وکلاء کی فعالیت عقل، منطق اور قانون کی غیر جذباتی پیروی پر مبنی ہو، یا ہڑتالوں اور ماردھاڑ پر؟
بابر ستار
جو کچھ وکلاء نے گزشتہ ہفتے لاہور میں کیا، اس کا کوئی جوازتھا نہ اس کی حمایت کی جا سکتی ہے۔ کوئی اصول نہیں، کھلی بدمعاشی۔ جب ہم اس سوال پر غور کرتے ہیں کہ ہم اس نہج تک کس طرح پہنچے تو بار اور بنچ، دونوں کا قصور دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اگر صرف اس واقعہ کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے نہیں بجی تھی۔ ہمارے پیشے (وکالت) سے تعلق رکھنے والے بہت سے اپنے ساتھی وکلاء کی حمایت کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ اُنہیں حاصل استحقاق کو ملکی قانون سے بلند سمجھا جائے۔ چنانچہ جب قانون کی حکمرانی کے لیے پیشہ ورخدمات فراہم کرنے والے اس بلند استحقاق کا عملی مظاہرہ کرنے پر اتر آتے ہیں تو وہ نہ صحیح دیکھتے اور نہ غلط۔
جو کچھ لاہور میں ہوا، اُس سے صرف وکلاء برادری نہیں، پورے پاکستان کے اصل مرض کی وضاحت ہوتی ہے۔ ہم بنیادی طور پر ایک قبائلی اور دھڑے بندیوں کا شکار قوم ہیں۔ ہماری وفاداری کی بنیاد شناخت ہے ۔ ہماری قانون کی حکمرانی سے وابستگی اُ س وقت تک ہے جب تک قانون ہمیں پابند نہیں کرتا ۔ ہمیں اپنے سواہر کسی کی اصلاح کا بہت شوق ہے ۔ ہم اصولوں کی تبلیغ کرتے نہیں تھکتے تاوقتیکہ ہمیں خود اُن پر عمل کرنا پڑ جائے ۔ ہماری دنیا میں مدلل بحث اور اختلاف ِرائے کی کوئی گنجائش نہیں۔ آپ یاتو غیر مشروط طور پر ہمارے ساتھ ہیں، یا ہمارے خلاف ہیں۔ اس دوٹوک اور بے لچک کلچر میں کسی ایشو کی بنیاد پر اصولی موقف اختیار کرنا ممکن نہیں۔
اگر آپ ایک وکیل ہیںتو آپ پر اپنے ساتھی وکلاء کی حمایت لازمی ہے ۔ اگر آپ ایک جج ہیں تو آپ لازمی طور پر اپنے جج بھائی کا دفاع کریں گے ۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو آپ ایک اصول سے غداری کے مرتکب ہورہے ہیں۔ یہ اصول کیا ہے ؟یہ اصول اُس گروہ کی پوزیشن ہے جو اس نے صحیح اور غلط سے بے نیاز ہوکر اختیار کررکھی ہے ۔ مزید یہ کہ کسی کو داخلی احتساب یا محاسبے کے ’’غیر ذمہ دارانہ تصورات ‘‘ پیش کرتے ہوئے اس محفوظ قلعے میں دراڑیں ڈالنے کی اجازت نہیں۔ لیگل برادری میںنہ تو کسی کو اصلاح کی حاجت اور نہ ہی اس پر کبھی بات ہوتی ہے ۔ ہم اپنے ناقص جسٹس سسٹم کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ ہمیں یہ بھی علم نہیں کہ کس قدر خرابیوں کا شکار ہوچکا ہے۔
ہمارا جسٹس سسٹم بھی دھڑے بندی کا شکار، اور اتنا ہی آلودہ ہے جتنا سیاسی نظام۔ آپ ایک جج اس لیے نہیں بننا چاہتے کہ آپ اس شعبے کو پسند کرتے ہیں، یا یہ آپ کی طبیعت کے مطابق ہے۔ جج بننے کے بعد آپ ایک بلند منصب پر فائز ہوجاتے ہیں۔ ایک مرتبہ جب آپ اشرافیہ کا حصہ بن جاتے ہیں تو پھر آپ پر اس کا رنگ ڈھنگ غالب آجاتا ہے۔ یہاں آپ کی کارکردگی کی کوئی پرکھ نہیں ہوتی، نہ ہی عدالت میں آپ کے رویے کی جانچ کی جاتی ہے۔ اس کا بھی کوئی احتساب نہیں کہ آپ اپنا اختیار کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ اور ریاست کا ناقص نظام ، جوعام شہری کو تو اپنی جگہ سے ہلنے نہیں دیتا، لیکن آپ کے اشاروں پر چلتا ہے ۔ جج بنتے ہی آپ کی ذاتی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔
اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے آپ کو روسٹرم کے دوسری جانب کھڑے وکلاء کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اگرچہ وکلاء کا شمار اس اشرافیہ میں نہیں ہوتا ، لیکن خبردار، وہ بھی عام شہری نہیں ہیں۔ اپنے حقوق سے باخبر ہونے کی بنا پر جسٹس سسٹم کو تیز رفتاری سے متحرک کرنے کی صلاحیت رکھنے والی وکلا برادری اپنی تنظیمی صلاحیت کی طاقت دکھاتے ہوئے دوسروں کے لیے پریشانی پیدا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی ۔ لیکن ناک میں دم کرنے کی طاقت رکھنے والے دیگر منظم گروہوںکی طرح وکلاء بھی اس وصف سے اپنا استحقاق تخلیق کرتے ہیں۔یہ استحقاق ترجیحی بنیادوں پر سلوک کا متقاضی ہوتا ہے۔
ہمارے شکستہ اور ناقص جسٹس سسٹم میں وکلاء اور جج حضرات ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے، ’’شناسائی عزت کا بھرم چاک کردیتی ہے‘‘، وکلاء اچھی طرح جانتے ہیں کہ جوڈیشل اختیار کا من پسند استعمال کیسے کیا جاتا ہے، اور وہ اکثر اس کارِ خیر میں شریک بھی ہوتے ہیں۔ جب بار اور بنچ میں تنازع کھڑا ہو جائے تو شراکت داری کی اس تصویر کے رنگ بکھر جاتے ہیں۔ مشکل اور مہنگی انتخابی مہم چلانے کے بعد بار کاصدر بننے کا کیا فائدہ جب آپ کے ساتھ خصوصی سلوک نہ کیا جائے؟ دوسری طرف یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ جب جج حضرات بار کے افسران کے ساتھ سختی کرگزریں تو ذرا اندازہ لگائیں وہ عام وکلاء کے ساتھ کیا کریں گے۔
یقینا کچھ ججوں کا رویہ توہین آمیز ہوتا ہے، اور سلجھے ہوئے وکلاء اُن سے تنگ ہیں۔ اسی طرح توہین آمیز رویہ اختیا رکرنے والے وکلاء کی بھی کمی نہیں جن سے معزز جج صاحبان نالاں رہتے ہیں۔ لیکن ایک جج چاہے صحیح ہو یا غلط، اُس کے پاس توہین ِعدالت کا قانون ایک ہتھیار کی طرح استعمال کرنے کی طاقت ہوتی ہے۔ دوسری طرف وکلاء اپنے کسی ساتھی پر عائد توہین کے الزام کی کارروائی روکنے کے لیے جمع ہوکر عدالتی کارروائی روکنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ کیوں؟ توہین کے ایک کیس میں ایک جج اپنے تنازع کا خود جج ہوتا ہے، اس لیے نتیجہ معلوم ۔اس لیے اگر آپ جیل جانے اور اپنے کیرئیر کو داؤ پر لگانے سے بچناچاہتے ہیں تو اس کا واحد راستہ غیر مشروط معافی مانگنا ہے، اور یہ کام دے جاتا ہے۔
لیکن یہ ایک تنے ہوئے رسے پر چلنے کے مترادف ہے۔ ایک مرتبہ جب آپ خود کو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے ہیں تو پھر یہ عدالت کی مرضی کہ وہ معاف کرے یا سزا سنادے، کیونکہ آپ اپنے جرم کا اعتراف کرچکے ہوتے ہیں۔ توہین کی کارروائی میں مشورہ یہی دیا جاتا ہے کہ چاہے آپ کارویہ توہین آمیز تھا یہ نہیں، آپ اعتراف کرکے غیر مشروط طور پر معافی مانگ لیں۔ توہین کے قانون پر عدالتی فیصلوں سے پتہ چلتاہے کہ اسے بمشکل ہی کبھی انصاف کی فراہمی یا قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا زیادہ تر استعمال جج حضرات کے شخصی وقار کے تحفظ کے لیے کیا جاتا ہے۔
