لٹ الجھی سلجھا جارے ’کالم‘
از، گل نوخیز اختر
اب میں رات 2 بجے کے بعد کالم لکھتا ہوں… یہ تبدیلی چند ماہ پہلے آئی ہے، پہلے میں دن کے وقت ہی کالم لکھا کرتا تھا۔ ہوا یوں کہ اخبار سے مجھے فون آیا اور کہا گیا کہ کالم 3 بجے دوپہر تک درکار ہے۔ میں نے گھڑی دیکھی تو صبح کے 10 بجے تھے۔ سوچا پوائنٹس تو لکھے ہوئے ہیں، کام بن جائے گا۔ سب سے پہلے بیگم سے درخواست کی کہ خدا کے لیے مجھے کوئی ڈسٹرب نہ کرے، میں کالم لکھنے لگا ہوں۔ ہلکی سی ”ہونہہ‘‘ کی آواز آئی جس کا یقینا مطلب تھا کہ ”کہہ تو ایسے رہے ہیں جیسے کوئی بہت اہم کام کرنے لگے ہیں‘‘۔
میں نے ٹیبل سنبھالی، لیپ ٹاپ نکالا، سگریٹ سلگائی اور پہلے سے لکھے ہوئے پوائنٹس والی فائل کھول لی۔کالم کیسے شروع کیا جائے؟ اس بارے ذہن میں مختلف الفاظ کی ترتیب بنانا شروع کی۔ ابھی اس عمل کو پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ دھڑام سے دروازہ کھلا اور بیگم کی آواز آئی”انڈے ختم ہوگئے ہیں‘‘۔ اتنا کہا اور دوبارہ اُسی قوت سے دروازہ بند ہو گیا۔ دماغ میں ترتیب پانے والے سارے خیالات کا ملیدہ بن گیا۔ گہری سانس لے کر از سرِ نو خود کو ریلیکس کیا، تین چار دفعہ کالم کا آغاز کیا لیکن پھر ڈیلیٹ کر دیا۔
کوئی شروعات بہتر نہیں لگ رہی تھی۔ موضوع ذہن میں تھا، پوائنٹس سامنے تھے لیکن پیش کرنے کا ڈھنگ نہیں آ رہا تھا۔ دس منٹ اسی طرح گزر گئے۔ ایک اور سگریٹ سلگائی۔ اب کی بار چھت کو گھورنا شروع کر دیا۔ سیانے کہتے ہیں اس طرح خیال کا پنچھی پکڑنے میں آسانی رہتی ہے۔ سیانوں کا کہا سچ پایا اور پندرہ منٹ بعد ایک مناسب آغاز پر دل مائل ہو گیا۔ سگریٹ بجھایا اور لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر انگلیاں رکھیں… پٹاخ سے پھر دروازہ کھلا ۔ چونک کر دروازے کی طرف دیکھا اور دانت پیسے۔
بیگم اندر داخل ہوئیں، آنکھیں ملائے بغیر سیدھی ٹیبل کی طرف بڑھیں، بٹوے سے پانچ سو کا نوٹ نکالا اور کوئی بات کیے بغیر اُسی طرح واپس لوٹ گئیں… بخدا یوں لگا جیسے کسی نے سر پر بم دے مارا ہو۔ بہت یاد کرنے کی کوشش کی تھی کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے کیا سوچا تھا لیکن سارے الفاظ ‘گھاؤں ماؤں، ہو چکے تھے۔ ارادہ تھا کہ تیسری سگریٹ سلگائی جائے لیکن اب کی بار خود پر قابو رکھا، پاس پڑے ہوئے فلاسک سے گرم گرم کافی کا ایک کپ بھرا اورآہستہ سے سِپ لیتے ہوئے دماغ میں چھپے پانچ منٹ پہلے کے ماضی کو کریدنا شروع کر دیا۔
