بائیں بازو کی سرگرمیاں
ظہیر اختر بیدری
ایک طویل عرصے بعد مجھے مزدوروں کے ایک جلسے میں شرکت کا موقع ملا، یہ جلسہ نذیر عباسی شہید کی یاد میں منعقد کیا گیا تھا، اس جلسے میں مرد مزدوروں کے علاوہ خواتین ورکرز نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔اس جلسے میں مقررین نے نذیر عباسی کی مزدور طبقے کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا۔ ہمارے ملک میں جو لوگ غریب عوام اور مزدور طبقے کے حقوق کی لڑائی کے دوران حکومتوں کے بہیمانہ تشدد کی وجہ سے قتل ہوئے ان میں حسن ناصر شہید اور نذیر عباسی شہید سرفہرست ہیں۔
غریب طبقات کو جن معاشی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ نذیر عباسی کا بچپن بھی ان ہی مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے گزرا۔ نذیر عباسی پڑھنا چاہتا تھا لیکن پاکستان میں کالے پیلے اسکولوں میں بھی غریب اپنے بچوں کو تعلیم دلانے سے قاصر تھے۔ چنانچہ اپنے تعلیم حاصل کرنے کے شوق کو پورا کرنے کے لیے گیارہ بارہ برس کے نذیر عباسی نے ٹنڈوالٰہ یار کی بسوں میں بھنے ہوئے چنے بیچنا شروع کیے۔
اس کم عمری ہی میں نذیر عباسی کو طبقاتی معاشرے کی ظالمانہ تقسیم کا ادراک ہوگیا تھا۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن اسے پتا چلا کہ ایک غریب کے بچے کے لیے اس ملک خداداد میں اعلیٰ تعلیم کجا ابتدائی تعلیم حاصل کرنا بھی کس قدر مشکل ہے اس گیارہ بارہ سالہ بچے کو جس انسانوں کی طبقاتی تقسیم کا اندازہ ہوا تو وہ اس ظلم و استحصال کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں شامل ہوگیا۔
نذیر عباسی 1953 میں اندرون سندھ کے شہر ٹنڈوالٰہ یار میں پیدا ہوئے، اپنی انتھک محنت کے ساتھ انہوں نے ٹنڈوالٰہ یار سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ استحصالی معاشرے سے بغاوت اس نوجوان کا مقصد حیات بن گئی انہوں نے اپنی جد و جہد کا آغاز ون یونٹ کے خلاف آزاد مارواڑ اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے کیا۔
جب نذیر عباسی اس تحریک میں شمولیت کے جرم میں پہلی بار حیدر آباد سینٹرل جیل میں پہنچے تو جیل میں ان کی ملاقات ترقی پسند رہنماؤں سے ہوئی۔ جیل کے دوستوں کی رہنمائی انھیں سندھ نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن میں لے آئی۔ فیڈریشن میں ان کی اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے مرکزی مجلس عاملہ کا جنرل سیکریٹری بنادیا گیا، بچپن سے مشقت کرنے والے اس نوجوان کو اپنی گزر بسر کے لیے شام کے اوقات میں جنگی ناکے میں ملازمت کرنا پڑا۔ نذیر عباسی کی شادی معروف خاتون ترقی پسند کارکن حمیدہ گھانگرو سے ہوئی۔
نذیر عباسی پٹ چندر کے کسانوں کی جد وجہد میں بھی شامل رہے۔ حمیدہ گھانگرو بھی عوامی جد وجہد کے دوران گرفتار ہوئیں اور جیل میں تین ماہ تک قید رہیں۔ اسی دوران نذیر عباسی کو گرفتار کرکے کوئٹہ کے قلی کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ جہاں سے چھ ماہ بعد انھیں رہائی ملی۔ اس کے بعد انھیں 1980 میں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اور ماڑی پور انویسٹی گیشن میں ان پر اتنا تشدد کیا گیا کہ وہ 9 اگست 1980 میں حالت اسیری میں چل بسے۔ یہ دور ضیا الحق کا دور تھا۔
جنرل ایوب خان کے دور میں امریکا سوشلسٹ ملکوں اور سوشلزم کے پھیلاؤ اور مقبولیت کی وجہ سے سخت ہراساں تھا۔ سوشلزم کی پسماندہ ملکوں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کو روکنے کے لیے کولمبو پلان کے تحت پسماندہ ملکوں کو بھاری مالی امداد دینے کا سلسلہ شروع کیا چنانچہ ایوب حکومت کو بھی اسی پلان کے تحت بھاری امداد ملنے لگی اور کراچی میں تیزی سے صنعتی ترقی ہونے لگی۔
ایوب دور میں بایاں بازو بہت فعال تھا۔ امریکا کی ایما پر پاکستان میں ترقی پسند کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہوا جس کے دوران حسن ناصر کو بھی گرفتار کر لیا گیا اور لاہور کے قلعہ میں بہیمانہ تشدد کرکے انھیں قتل کر دیا گیا۔
