زبان کے متعلق دیومالائی تصورات اور ان کا تجزیہ
(اصغر بشیر)
قریباً ہر معاشرے میں زبان کے متعلق فرضی داستانیں ہوتی ہیں۔ یہ عموماً زبان کے آغاز کے بارے میں ہوتی ہیں کہ فلاں اور فلاں زبانیں خدا یا دیوتاؤں نے اتاریں۔چونکہ یہ فرضی داستانیں ناقابلِ تصدیق ہوتی ہیں اور سبھی معاشرے کسی ایک فرضی داستان پر یقین نہیں رکھتے ، اس لیے وہ اپنے مخصوص مذہبی یا ثقافتی عقیدے میں محدود رہتے ہیں۔ لسانیات آفاقیت اور معروضیت کو بنیاد بنا کر زبان کی حقیقت بیان کرنے کی کوشش کرتی ہے۔آفاقیت سے مراد یہ کہ ہمارے نتائج پوری دنیا کے لیے قابلِ قبول ہوں۔ معروضیت سے مراد یہ کہ ہر کوئی معقولیت کی بناء پر ہمارے نتائج کو قبول کرئے۔ زبان کے ارتقاء پر گے ڈشر(Guy Deutscher) کی ایک کتاب زبان کی معروضی و آفاقی وضاحت کی کوشش کرتی ہے۔ ڈشر دلیل دیتا ہے کہ انسانی زبانیں پیچیدہ ساخت کی مالک ہیں لیکن اس ساخت کو کسی فطین یا دانشوروں کے گروہ نے مختصر وقت میں نہیں بنایا بلکہ یہ ہر لحظہ بدلنے والی فطری قوتوں کے ذریعہ ابھری۔ بے شک لوگ ہی اسے بولتے اور بدلتے ہیں۔ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اس کی دوسری وجوہات کے ساتھ ایک یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ لوگ دوسری تہذیبوں سے وہ چیزیں مستعار لیتے ہیں ان چیزوں کے لیے ان کی پاس الفاظ نہیں ہوتے۔ اس کی حالیہ مثال اردو زبان میں انگریزی سے مستعار لیے گئے الفاظ ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری زبانوں سے بھی الفاظ ادھار لیے گئے ہیں جیسے پرتگالی الفاظ پیئن، الماری اور اچار وغیرہ۔ عربی اور فارسی سے مستعار لیے گئے الفاظ کی تعداد بیان سے باہر ہے۔ صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ بعض آوازوں کو مختصر کرکے یا بعض الفاظ کو طاقت ور اثر دینے کے لیے تلفظ بھی بدلتا ہے۔ الفاظ کو طاقت ور اثر دینے کے لیے ہم الفاظ کو جوڑ کر نئے الفاظ بناتے ہیں۔ ہمارے ذہن ترتیب کے آرزومند ہونے کی وجہ سے نئے سانچے (pattern) تخلیق کرتے رہتے ہیں اور زبان بدلتی رہتی ہے۔ مصنف اپنا تھیسس ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
“ٹارزن کے دور میں صرف مادی اشیاء اور اعمال کو ظاہر کرنے والے الفاظ کے ساتھ ان کو ترتیب دینے والے چند فطری قوانین کی ہی ضرورت تھی، ان خام مالوں سے تبدیلی کی فطری قوتوں نے زبانوں کی ساخت کی وضع نکالی ہوگی۔”
بے شک کوئی قطعی طور پر نہیں جانتا کہ ایسا دور کبھی رہا ہے کہ جس میں لوگ ٹارزن کارٹون کی طرح صرف چند ایک الفاظ استعمال کرتے تھے۔ یہ ایک مفروضہ ہے جب تک ہمارے پاس اس سے بہتر وضاحت نہیں آجاتی اسے وقتی طور پر سچ قبول کر لینا چاہیے۔ ایسے ہی تحقیق آگے بڑھتی ہے۔ سائنس میں کچھ بھی مقدس اور حتمی نہیں ہوتا لیکن جو بھی نظریہ قبول کیا جائے تو اس لمحے چیزوں کی وضاحت کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ واقعاتی طور پر یہ نظریہ انسانوں، جانوروں اور پودوں میں جینز کے ارتقاء کے نظریہ سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ رچرڈ ڈاکنز اپنی کتاب دی سیلفش جین (1978) میں کہتا ہے کہ زندگی کی پیچیدہ حالتیں اسی وقت قائم ہوئیں جب جینز نے اپنی بقاء کے لیے اپنے جیسے جینز تخلیق کرنا سیکھ لیا۔
اگر زبان انسان کے ساتھ ہی وجود میں آئی ہے تو یہ غالباً افریقہ میں 150,00 سال پہلے پیدا ہوئی۔ اگر چہ یہ ممکن ہے کہ انسان نما گروہ پہلی بار سے چند سال کے وقفے کے بعد مختلف جگہوں پر نمودار ہوئے ہونگے، موجودہ دور میں اس کی پیمائش مونث لائن میں موجود ڈی این اے کی حالت میں تبدیلی کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ اس سے جین میں تبدیلی کا تناسب معلوم کیا جا سکتا ہے اور خاص عدد نکالا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم اب تک یہ نہیں جانتے کہ یہ پہلے انسان نما حیوان کیا بولتے تھے، مائیکل کوبالس نے دلائل کے ساتھ ایک نظریہ پیش کیا ہے جس کے تحت ابلاغ کی سب پہلی حالت اشارات (gestures) تھے۔
