے اس میلے کچھ اِس جیسے جرائم کو معاشرت اور مذہب کی جنسی ضرورت سے انکار کو وجۂِ کُل جیسا قرار دینے لگتے ہیں۔ جبلّت ہوتی ہے، ہارمون ہوتے ہیں اور افعال کی سر زدگیوں کے فیصلوں کو ماپتے ہیں، پر عقل اور ضبط کی دیوار بھی تو ہوتی ہے۔
اس سماجی مکالماتی میلے جھمیلے میں کچھ دیگر ان مجرمانہ رویوں کو مذہب کے بتائے طریقوں سے دُوری قرار دیتے ہیں۔ ایسے افراد ان جرائم کو بچگانہ عمر میں شادیاں، child marriages نہ ہونے کے ضمنی اثر کا مقدمہ دائر کرنے اور وجہ باور کرانے لگتے ہیں۔
کچھ اذِیّت پسند اور معاشرے میں تشدّد کی رہتی سہتی کمی کو، اور پھانسیوں کی عددی کمی کو زبر جنسی، rape crime کا مُوجب قرار دیتے ہیں۔
آپ کی وجہیں آپ کی سمجھ کا گدلا یا شفاف آئینہ ہیں؛ جو بھی ہے آپ کو مبارک۔ آپ کے شعور کے امکانات کو مبارک۔ آپ کے فہم کی شکِست و فتح کو مبارک، آپ کے فہم کی آنکھوں میں اترے موتیے اور نُور کو مبارک…! یا پھر ان سب کیفیتوں کے بِیچ و بِیچ کی حالتوں کو مبارک… یا ان سب کی کالک و کالک۔
ہم کہتے ہیں کہ نہ مذہب نے اس طرح کی زبر جنسی کی اجازت دی، نہ معاشرہ سیدھے لفظوں میں ایسا کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ سو الزامی بھاشنوں سے معاشرے کے مُدافعتی اور انکاری چشم و نظر کے جن کو بوتل سے نکال کر آپ کوئی احسان نہیں کرتے۔
زبر جنسی، یا ریپ ہر صورت میں ایک جرم ہے۔ اس کو طعن و تشنیع کی نذر کر کے معاشرے کو فکری اور الزامی ہوائی فائرنگ والی ذہنی کیفیت میں لانا، اور اسے ملک میں پھانسیوں کی سزا کی معجزاتی اِکسیرِ بے بدل کی بحث کو تقویت دینے کی تہذیبی معکوسی فکر کا ذریعہ بنانا، بچوں کی شادیوں کی آوازوں کو لاؤڈ سپیکر تھمانا کوئی سماجی، معاشرتی اور دینی خدمت نہیں۔
فہمیدہ رویہ جرم کی تنقید اور اس کی سماجی نا پسندیدگی کو واضح کرنا ہے۔ جرم کی بیخ کنی کے عمل کو تقویَّت دینے کا جُزو بننا ہے۔ جرم کا شکار انسان کی معاشرے میں قبولیت کے لیے فضاء سازگار کرنی ہے۔
کسی فرد کا کہیں بھی کم زور اور بے یار و مددگار ہو جانا اس کو قدرت و پروردگار کی جانب سے فراہم کردہ من و سلویٰ نہیں بنا دیتا۔ کسی کا لباس کا انتخاب کسی دوسرے کے لیے اس کے میسر ہو جانے کا بِالواسطہ پیغام نہیں ہوتا۔ جرم کے ارتکاب کی قدرت و طاقت رکھنے والا اپنی نظر، اپنی جبلّت اور اپنے ہارمونوں کا نِگہِ بان ہوتا ہے، اپنے نفس کے مُنھ زور گھوڑے کی باگ ہوتا ہے۔