لیکن جو کچھ وکلاء نے گزشتہ ماہ ملتان، اور اس ہفتے لاہور میں کیا، وہ نہ تو توہین کے مقدمے کے غیر شفاف ہونے کی وجہ سے تھا اور نہ ہی توہین کے قانون کے غلط استعمال کی وجہ سے ۔ وکلاء تحریک کی کامیابی نے ایک نیا محاورہ ٹکسال کردیا کہ ’’دھونس جمانے کا پھل ملتا ہے۔‘‘ وکلاء تحریک کا مقصد آئین کی سربلندی اور قانون کی بالادستی تھا۔
ایک آمر کی طرف سے آئین کی پامالی اور عدلیہ کی آزادی سلب کرنے پر جذبات کا لاوہ بہہ نکلا۔ ہم میں سے بہت سوںنے ایک اچھے مقصد کی خاطر مشکوک طریقہ اختیار کرنے کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا۔ لیکن ہم غلطی پر تھے ۔ اُس تحریک کی کامیابی نے اُن کی حوصلہ افزائی کی جو سمجھتے ہیں کہ کامیابی ہی اصل منتہیٰ ہے، اسے جس طریقے سے بھی حاصل کیا جائے ، ٹھیک ہے ۔
افتخار محمد چوہدری کی عدالت نے اشرافیہ کے ساتھ اپنی لڑائی میں احتجاج کے شائق وکلاء کی طاقت کو سپاہیوں کی طرح منظم کردیا۔ مقصد پورا ہونے پر اُن وکلاء کی گویا لاٹری نکل آئی۔ اُنہیں عدالتوں میں ریلیف ملنے لگا، انعامات ملے، اور بعض جج بھی بن گئے۔ عوامی مقبولیت حاصل ہونے پر زیرک جج (افتخار محمد چوہدری) نے بار اور بنچ کو کنٹرول میں لے لیا ۔ لیکن اس عمل کے دوران جن بوتل سے آزاد ہوگیا۔ چنانچہ بار اور بنچ کا ٹکراؤ اب کچھ ہی دیر کی بات تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ اب ہم اس جن کو واپس بوتل میں کیسے ڈالیں؟دوبارہ افتخار چوہدری کے ماڈل کا اعادہ کرکے یہ مقصد پورانہیں ہوسکتا۔ اب ہر کوئی جان چکا ہے کہ ہمارا جسٹس سسٹم کس قدر دیمک زدہ ہے، کیونکہ یہ ایک غیر فعال ریاست کا ایک حصہ ہے ۔ غیر فعال پرزے زنگ آلود ہوجاتے ہیں، اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
اس وقت بار اور بنچ کے درمیان مفادا ت کا ٹکراؤ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اُنہیں اپنے نظریات اور افعال میں پیشہ ورانہ بہتری لانی ہوگی۔ ایک حوالے سے بار اور بنچ کا ٹکراؤ ہونا اچھی بات ہے۔ اس نے قانونی برادری کے نقائص کو افشا کردیا ہے۔ وکلاء کے جارحانہ رویے نے غیر جانبدار رہنے والوں کو بھی کوئی پوزیشن لینے پر مجبور کردیا ہے۔ کیا ہماری فعالیت عقل، منطق اور قانون کی غیر جذباتی پیروی پر مبنی ہو یا ہڑتالوں اور ماردھاڑ پر؟ امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے۔
کیونکہ بہت سے وکلاء دیگر وکلاء کے اس جارحانہ رویے کے خلاف بول رہے ہیں، اور یہ اچھی بات ہے۔ گروہ کے ساتھ وفاداری کی قربان گاہ پر اصولوں کا خون نہیں ہونا چاہیے۔ اگرچہ ہمارا جوڈیشل سسٹم ہزار خرابیوں کا شکار ہے ، لیکن رات کی تاریکی میں روشنی کی کرن کی طرح ایک جج نے ہمت اور قیادت دکھائی ہے، اور یہ لاہور ہائی کورٹ کے محترم جسٹس منصور علی شاہ صاحب ہیں۔ اُنھوں نے اپنی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے جسٹس سسٹم میں اصلاحات لانے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ اس دیمک زدہ نظام میں شاہ صاحب کا دم غنیمت ہے۔ اگر چہ ہمیں عدالت کے ساتھ ہی کھڑا ہونا چاہئے، اور پھر اس حالیہ واقعہ میں وکلاء اپنی اخلاقی اتھارٹی کھو بیٹھے ہیں، لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ بنچ کی اصلاح کے بغیر بار کی اصلاح نہیں ہوگی۔ چنانچہ اول خویش۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