دوسرا سوال جو اکثر پوچھا جاتا ہے کہ کیا نسل انسانی کی کوئی فطری یا اصلی زبان ہے؟ اس کا مختصرجواب یہ ہے کہ ہم قطعی طور نہیں جانتے کہ ایسی کوئی زبان ہے یا نہیں اور اگر ہے تو کونسی ہے یا تھی۔ لوگوں نےزبان کی اصلیت جاننے کے لیے کئی ایک ظالمانہ تجربات بھی کیے۔ مثال کے طور پر مغل بادشاہ اکبر نے چند بچوں کو ایک ایسے گھر پالا جہاں صرف گونگے بہرے ان کی خدمت کرتے تھے، اور کسی انسانی آواز کو ان تک نہ پہنچنے دیا گیا۔ جب یہ بچے جوان ہوئے تو بولنے کے قابل نہ تھے۔ بھیڑیے یا دوسرے جانور کے درمیان جو بچے پروان چڑھتے ہیں وہ کسی انسانی زبان بولنے کے قابل نہیں ہوتے، بلکہ جانوروں جیسی آوازیں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، المختصر ، شائد انسانوں کے پاس کوئی فطری یا اصلی زبان نہیں ہے ۔ وہ محض اپنے اردگرد بولی جانے والی زبان کو سن کر سیکھ لیتے ہیں۔
دوسری فرضی داستان کے مطابق بعض زبانیں دوسری زبانوں کی نسبت زیادہ شیریں اور منطقی ہوتی ہیں۔جدید ماہرین لسانیات کے نزدیک سب زبانیں برابر ہیں۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ بعض زبانیں ایک قسم کے کام کے لیے دوسری زبانوں کی نسبت زیادہ مناسب نہیں ہیں۔مثال کے طور پر انگریزی خلائی تحقیق یا دوسرے ایسے کاموں کے لیے اس زبان کی نسبت زیادہ اہم ہے جس میں ایسی سائنسی اصطلاحات موجود نہیں۔اس کو ساختمانی (Structural) برتری کی بجائے وظیفوی (Functional) تناسب کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔جہاں تک ساخت یعنی نطقہ(Phoneme) اور صرفیہ(Morpheme) وغیرہ کا تعلق ہے تو اس کے لیے برتری کا کوئی خاص معیار طے کرنا اور اس معیار کے مطابق زبانوں کی پیمائش کرنا خاصا مشکل امر ہے۔
ممکن ہے کہ مخصوص آوازیں یا نمونہ ارتکاز میوزیکل اور خوشگوار محسوس ہو سکتا ہے۔لیکن ایسا کسی سائنسی ریسرچ سے ثابت نہیں ہوا کہ کوئی زبان معروضی طور پر تمام نسل انسانی کے لیے خوشگوار یا خوبصورت ہو۔اسی طرح یہ کہنا سائنسی طورپر بے بنیاد ہے کہ کوئی زبان ساخت کے لحاظ سے کسی دوسری زبان سے کمتر یا برتر ہے۔جہاں تک وظیفوی مناسبت کا تعلق ہے تو کوئی بھی زبان فعل کی مناسبت سے تبدیل کی جاسکتی ہے۔ مثلاً اگر ہم پنچابی زبان پیچیدہ سائنسی ریسرچ کے لیے استعمال کرنا چاہیں تو ہم نئے مطالب کے اظہار کے لیے نئے الفاظ یا تو وضع کریں گے یا پھر دوسری زبانوں سے مستعار لیں گے۔ یہی انگریزی کے متکلمین نے کیا اور یہی ہر زبان کے ماہرین کرتے ہیں جب وہ اپنی زبان سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلقہ مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ زبان کے بارے میں لوگ کیوں اتنی مضبوط فرضی داستانوں پر یقین رکھتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ فرضی داستانیں ان لوگوں کےورلڈ ویو کا ایک اظہار ہے۔اگر وہ کسی خاص شخص یا اس کا کلچر ناپسند کرتے ہیں تو اس کی زبان کے بارے میں بھی وہ یہی رائے رکھتے ہیں ۔اکثر ممالک میں شہری لوگ دیہاتی لوگوں کو نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ انہیں کم تر تصور کرتے ہیں۔ وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ ان کی زبان کی کوئی قواعد نہیں ہے۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر متکلم کے ذہن میں قواعدی اصول موجود نہ ہوں تو اس کے لیے کوئی زبان بولنا ناممکن ہے۔ دیہاتی لوگوں کی زبان کےقواعد ان کے ذہن میں موجود ہوتے ہیں۔ ممکن ہے وہ تحریری شکل میں موجود نہ ہو۔ قواعد کے تحریری شکل میں نہ ہونے کی ایک وجہ طاقت اور زر کی کمی بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ان دونوں کے بغیر یہ تو زبان کی تشہیر کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس میں کتابیں چھاپی جا سکتی ہیں۔
ماخذ:
لسانیات: ایک تعارف، ڈاکٹر طارق رحمٰن، مترجم: اصغر بشیر، سٹی بکس پریس، ۲۰۱۷ء