گزشتہ تین ماہ میں پڑھے گئے چند ناولوں کا تعارفیہ
از، ضیغم رضا
اکتیس مارچ دو ہزار انیس کا سورج غروب ہوا تو میں نے گئے دنوں کے سراغ میں حافظہ دوڑایا جس نے ساہ ماہی گزران کو آن موجود کیا۔ ان تین مہینوں میں چند ایک ناول پڑھے۔ ٹھہریے! کچھ افسانوی مجموعے اور تنقیدی اور دیگر نثری تحریریں بھی نظر سے گزریں مگر ان کا ذکر مقصود نہیں۔ آپ اسے بھلے ہی میرے تعصب سے تعبیر کریں مگر فکشن میں بالخصوص مجھے ناول پڑھنے؛ اس کے بارے میں سننے اور بات کرنے سے زیادہ دلچسپی رہی ہے۔ ایک استاد سے بھی کچھ عرصہ قبل سنا تھا ناول پڑھنا؛ ایک سے زائد زندگی جینے کا قرینہ سکھاتا ہے۔ بہرحال وجہ کچھ بھی ہو ناول سے مجھے غیر مشروط محبت ہے سو یہ سطور بھی میری اسی ‘محبت’ سے مخصوص ہیں۔ ہاں! ایک بات کی وضاحت ضرور کرنا چاہوں گا کہ ذیل میں جتنے بھی ناولوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے اس کی ترتیب نہ تو طباعتی تفوق پہ ہے، نہ ان کی اہمیت کے سبب اور نہ ہی ناول نگاروں کی بزرگی کو پیش نظر رکھا گیا۔ اس کے بر عکس جس ترتیب سے یہ ناول پڑھے اس طور (پاکستانی اور ہندوستانی ناولوں کا الگ) ان کا ذکر بھی صرف اور صرف میری ذاتی؛ ایک عام قاری کی حیثیت سے ملے گا؛ میرے محاکمے میری ذاتی حیثیت سے ہی دیکھنا چاہیے!
تو جناب اکیسویں صدی کے انیسویں سال جو پہلا ناول میں نے پڑھا وہ زینہ ہے؛ جی ہاں وہی زینہ جس کے خالق خالد فتح محمد ہیں اور اب تک چھ ناول لکھ چکے ہیں جبکہ ساتویں کا ذکر ان سطور میں موجود ہے۔ جہاں تک خالد فتح محمد کے ناولوں کا تعلق ہے تو عمر کا ایک خاص حصہ مرکز میں گزارنے کے با وجود وہ کبھی بھی مرکز جو نہیں رہے۔ ان کے ناولوں کو اگر ہم ہماری سیاست کی جبری تاریخ کا آئینہ کہیں تو بے جا نہ ہو گا۔
شہر مدفون میں وہ تقسیم کو موضوع بناتے ہیں تو سانپ سے زیادہ سیراب میں پہلے مارشل لا کی نحوست کو کوستے ہیں؛ خلیج یحیی خان کی خباثتوں کے سبب دو لخت ہوئے ملک کا نوحہ ہے تو پری میں مشرف دور کو موضوع بنایا گیا۔ ان سب ناولوں میں ایک خاص بات مشترک ہے کہ انہوں نے ان تاریخی ادوار میں نعرے لگانے والوں کو موضوع بنانے کی بجائے ان نعروں کے ذریعے ورغلائے جانے والوں کو مرکزیت پہ لا کھڑا کیا ہے۔ زینہ میں بھی یہی روایت برقرار رکھی گئی ہے جو کہ اس عہد کی کہانی ہے جس میں ہم سانس لے رہے ہیں۔
ابتدا میں یہ بات بھی واضح ہو جائے کہ گوجرانوالہ خالد فتح محمد کا عشق ہے بل کہ وہ روزن جس سے وہ زندگی کو بہ حیثیت کل دیکھنے کی سعی کرتے ہیں سو زینہ کا متکلم بھی گوجرانوالہ کا باسی ہے۔ کچھ کرنے کا عزم لیے؛ بے کاری کا کچھ وقت گزار کر بالآخر بہتری کی طرف لوگوں کو اکسانے کا کام اسے مل جاتا ہے۔ ہر مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ کے بمصداق رشد کا پیکر اسم با مسمیٰ ہادیہ اس کی زندگی میں وارد ہوتی ہے اور کایا پلٹ کے رکھ دیتی ہے۔ ناول میں دو طرح کے کردار ہیں ایک وہ جو قادیانی/ غیر مسلم ہیں اور ایک وہ جو ‘اٹھا لے جانے والوں’ کے نمائندوں ہیں۔
