وسیب اور ملبار کا سنگم
از، وارث رضا
میرے دیس کے خطے”وسیب” کی ترقی پسند زرخیزی اور کمیونسٹ فکر کی جولانی جدوجہد اور بھارت کے ساؤتھ علاقے “ملبار” کی تحریکی اور شعوری سوچ اکثر ایک ایسے سنگم پر جا کر جُڑ جاتے ہیں جہاں سے سرخ جھنڈے کی لالی کمیونسٹ سوچ و فکر میں ڈھل کر جدوجہد اور صرف جد و جہد کا استعارہ ہو جاتی ہے جو آخرِ کار ایسی امید کی نوید بن جاتی ہے جس کی تھاہ اور جہد مسلسل یہاں کے سپوتوں کی داستان رقم کرتی ہے۔
نو جوان صحافی اور سوشلسٹ فکر پر کھڑا زین العابدین اپنے پُرکھوں کے “ملبار” کی محنت کَش مٹی کی روشن خیال سوچ اور جدوجہد کرنے کے نکتے سے واقف تھا۔ شعور و ادراک کے اسی خیال نے اسے گھر کے دیگر افراد سے الگ تھلگ رکھا۔
وہ روایت شکن ہونے کے ناتے باپ کی جدوجہد کو معتبر ضرور جانتا تھا مگر ان کے رسم و روایات میں مبتلا خیالات کو اپنانے کی مخالف سمت چلتا تھا۔
اسی بناء ٹنڈو محمد خان میں مقیم باپ ملبار کے روایتی کھانے پکانے کی محنت میں اسے جوتنا چاہتا تھا، مگر وہ تھا کہ باپ کی محنت کو سائنسی اندازِ فکر سے دیکھنے کی غرض سے علم حاصل کرنے میں دل چسپی رکھتا تھا اور یہی سوچ کا تضاد اس میں شعوری علم کا باعث بنا۔
زین نے کراچی کے لانڈھی ایسے سہولیات سے محروم علاقے میں اپنی زندگی کا بیش تر حصہ مزدور اور محنت کَشوں کے ساتھ گزارا۔ وہ محنت کَشوں کے سرمایہ دارانہ استحصال پر اکثر کڑھتا رہتا اورر ان کی سوچ کو سائنسی فکر سے جوڑ کر سوشلسٹ انقلاب میں تبدیلی کا خواہاں رہا۔
سوشلسٹ رشتے کو مضبوط اور توانا کرنے کی غرض سے اس نے عالمی سوشلسٹ تحاریک کا بَہ غور جائزہ لیا۔ زین میں ہر وقت کچھ نیا کرنے کی جستجو اور لگن رہتی اور وہ سب سے الگ ہٹ کر عمل اور سوچ کا فرد بنا رہتا۔
زین العابدین سے میری پہلی ملاقات لانڈھی کے مزدوروں کو اَز سرِ نو منظم کرنے کے سلسلے میں کمیونسٹ پارٹی کی کورنگی میٹنگ میں کامریڈ صادق جتوئی نے کروائی۔
زین ان دنوں کالج میں زیرِ تعلیم تھا، سو میری تجویز تھی کہ وہ مزدور محاذ کے مقابل طلبہ محاذ پر کام کرے تا کہ طلبہ قیادت میں ایک با شعور دوست کا مزید اضافہ ہو۔
اسی بناء زین العابدین کو کمیونسٹ پارٹی کی سندھ کانفرنس میں بَہ طورِ مندوب دعوت دی گئی۔ جس کے بعد زین نے طلبہ محاذ پر کام کرنے کی ٹھانی۔ اس واسطے اس نے شعوری طور سے طلبہ سے رشتہ استوار کرنے اور ان سے سماجی راہ و رسم جوڑنے کا سب سے بہتر ذریعہ شام میں درس و تدریس نکالا اور لانڈھی سمیت قائد آباد میں دیگر دوستوں کے ساتھ طلبہ کو پڑھانے میں جُت گیا۔ اس کا ہر عمل سوشلسٹ فکر کے گرد ہی رہتا تھا۔ اسی بناء وہ اپنے بچپن کے دوست اور صحافی زاہد حسین کی کوچنگ میں نا راضی کے با وجود پڑھانے کی غرض سے فوری آمادہ ہو گیا اور زاہد سمیت سب کو ششدر کر دیا۔
زین العابدین سماج کی قدروں کو سوشلسٹ فکر کے تحت دیکھنے اور کرنے کا وہ پختۂِ کار نو جوان تھا جس نے اپنی منزل ہی کمیونسٹ سماج کی تشکیل اور جدوجہد بنا لی تھی۔ اسی وجہ سے اس نے یونی ورسٹی سے لے کر صحافت میں بھی چند گنے چنے با شعور دوست بنائے اور اپنی سوچ کو پختۂِ کار رکھا۔
