
سید علی ہجویری المعروف داتا صاحب
از، لیاقت علی ایڈووکیٹ
سید علی ہجویری المعروف داتا صاحب لاہور کے پیٹرن سینٹ ہیں۔ ان کو یہ حیثیت اور اہمیت اس بنا پر ملی ہے کہ ان کی شخصی زندگی اور مذہبی نظریات بارے زیادہ تر معلومات سنی سنائی اور غیر مصدقہ ہیں۔ کسی صاحب مزار کی یہ ایسی خوبیاں ہیں جو اسے عوام و خواص میں مقبول اور پسندیدہ بنانے میں اہم رول ادا کرتی ہیں کیوں کہ مصدقہ معلومات کے عدم دست یاب ہونے کی بدولت آپ جو چاہیں ان سے منسوب کر کے کہہ سکتے ہیں۔ داتا صاحب کی بھی ٹھیک یہی صورت حال ہے۔ ان وہ کب پیدا ہوئے اور کب فوت ہوئے اس بارے میں کچھ بھی مصدقہ نہیں ہے، سب اندازے ہیں۔
ان کے مذہبی نظریات اور عقائد بارے معلومات کے ماخذ اکثر صورتوں میں کم زور اور غیر مصدقہ ہیں۔ان کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انھوں نے متعدد کتابیں لکھی تھیں لیکن ان سے منسوب سب سے مشہور کتاب کشف المحجوب ہے اور کشف المحجوب بارے بھی کس کو کچھ علم نہیں ہے کہ اس کا مخطوطہ یا قلمی نسخہ دنیا کی کس لائبریری یا میوزیم میں موجود ہے۔ اس کتاب کے ایک سے زائد اردو اور ایک عدد پنجابی (ممکن ہے ایک سے زائد پنجابی تراجم ہوں لیکن میرے علم میں شریف صابر کا پنجابی ترجمہ ہی ہے) ترجمہ بھی موجود ہے لیکن ان میں بھی مواد کے اعتبار سے باہم مطابقت نہیں ہے۔
داتا صاحب سے بلا خوف تردید کچھ بھی منسوب کیا جاسکتا ہے جیسا کہ ایک صاحب نے اپنے تحقیقی مقالہ سید علی ہجویری اور پاکستان کا نظام تعلیم کے موضوع پر لکھا تھا اور واہ واہ سمیٹی تھی کیوں کہ آپ جو چاہے لکھ دیں اس کی کون سی کسی نے تردید کرنی ہے کیوں کہ ایسا کچھ مصدقہ ہے ہی نہیں ہے۔
پاکستان کا ہر حکم ران داتا صاحب کے مزار پر حاضری دینے کو سیاسی طور پر ضروری خیال کرتا ہے اور تو اور بھٹو جیسا ماڈرن حکم ران بھی داتا صاحب کے مزار پر حاضری دیا کرتا تھا۔
قیام پاکستان سے قبل داتا صاحب کا مزار چھوٹا سا تھا لیکن قیام پاکستان کے بعد اس میں بتدریج وسعت ہوتی چلی گئی بالخصوص ستر کی دہائی میںاس میں بہت زیادہ توسیع کی گئی تھی۔ بھٹو شہید نے ایران سے ملنے والا سونے کا دروازہ مزار کو عطیہ کیا تھا۔جس سے داتا صاحب کی اہمیت، حیثیت اور شہرت میں مزید اضافہ ہوا۔
ن لیگ کے اسحاق ڈار جو داتا صاحب کے خصوصی مرید ہونے کے دعویٰ دار ہیں ۔انھوں نے اپنی بزنس ایمپائیر کا نام بھی داتا ہجویری کے نام پر ہی رکھا ہوا ہے، نے لاہور کے تاریخی اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ کی خوب صورت عمارت کو منہدم کروا کر اس کی جگہ قوالی ہال بنوا دیا تھا اور گذشتہ برس نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے مزار کے ارد گرد 21 کنال مزید زمین ایکوائیر کر کے اس کو وسعت دینے کا پروگرام بنایا تھا۔ یہ پراجیکٹ جس پر کام جاری ہے کے لیے زمین خریدنے پر پنجاب کے بجٹ سے اگر اربوں نہیں تو کروڑوں روپے تو ضرور خرچ ہوں گے کیوں کہ مزار کے ارد گرد واقع زمین انتہائی قیمتی ہے۔
داتا صاحب کے مزار کے علاوہ لاہور میں میاں میر اور مادھو لعل حسین کے مزار بھی ہیں لیکن ان دونوں مزاروں پر شاذ ہی کسی قابل ذکر صوبائی یا وفاقی حکومت کے عہدیٰ دار نے کبھی حاضری دی ہو۔ ایسا کیوں ہے؟
شاہ حیسن، میاں میر اور بلہے شاہ کے افکار و نظریات اور شاعری کمپوزٹ کلچر اور انسانوں کو بلا لحاظ مذہب جوڑتی اور سماجی امتیازات کی نفی کرتی ہے لہٰذا انھیں ہماری ریاست اور حکومت ہمیشہ نظر انداز کرتی ہے۔ مادھو لعل حسین ، میاں میر اور بلھے شاہ کے بر عکس داتا صاحب مذہبی تفریق، تبدیلی مذہب، سماجی اور سیاسی سٹیتس کو کے حامی اور موید ہیں لہٰذا ریاست پاکستان کو داتا صاحب اپنے سیاسی نظریاتی اور سماجی اہداف سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ ریاست پاکستان کو ان سے منسوب نظریات اپنی پالسیوں کی ترویج میں معاون لگتے ہیں اس لیے ان کی شخصیت اور ان کے نظریات کو ریاستی اور حکومتی سرپرستی میں پروموٹ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ داتا صاحب کے مزار پر حکومتی عہدیٰ داروں اور ریاستی اہل کاروں کا جانا آنا لگا رہتا ہے۔ٖ