موخر الذکر اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پہ اول لذکر کو تحفظ بھی دے چکے ہیں اور ان کے خلاف بھی مورچے کا حصہ بن چکے ہیں۔ در اصل یہ ہمارے بنے بنائے ٹیپوز کو چیلنج کرنے کی کہانی ہے کہ جو پھیل کر شدت پسندی و تنگ نظری پہ محیط ہو جاتی ہے۔ ظفر، خان زادہ، متکلم کا باپ اور خود متکلم اس تنگ نظری کو مہمیز دینے کا آلہ کار ہیں اور یہ ایسی دلدل ہے کہ جس میں داخل ہونے کے بعد باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں! ہادیہ سے جسمانی قرب اور بے انتہا محبت کے با وجود متکلم اگر اسے رقیب کے ساتھ بہ آسانی جانے دیتا ہے تو کہیں اس بات کی بھی نشان دہی ہوتی ہے کہ بظاہر جس قدر بھی ہم آزاد خیالی کا لبادہ اوڑھیں ہمارے اندر سے تنگ نظری ختم نہیں ہوتی۔ اور یہ بھی کہ جب تک ہم اسٹروٹائپ کو چیلنج نہیں کرتے؛ محفوظ ہیں بصورت دیگر ہمیں ‘غائب’ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا! ناول میں کہیں کہیں کرداروں کی ‘میں’ بیدار ہو جاتی ہے اور مکالموں کو بوجھل کر جاتی ہے مگر موضوع کی بے باکی کے سبب یہ ایک شان دار ناول ہے۔
اسی طرح کے ہی موضوع پہ لکھا گیا ناول گرد باد بھی ہے کہ جسے محمد عاطف علیم نے لکھا ہے۔ عاطف علیم کا ناولٹ مشک پوری کی ملکہ چُوں کہ ساماہی آج میں چھپ چکا ہے سو قارئین کا بیش تر حلقہ ان کے نام سے نا واقف نہیں ہو گا۔ گرد باد چوں کہ ضیالحق کے دورِ مارشل لا کو موضوع بناتا ہے سو کردار بھی انہیں طبقات سے لیے گیے جو اس دور میں مرغوب یا مردود تھے۔ ایک طرف طوائف ہے کہ جس کی نمائندگی شمو کررہی ہے جب کہ دوسری طرف ضیالحق کے دست و بازو کا نمائندہ چراغ دین ہے جو شاہ کا لبادہ اوڑھ چکا ہے۔ ناول میں موجو ہو، شمو ہو یا پھر چراغ دین یا پھر حمید ان سب میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے جبر کے عہد میں سانس لیتے ہوئے انسان کی دُہری زندگی سو یہ سب کردار اپنی اصل کو کسی طرح پانے کے خواہش مند ہیں اور ساری زندگی اسی کش مکش میں گزار دیتے ہیں۔ چراغ شاہ اونچے استھان پہ بیٹھنے کی بہ جائے اپنی جڑوں کو لوٹنا چاہتا ہے، شمو کلاسیکی رقص میں مگن ہونا چاہتی ہے اور موجو شمو کے قرب کا خواہاں ہے مگر یہ وہ پرندے ہیں جو قفس میں پھڑپھڑاتے ہیں اور پرواز کی دم توڑتی خواہش پہ ماتم کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔
اسی جبر نے حمید کو جہادیوں کے ٹولے میں شامل کرایا اور خود کشی پہ اکسایا، شمو؛ رقص کی بجائے رقص میں رکاوٹ بننے والے کانٹے کو نکال باہر پھینک کر مطمئن ہو جاتی ہے؛ چراغ دین آزادی کی خواہش لیے قبر میں سو جاتا ہے مگر موج دین کے حصے میں ان زخموں کا بوجھ اٹھائے پھرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
عاطف علیم نے بناوٹی نثر کی بجائے بے تکلف اسلوب اپنایا ہے اور کہیں کہیں کرداروں کی فصیح و بلیغ گفتگو بھی چبھتی ہے مگر ناول میں جبر اور اس کے نتائج کی بہ احسن پیش کش کی گئی ہے۔