زین لعابدین کے دوستوں میں جرمنی میں مقیم صحافی شامل شمس نے اس کی دوستی اور اس کے خیالات کو ہمیشہ اہمیت دی اور زین العابدین کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ زین سے میرا رشتہ گو سینئر جونیئر کا تھا، مگر زین میرے لیے اس تفریق سے بالا تر ہمیشہ ایک روشن خیال اور سوچنے والا دوست اور صحافی رہا۔
زین نے اپنی صحافت کی ابتداء ڈیلی ڈان اخبار سے کی اور اپنی شناخت اور خیالات کو The Owl of Mineva کالم ذریعے پڑھنے والوں تک پہنچایا۔
زین اپنی ذات و عمل میں سوشلسٹ شخصیت کا وہ کارکن تھا جو علم و دلیل کی بنیاد پر گفتگو کا عادی ایک سخت گیر کمیونسٹ مانند تھا۔ زین طویل عرصے سے The News اخبار کے ایڈیٹوریل پیج سے وابستہ دوستوں کے لیے ایک ایسا مدد گار صحافی تھا جو صحافت اور کالم کی افادیت کو مقدم رکھتا تھا۔
زین العابدین ایک ایسی اضطرابی کیفیت کی کمیونسٹ سوچ کا سپاہی تھا جو جمہوری اور شہری آزادی پر یقین کے ساتھ اپنی آزادی کے حق کو ہر حال میں محفوظ رکھتا تھا۔
وہ چاہتا تھا کہ اس ملک کے پس ماندہ طبقے کو بالا دست طبقے سے آزاد کرایا جائے اور اس کے خاطر سماج میں سوشلسٹ فکر کی تعلیم کو عام کیا جائے۔ جہاں وہ تنگ نظری کا شدید مخالف تھا وہیں وہ کسی طور کمیونسٹوں کی کسی غیر منطقی دلیل کو ماننے پر راضی نہ ہوتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے وہ سماجی سر گرمیوں سے کنارہ کَش ہو کر فکری حصار میں چلا گیا، جسے آسانی سے کرونا وبا نے دبوچ لیا اور یوں سوشلسٹ سماج کے قیام کے خواب سجائے پُر امید سا زین العابدین سوشلسٹ فکر کے دَر کو وہ پیمانہ دے گیا جو بَہ ہر صورت استحصالی نظام کو ختم کرنے اور عوام کو فکری آزادی دلانے کا جوالا بنے گا۔
کامریڈ زین تم گئے نہیں، بَل کہ ہم سب کو جھنجھوڑ ضرور گئے ہو۔
سہ پہر کے سمے میرے موبائل پر ہم سب کے محبی اور ترقی پسند فکر کے سیلِ کارواں معروف صحافی نذیر لغاری گُلُو گیر آواز میں کہہ رہے تھے کہ وارث ہماری سوچ و فکر کا پرانا ساتھی عبدُالشُّکور نہیں رہا۔ چند ساعتیں میری سامنے اندھیرا چھا گیا۔ میں سکتے میں آ گیا اور میرے حلق سے بَہ مشکل “کب” کی آوز نکلی۔
نذیر لغاری دکھی ہو کر بولے کہ دس روز قبل… جی… کے حیران کن لہجے پر نذیر لغاری نے گویا سر پیٹ لیا۔
کہا ہاں کامریڈ ہمیں اپنے ساتھی کو کاندھا دینے سے بھی محروم کر دیا گیا۔ نذیر لغاری کے دکھ پر رونے سے زیادہ میں اپنی بے خبری پر ماتم کناں ہوا ہی چاہتا تھا کہ نذیر لغاری نے کہا کہ سب دوست مل کر ساتھ ماتم کریں گے اور گلو گیر انداز میں فون بند ہو چکا تھا۔
میں سوچ رہا تھا کہ جب نذیر لغاری، شاہد جتوئی، خاور سعید اور ارشاد امین ایسے سنگی ساتھی ہوں تو بھلا ہمارے جانے والے دوست جدا تو نہیں ہو سکتے۔ ان کے قصے محفلوں کی بھپکیاں اور ان کے خلوص بھرے قصوں میں ان کی ترقی پسند سوچ کی قربانیاں بھلا کیسے بھلائی جا سکتی ہیں؟