جوں جوں کافی حلق میں اترتی گئی، یادداشت بحال ہوتی گئی۔ اور پھر تھوڑی دیر بعد اللہ نے کرم کر دیا، سب کچھ یاد آ گیا۔ دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ اب واقعی ایک سگریٹ بنتی تھی۔ لائٹر اٹھایا، سگریٹ سلگائی اور لمبا کش لے کر کی بورڈ پر ہاتھ رکھا اور احتیاطاً ایک نظر دروازے کی طرف دیکھا۔ الحمدللہ امن و سکون تھا۔ کالم لکھنا شروع کیا۔ چار ہی لائنیں لکھی تھیں کہ منحوس دروازہ پھر خوفناک آواز کے ساتھ کھلا۔ ایک دم تراہ نکل گیا۔ غصے سے مٹھیاں بھینچتے ہوئے بیگم کی طرف دیکھا… فوراً بولیں ”سوری… یاد نہیں رہا تھا…‘‘ اور دروازہ پھر بند…!!! ساتھ ہی دماغ بھی بند ہو گیا۔
غور سے لکھی ہوئی لائنوں کی طرف دیکھا لیکن سمجھ نہیں آئی کہ یہ میں نے کیوں لکھی ہیں۔ بار بار سر کو جھٹکا کہ شاید الائنمنٹ ٹھیک ہو جائے لیکن اِس بار مسئلہ بیلنسنگ کا تھا۔ دل چاہ رہا تھا کہ دیوار میں ٹکر دے ماروں۔ یہ تو طے تھا کہ جو کچھ سوچا تھا وہ ذہن کی سکرین سے ڈیلیٹ ہو گیا تھا۔ دل پر جبر کر کے اٹیچ باتھ کی طرف قدم بڑھائے کہ شاید پانی کے چھینٹے منہ پر مارنے سے ‘ری سائیکل بِن، کھل جائے اور سارا مواد واپس آ جائے۔ منہ دھونے سے اتنا ضرور ہوا کہ دماغ کچھ ٹھنڈا ہوا۔ کافی بھی ٹھنڈی ہو چکی تھی لیکن اب کافی پینے کو دل نہیں کر رہا تھا۔
دماغ کی بتی گل ہونے کی وجہ سے بس خاموش بیٹھے رہنے کو دل کر رہا تھا لہٰذا صوفے پر لیٹ گیا اور آنکھیں بند کرکے تیسری دفعہ پھرکالم یکجا کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ عین اسی لمحے پھر دروازہ کھلا اور بیٹا اندر داخل ہوا۔ مجھے لیٹے دیکھ کر اس کے حلق سے زور دار قہقہہ نکل گیا۔ باہر منہ کر کے زور سے چلایا ”ماما! آپ تو کہہ رہی تھیں بابا کالم لکھ رہے ہیں، وہ تو مزے سے سو رہے ہیں‘‘۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ گیا، اس سے پہلے کہ کچھ بولتا، کچن سے بیگم کی آواز آئی ”بیٹا مجھے پتا ہے، یہ اسی طرح کالم کا بہانہ بنا کر نیند پوری کرتے ہیں تاکہ گھر کا کوئی کام نہ کرنا پڑے‘‘۔ میں بے اختیار چلا اٹھا ”اوئے عقل مندو! کالم اسی طرح لکھا جاتا ہے‘‘۔
بیگم کی آواز آئی ”ہاں تو پھر لکھیں نا، سو کیوں رہے تھے؟‘‘۔ میں نے مٹھیاں بھینچیں اور گھور کر بیٹے کو دیکھا، اس نے جلدی سے دروازہ بند کیا اور ڈر کے بھاگ گیا۔ میں نے حتی المقدور اپنے بال نوچے اور دوبارہ کرسی سنبھال لی۔ اب کی بار میں نے سوچ لیا تھا کہ کالم مکمل کر کے ہی اٹھوں گا۔ اسی جذبے کے تحت آدھے گھنٹے میں تین پیراگراف مکمل کر لیے۔ کام چل نکلا تھا اور دل میں بھی جوش بھر گیا تھا۔ چوتھے پیراگراف میں نیا پن شامل کرنے کے لیے میں نے تین چار مختلف زاویے سوچے اور… اسی لمحے دروازے پر بیل ہوئی۔ غصہ تو بہت آیا لیکن میں نے بھی تہیہ کر لیا تھا کہ کرسی نہیں چھوڑنی۔ دو تین دفعہ بیل ہوئی… اور پھر شاید بیٹے نے دروازہ کھول دیا۔