اب ذکر سنیے جاگے ہیں خواب میں کا اگر چہ اختر زضا سلیمی کا دوسرا ناول جندر کچھ حوالوں سے قدرے متنازع ہے مگر اول الذکر ناول کی حیثت تا حال مسلم ہے۔ ایک طرف جہاں شمالی علاقہ جات کا حسن ناول کو چار چاند لگاتا ہے وہیں ٹیکسلا کی تاریخی حیثیت اور اس تاریخ کو اپنے تحت الشعور سے بر آمد کرنے والے کردار دل چسپی کا سامان ہیں۔
اشوک اعظم سے لے کر سید احمد شہید و ایبٹ اور حال تک اس علاقے کی حرب و جذب پہ محیط تاریخ کو بحیثیتِ کُل دیکھا گیا ہے۔ زمان اور ظفر وغیرہ ایک ایسے خاندان کے سپوت ہیں جو پشت ہا پشت حملہ آوروں سےبر سرِ پیکار رہے یا پھر علاقے کی چابیاں حکمرانوں کو تھماتے رہے۔ اشوک اعظم کے کندہ حکم نامے ہوں یا ایبٹ کی عیارانہ خوش خلقی ان کی حمایت موجودہ نسل کو یہ سوچنے پہ مجبور کرتی ہے کہ سید احمد کی موت کو کس کھاتے میں ڈالا جائے۔ اکیسویں صدی میں اس ناول کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ مشرق کی قدرے “ما بعد الطبیعاتی” فضا میں رہ کر کچھ ایسے سوال اٹھائے گئے ہیں جو مابعدالطبیعاتی نہ ہوتے ہوئے؛ سائنس اور منطقیت کے لیے ایک چیلنج ہیں۔
میں نے بات کی کہ ہمارے ہاں ما بعد الطبیعات اور طبیعات کے بین بین ایک الگ تصور راہ پا رہا ہے اس کی وضاحت چاہیے تو وحید احمد کے ناول زینو اور مندری والا دیکھیے۔ زینو کے ایک حصے میں یونانی تہذیب کو موضوع بنایا گیا ہے کہ جو بظاہر خاصا پُر کشش مگر سرا سر کتابی ہے۔ زینو ایک مصلح کے روپ میں سامنے آتا ہے مگر وہ دارا و سکندر کو جنگ سے باز نہیں رکھ پاتا اور نہ ہی انفرادی اناؤں کی جنگ میں ہزاروں معصوم جانوں کے زیاں کو روک پاتا ہے۔ یہاں تک چُوں کہ تاریخ تھی سو نتائج کو بدلنا ناول نگار کے بس میں نہ تھا البتہ اس نے وجوحات کا تعین ضرور کیا ہے۔
وہ یوں کہ کسی بھی شخصیت کی تعمیر میں اس کی تربیت کا دخل ہوتا ہے۔ سو یہ کمی سکندر کی پیدائش سے پہلے کی گئی پیش گوئیاں اور ارسطو کی پڑھائی گئیں رزمیہ نظمیں پوری کرتی ہیں۔ یہ اسی شخصی تعمیر کا اثر ہے کہ زینو کی خالص سونے سے بھری ہوئی کشتی کی آفر بھی ٹھکرا دی جاتی ہے اور سکندر اپنے ارادے سے باز نہیں رہ پاتا۔ ناول کا دوسرا حصہ موجودہ دور کو موضوع بناتا ہے جہاں اصحاب کہف کی طرف زینو بھی برف میں جما ہوا بر آمد ہوتا ہے۔ یہاں ناول نگار کی پیشہ ورانہ ڈاکٹری کام آئی اور زینو کی رگوں میں برٹل کی مدد سے خون دوڑا لیا گیا۔ یہاں بھی زینو اپنی پرانی ذمہ داری سنبھال لیتا ہے اور ملکوں ملکوں گھوم کر سر براہان کو چور بازاری، ظلم و بربریت وغیرہ سے باز رکھنا چاہتا ہے مگر نتیجہ ہمیشہ کی طرح صفر! سو ہر نظریے اور زندگی کی بہتری کے خواہاں اصول سے مایوس ہو کر زینو جب تیر چھوڑتا ہے تو کسی درخت سے کوئی ابابیل برآمد نہیں ہوتی کہ تیر پکڑ کر زینو کو لا تھمائے۔
ناول کا یہ اختتام زینو کی ہی نہیں ناول نگار کی بھی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے کہ ہر نظریے کی نا کامی کے با وجود زندگی بہر حال چلتی ہے سو ناول کا اختتام تو ہونا چاہیے تھا مگر زندگی کی بہتری کا نہیں اور بد قسمتی سے ناول نگار نے یہی کیا ہے۔