پاکستان میں بائیں بازو کی جد وجہد میں ویسے تو بے شمار کارکنوں نے بڑی قربانیاں دیں لیکن وہ عموماً گمنام زندہ رہے اور گمنامی میں اس جہان فانی سے گزر گئے لیکن عوامی جد و جہد میں جن لوگوں نے جان کی قربانیاں دیں ان میں حسن ناصر اور نذیر عباسی شہید شہادت کا ستارہ بن گئے۔
اس ملک کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں حکومت خواہ فوجی آمروں کی رہی ہو یا جمہوری حکمرانوں کی، عوام کے حقوق کی جد وجہد کرنے والوں کے ساتھ ہمیشہ ظالمانہ سلوک روا رکھا گیا۔ میں حیران ہوں کہ بورژوا سیاسی پارٹیوں کے وہ رہنما جو اقتداری جھگڑوں میں مارے گئے وہ نہ صرف سب سے بڑے شہید کہلاتے ہیں، بلکہ ان کی برسیاں اور سالگریں قومی پیمانے پر منائی جاتی ہیں ان کے نام سے شہر بسائے جاتے ہیں۔
قومی اداروں کے نام رکھے جاتے ہیں، شاہراہوں، ایئرپورٹس، اسپتال، کالج یونیورسٹیاں ان کے شہزادوں، شہزادیوں کے نام پر رکھے جاتے ہیں اور جو مجاہد عوام کے حقوق کی لڑائی کے جرم میں عمر کا ایک بڑا حصہ جیلوں میں گزار دیتے ہیں اور ریاستی اداروں کے بہیمانہ تشدد سے شہید ہوجاتے ہیں نہ ان کی برسیاں سرکاری سطح پر منائی جاتی ہیں نہ ان کے نام سے قومی ادارے منسوب کیے جاتے ہیں، نہ ان کے نام سے کوئی شہر آباد ہوتا ہے نہ تعلیمی ادارے اور صحت کے ادارے منسوب کیے جاتے ہیں۔
حسن ناصر کا تعلق حیدر آباد دکن کے ایک جاگیردار گھرانے سے تھا۔ جاگیردار کا یہ بے چین سپوت جب پاکستان آیا تو اس کی ملاقات پاکستان کے ترقی پسند رہنماؤں سے ہوئی اور وہ بہت جلد ترقی پسند تحریک کی قیادت کا حصہ بن گئے وہ مزدوروں میں کام کرتے تھے، مزدور بستیوں میں رہتے تھے اور آخر کار مزدوروں کے حقوق کی جد وجہد میں ریاستی جبر کا شکار ہوگئے۔
حسن ناصر اور نذیر عباسی کی یاد میں لانڈھی کا نام حسن ناصر کے نام پر رکھا جانا چاہیے اور نذیر عباسی کی خدمات اور قربانیوں کے صلے میں سائٹ انڈسٹریل ایریا کو نذیر عباسی کے نام سے منسوب کیا جانا چاہیے۔
نذیر عباسی کے اس تعزیتی اجلاس میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی شریک تھی ان میں سے کچھ خواتین کھدر کی صنعت سے وابستہ تھیں۔ انھوں نے بتایاکہ ان کی فیکٹری میں کوئی یونین موجود نہیں جب کہ اس فیکٹری میں دو ہزار مزدور کام کرتے ہیں جن میں خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ لیکن کسی ورکر کو نہ یونین سازی کی اجازت ہے نہ کوئی یونین کی تشکیل کے لیے کام کرسکتا ہے انھیں تقرر نامے تک نہیں دیے جاتے جو ٹھیکیداری نظام میں ہوتا ہے۔
بتایا گیا کہ اس فیکٹری میں کام کرنے والے دو ہزار کارکنوں کو پینے کے لیے میٹھا پانی بھی نصیب نہیں، بورنگ کا کھارا پانی دیا جاتا ہے جو صحت کے لیے نقصان رساں ہوتا ہے اس حوالے سے کئی بار فیکٹری کی انتظامیہ کو یاد دہانی کرائی گئی لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
ترقی پسند تحریک ماضی میں ریاستی جبر کی وجہ سے عموماً انڈر گراؤنڈ کام کرتی تھی لیکن اب وقت اور حالات ویسے نہیں رہے جیسے ماضی میں ہوتے تھے۔ اب نہ صرف بلا تکلف، بلاخوف عوام میں کھلے عام سیاسی سرگرمیاں جاری رکھی جاسکتی ہیں بلکہ پارٹی پروگرام بھی عوام کے سامنے رکھا جاسکتا ہے۔
یہ بائیں بازو کے کام اور قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے انقلاب کی باتیں کر رہی ہیں ملک میں سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت کرپشن، بد عنوانیوں اور عوام کے مسائل کے حل میں ناکام رہی ہیں جس کی وجہ سے عوام کا اعتماد ان پارٹیوں اور ان کی قیادت سے اٹھ گیا ہے اور سیاسی زندگی میں ایک خلا پیدا ہوگیا ہے جسے بورژوا پارٹیاں پر نہیں کرسکتیں۔
اس خلا کو صرف ترقی پسند پارٹیاں پر کرسکتی ہیں لیکن تقسیم اور انتشار کی وجہ سے ترقی پسند پارٹیاں یہ ذمے داری پوری نہیں کر پا رہی ہیں۔ برادرم ظفر اسلم اور مشتاق علی شان جیسے مخلص کارکنوں کی وجہ سے سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے میں مدد مل رہی ہے ایسے محنتی اور با اخلاق کارکن ہی پارٹیوں کا سرمایہ ہوتے ہیں۔
بشکریہ: Express.pk