جب شاہد جتوئی قاسم، قاسم کہتا کبھی یہاں اور کبھی وہاں پریشان حال اپنے قاسم لاشاری کو تلاش کر رہا ہو، سوتے اٹھتے اور ہر فون پر بے ساختہ قاسم کی بات شروع کر دے تو ایسے سنگی ساتھی کے ہوتے ہم بھلا کیسے مر سکتے ہیں۔ دیکھو نا کہ قاسم بھی زندہ ہے اور شکور بھی۔
میں تو شکور سے اس بات پر نادم ہوں کہ ہمیشہ ملنے کا وعدہ کیا اور کبھی اپنی اور کبھی شکور کی مصروفیت سبب نہ مل پائے، گو کئی مرتبہ ارشاد امین سب کی منڈلی بنانے خاطر کراچی یاترا کرتے رہے مگر شاید محبت کی کسک کے اپنے ہی رنگ ہوتے ہیں۔
مجھے شکور کی ہر ترقی پسند سوچ کی محفل میں شرکت اور جوش یاد ہے جس میں خوب صورت اور گھٹے قد کاٹھ کے شکور کا چہرہ سوشلسٹ سماج کی بار آوری کے امکان پر چمک اٹھتا تھا۔
شکور اپنے ترقی پسند خیالات کی بناء پر کراچی میں سوشلسٹ فکر کی ہر محفل اور تحریک کا لازمی حصہ ہوتا تھا۔
سائستہ اور دھیمے لہجے کے شکور میں “وسیب” کی مٹھاس کے تمام رنگ موجود تھے اور زہر پیر کی جنم بھومی کے طور فرید کی مکمل صوفیانہ ادائیں بھی تھیں۔ بینک میں اہم عہدے کے با وجود شکور ایک بہترین ٹریڈ یونین ورکر کی مانند اپنے بنک کے ملازمین کے حقوق کے لیے سینہ سپر رہتے، ان کی ادبی چاشنی میں شاید کہ ان کی اہلیہ کا ہاتھ رہا ہو جو کہ ڈپٹی نذیر احمد کی پڑپوتی تھیں۔
میں اکثر ان سے چند ان دوستوں کی حمایت پر الجھ جایا کرتا جو غیر نظریاتی اور ترقی پسندی کے نام پر دھوکا تھے، مگر شکور ہمیشہ کہتے کہ کامریڈ اس تنگ نظر سوچ کے زمانے میں یہ بھی بہتر ہے کہ یہ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔
اس لمحے مجھے شکور ہمیشہ ایک تربیت یافتہ وسیب کا وہ کمیونسٹ لگا، جس نے شعوری انداز سے عوام کی جمہوری اور فکری آزادی چاہی ہو، نذیر لغاری نے درست ہی تو لکھا:
“شکور صاحب ایک پختۂِ کار سیاسی دانش مند تھے۔ وہ مارکسسٹ تھے اور انھوں نے ساری زندگی اپنی سیاسی کمٹمنٹ سے ذرہ برابر بھی انحراف نہیں کیا۔ ہمارے لیے ان کا گھر تہذیب و تمدن، ادب و فن کے مرکز کا درجہ رکھتا تھا۔ وہ زندگی بھر ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے، انھوں نے ایک لمحے کے لیے بھی موقع پرستی کی راہ اختیار نہیں کی اور نظریاتی طور پر مکمل ایمان داری سے آخری دم تک اپنے مؤقف پر قائم رہے۔ یہ ہمارا عہد ہے، ہمارا وعدہ ہے، ہمارا وچن ہے اور ہمارا پکا عزم ہے، ہم اپنے یاروں کی یادوں کے ساتھ رہیں گے۔ یارو ہم تمھیں کبھی نہیں بھولیں گے اور نہ ہی بھول پائیں گے۔”
مگر نذیر لغاری اس شاہد جتوئی کو ہم کیسے سمجھائیں جو سب کے من موہنے قاسم لاشاری کو اٹھتے بیٹھتے یاد کیے جا رہا ہے، بُھلا نہیں پا رہا، ایک پھڑپھڑاتے پنچھی مانند کامریڈ قاسم لاشاری کو ڈھونڈ رہا ہے۔
شاہد کو نہ خاور سعید کی جاں گزیں تحریر صبر دلا رہی ہے اور نہ وہ قاسم لاشاری کے ترقی پسند راستوں کو بھولنا چاہتا ہے۔
کیا ہمارے وسیب کے کامریڈز کو اس قدر چاہنے اور ماننے والے مل پائیں گے، جو آج تک کمیونسٹ نظریے کی سچائی سمیت انسانی آدرش اور احترم سے جڑے ہیں تبھی تو ہم سب زین العابدین سمیت عبدُ الشُّکور اور قاسم لاشاری ایسے ترقی پسند فکر دوستوں کو بھول جانے پر تیار نہیں۔