اگر بات کی جائے وحید احمد کے دوسرے ناول ‘مندری والا’ کی تو اس میں اور زینو میں یہ فرق ہے کہ زینو میں ماضی کا کوئی فرد حال کی طرف سفر کرتا ہے جب کہ مندری والا میں حال کا فرد ماضی کی طرف سفر کرتا ہے۔ تعفن زدہ اس دنیا سے بیزار لوگوں کا گروہ ایک ایسی دنیا میں مقیم میں جو ہر لحاظ سے صاف ستھری ہے۔ وہاں کچھ عرصہ رہنے کے بعد ناول کا مرکزی کردار جب واپس اپنی دنیا میں آتا ہے تو وہ بھی ایک ‘ مصلح’ کا روپ دھار لیتا ہے؛ من چاہا مقام حاصل کرنے کے با وجود دوسری دنیا سے اس کا تعلق بہر حال مشکوک ٹھہرتا ہے! ناول کا مرکزی نکتہ خیر و شر کی ازلی پیکار کے گرد گھومتا ہے اور مشکوک کردی گئی خیر پہ شر کا غلبہ ایک اہم سوال کی صورت موجود ہے۔
احمد جاوید کی وفات کے بعد شائع ہونے والے ناول جینی میں مارکس اور جینی کی داستانِ حیات، جو در اصل محبت سے تعبیر تھی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ناول میں اگر چہ ماضی کا صیغہ کہیں کہیں اسے سوانح عمریوں کے قریب کر دیتا ہے مگر مارکس اور جینی کی داخلی و نفسی زندگی کا مرقع اس ناول کو خاصے کی چیز بنا دیتا ہے۔ تاریخِ انسانی ایک بڑے ہمدرد کو خانگی و داخلی زندگی میں جن مصائب سے نبرد آزما ہونا پڑھا، اس ناول سے زیادہ خوب صورت انداز میں خراجِ عقیدت پیش نہیں کیا جا سکتا۔
اس طرح کی ہی ایک محبت کا آئینہ دار محمد عاصم بٹ کا ناول بھید جو کہ انہیں لاہور شہر سے ہے۔ لاہور کے پر سکون نواح سے نکل کر شہر کی چکا چوند میں گم ہوتے کرداروں کا بھید پانا عاصم بٹ کا مرغوب موضوع ہے یہ ہم دائرہ میں بھی دیکھ چکے ہیں بھید بھی کچھ اسی قسم کا ناول ہے۔ اگرچہ ناول نگار نے یہ قول محال باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ناول کی ہیروئن کی محبت میں ناول نگار کو خود ہیرو کا روپ دھارنا پڑا مگر ہیروئن کا سراپا اس دعویٰ کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے وہ نہ آننا کا ڈئیونا اور نہ ہی بنی ٹھنی کی پرچھائی وزیر خانم۔ اگر چِہ لاہور شہر اور اس کے کچھ انوکھے کرداروں کو ضرور کامیابی سے پینٹ کیا گیا ہے۔ اور یہی بات ناول نگار کو زندہ بھی رکھے گی کہ اس نے لاہور کو مرکز بنا کر اس کے گرد گھومتی تہذیب کو محفوظ کردیا ہے۔
یہ تو رہا کچھ پاکستانی ناولوں کا تذکرہ اب ذرا کچھ ہندوستانی ناولوں کا بھی ذکر ہونا چاہیے کہ جن میں سب سے پہلے سید محمد اشرف کا آخری سواریاں مجھ تک پہنچا۔ سید صاحب بنیادی طور پر افسانے کے آدمی ہیں میرا یہ مفروضہ نمبر دار کا نیلا اور اب مذکورہ ناول کو پڑھنے کے بعد اخذ ہوا۔ وہ کچھ یوں کہ افسانے کے بارے میں تو سنتے تھے مگر سید صاحب کا ناولٹ اور یہ ناول بھی کفایت (مگر جامع) لفظی کی عمدہ مثال ہیں۔ ایک لفط کی بھی کمی بیشی نہیں اور مدعا یوں ٹھونک بجا کے پیش کرتے ہیں کہ دھیان ذرا بھی ادھر ادھر کو نہیں بھٹکتا۔