تھوڑی دیر بعد وہ دروازہ کھول کر اندر آیا ”بابا آپ کے پانچ دوست آئے ہیں‘‘۔ میری آنکھیں پھیل گئیں، پانچ دوست؟ اور وہ بھی بغیر بتائے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے، میرے دوست تو کبھی فون کیے بغیر نہیں آتے۔ کچھ عجیب سا لگا لیکن بہرحال اب میرا باہر جانا ضروری ہو گیا تھا۔ ایک انگڑائی لے کر لیپ ٹاپ بند کیا اور کمرے سے باہر آکر دروازے کی طرف بڑھا۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ دوستوں کو کہہ دوں گا کہ شام کو ملاقات ہو گی ابھی میں نے کالم دینا ہے۔ دروازہ کھولتے ہی باہر نظر پڑی اور دماغ بھک سے اڑ گیا… باہر ٹوپیاں پہنے پانچ باریش لوگ کھڑے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی ان کے چہرے کھل اٹھے… آگے بڑھ کر بولے ‘السلام علیکم‘۔ میں نے وعلیکم السلام کہا اور پھر سر جھکا کر ان کی باتیں سننے لگا…!
پچیس منٹ بعد میں دوبارہ کمرے میں داخل ہوا تو ٹانگیں شل ہو رہی تھیں۔ میں نے گھڑی پر نظر ڈالی، کالم بھیجنے میں صرف 30 منٹ رہ گئے تھے۔ ایک دم سے مجھ میں بجلیاں بھر گئیں۔ میں نے تیزی سے کرسی سیدھی کی اور لیپ ٹاپ کھول کر پہلے سے لکھی ہوئی لائنیں پڑھیں اور دیوانہ وار اگلی لائنیں ٹائپ کرنے لگا۔ وال کلاک کی ٹک ٹک دماغ پر ہتھوڑے کی طرح لگ رہی تھی۔
اُمید تھی کہ اسی رفتار سے لگا رہا تو اگلے بیس پچیس منٹ میں کالم مکمل ہو جائے گا… لیکن پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا… دشمن دروازہ پھر کھلا… اب کی بار ماسی کی شکل نظر آئی”صاحب جی! کمرہ صاف کرنا ہے‘‘۔ میں نے زور سے میز پر مکا مارا اور پاس پڑا ہوا ‘کٹر‘ اُٹھا کر قاتلانہ حملے کی نیت سے ماسی کی طرف دوڑا۔ میری حالت دیکھ کر پہلے تو اس کی آنکھیں پھیلیں، پھرگھگھی بندھ گئی، اور جب اس نے مجھے تیر کی طرح اپنی طرف کٹر لہرا کر آتے دیکھا تو ایک کربناک چیخ ماری اور ”باجی‘‘ کہتی ہوئی اندر کی طرف دوڑی…!
اُس دن کے بعد سے گھر میں سارا ماحول بدل گیا ہے۔ میں کمرے سے کسی کو آواز بھی دوں تو کوئی اندر آنے کا رسک نہیں لیتا۔ یہ ماحول اچھا ہے لیکن مجھے پتا ہے جونہی کالم لکھنے کا ارادہ کیا، سب الٹ ہو جائے گا لہٰذا… اب میں رات کو دو بجے کے بعد کالم لکھتا ہوں!