“آخری سواریاں” کے تین حصے ہیں ایک حال، ایک ماضی قریب اور پھر ماضی بعید! ماضی بعید میں تیمور کا پرعزم خواب ہے کہ جو ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے استحکام کی صورت شرمندہ تعبیر ہوا۔ ماضی قریب میں اس خواب کا بھیانک پن ان سواریوں کی صورت نظر آتا ہے جو سلطنت سے بے دخلی کے بعد بادشاہ ظفر کو لاد کے جا رہی ہیں۔ ان سواریوں کا حال جاننے کے بعد ہندوستان کی موجوہ نسل ورطۂِ حیرت میں ہے کہ وہ کس طرف کو جائیں! اس سوال کا بھیانک پن اب موجودہ ہندوستانی مسلمانوں کی نسل سے چمٹا ہے کہ وہ بھی خواب دیکھیں یا خواب کی تعبیر کے پہلو میں سنسنی سے پناہ مانگیں۔
یہاں ماضی کی بات ہوئی تو انیس اشفاق کے دو ناول دکھیارے اور پری ناز اور پرندے کو بھی دیکھنا چاہیے۔ لکھنو سے نیر مسعود کی محبت اور نیر مسعود سے انیس اشفاق کی محبت متذکرہ اول دونوں کا رنگ انیس اشفاق کے ناولوں میں نظر آتا ہے۔ اسلوب میں نیر مسعود کا حد درجہ اتباع انیس اشفاق کو اپنا سر نہیں نکالنے دیتا۔ اسے خامی نہ بھی مانا جائے تو بھی ایک بات ہے کہ انیس اشفاق نے اپنے کرداروں کو آزاد نہیں رہنے دیا۔ اگر ناول نگار کہہ دے کہ فلاں کردار کے فلاں عمل سے فلاں کردار خوش ہو گا تو ہو بہ ہو ویسا ہو گا۔ البتہ لکھنوی تہذیب اور اس کے اہم عناصر کی باز یافت انیس اشفاق کا ایک اہم کار نامہ ہے۔ دکھیارے میں امامباڑوں، پارکوں، وضع دار شخصیات اور اہل فن کی شناخت خاصے کی چیز ہے۔ اسی طرح “پری ناز اور پرندے” کی بنیاد تو نیر مسعود کے افسانے “طاؤس چمن کی مینا” پہ رکھی گئی ہے مگر در حقیقت یہ بھی رفتہ رفتہ جھرتے ہوئے تہذیبی اجسام کا نوحہ ہے۔
مذکورہ بالا دونوں ہندوستانی ناولوں کے بر عکس رحمٰن عباس حال کی کہانی کہنے والے ناول نگار ہیں اور ان کا رویہ بھی سماج کے مروجہ چلن سے نسبتاً بغاوتی رہا ہے۔ “خدا کے سائے میں آنکھ مچولی” ایک ایسے فرد کی کہانی ہے جو خدا سے مرعوبانہ رشتے کی بجائے بے تکلفانہ انس رکھنے کا خواہاں ہے۔ اس بے تکلفی میں ظاہر ہے وہ بعض ایسے افعال بھی “سر زد” کرتا ہے جو عام مسلم دل پہ گراں گزرتا ہے لیکن اگر ایک چرواہے کو اجازت ہے کہ وہ خدا کو اپنا میمنا سجھے تو رحمان عباس پہ ملامت کیوں کی جائے؟ یہی حال ایک ممنوعہ محبت کی کہانی کا بھی ہے جہاں محبت قدرے بے جوڑ عمروں کے مرد و عورت کو قریب کر دیتی ہے۔ یہاں بھی مروجہ سماجی اخلاقیات رحمٰن عباس کا خاص ہدف ہے جب کہ محبت اس کے لیے زندگی کرنے کا لازمہ! یہی محبت نخلستان میں روح کے جسم سے تعلق کی طرح لازم ٹھہرتی ہے اگر چہ اس ناول میں کشمیر سے برتی گئی نا انصافی بھی اہم موضوع ہے۔ ناول میں کہیں کہیں صحافیانہ بیان کھلتے ہیں مگر ایک چیز ماننی چاہیے کہ رحمٰن عباس اہنے عصر میں جیتے ہیں اور اس کا کھلی آنکھوں سے ادراک بھی رکھتے ہیں۔
بظاہر سرحدی باڑ نے دونوں ملکوں کے درمیان حد فاصل قائم کر رکھی ہے مگر یہ اردو کی خوشبو ہے کہ جو دونوں اطرف بلا امتیاز بکھری ہے۔
دونوں ملکوں میں لکھے گئے ناولوں کا اپنے اپنے سماجی تناظر میں موضوعاتی اور اسلوبیاتی تجزیہ کیا جانا تو نا گزیر ہے ہی۔ اکیسیوں صدی میں اردو ناول کے چلن کو بھی خوش آمدید کہنا چاہیے کہ ہمارے موجودہ ناول نگار سانحے کی کوکھ سے نکلے کسی بڑے تجربے سے رُو شناس ہوئے بغیر بھی ناول لکھ سکتے ہیں یہ ایک بڑا چیلنج ہے جسے کچھ حد تک عبور کر لیا گیا ہے مگر چلے چلو کہ منزل ابھی نہیں آئی۔