آؤ جی حج پر چلیں اور House in Order کریں
از، یاسر چٹھہ
یقین مانیے سپۂِ سالار اعلیٰ و اُولیٰ جناب جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کی نیت اچھی معلوم ہوتی ہے۔ عام طور پر یہی ریٹائرمنٹ کے آس پاس آنے کی نشانیاں ہوتی ہیں۔ بندہ اسلحۂِ کُل کی باتیں چھوڑ کر صُلحِ کُل والی عقل مت کی باتیں کرنا شروع ہو جاتا ہے۔
یاد ہے ناں میجر جنرل اطہر عباس بھی سیانی سیانی باتیں کرنے لگے تھے۔
بیچ کی بریکٹس میں دی گئی سلائیڈز کو ملٹی میڈیا پر دیکھ لیجیے، اس کے بعد حج پر جانے کی بات کرتے ہیں۔
(نہیں یاد؟ صبح کوشش کی تھی کہ میجر جنرل اطہر عباس کے اس وضو نامے کا کوئی لنک ڈھونڈ سکوں جس میں انھوں نے ماضی کی غلطیوں کو دفنانے کا ذکر کیا تھا۔ لیکن بار ہا کی کوششوں سے ویب سائٹس کے آن لائن ایڈیٹرز کی انٹرنل لنکنگ کی مردانہ و زنانہ کم زوریوں کے کارَن کہیں سے لنک حاصل نہ کر پایا۔)
(اسی طرح جناب جنرل اشفاق پرویز کیانی کا بھی وہ بیان کہ اب آب پارے کے جگر پارے دفتر میں سیاسی سَیل کا وجودِ باری (غیر) تعالیٰ نہیں رہا۔ جس کی غیر موجودگی کے ثبوت کے طور پر 2013 کے دھرنوں کا سارا اہتمام لندن پلان کے تحت دیارِ غیر سے کرنا پڑا تھا۔ کئی اللہ لوکوں کے برطانیہ کے ویزے، ہوٹلوں کی رہائش، روٹی پانی وغیرہ اور انٹر نیشنل فون کالز پر کس قدر زرِ مبادلہ ضائع ہوا تھا۔ اتنے سبق لینے کے بعد پھر پانامہ اور الیکشن کی ڈیوٹی کے لیے کرایے پر دفتر لینا پڑا تھا۔)
خیر… ماضی کو اب جو دفن کرنے کا موقع آ ہی گیا ہے تو پچھلے دفن شدہ ماضی کی قبریں صبح سویرے نُور پِیر ویلے کیوں ڈھونڈیں۔
اپنی یاد داشت اور ان یاد داشتوں کے پَنّوں مع پِکسلز جوڑ کر دیکھوں تو ایسا عام طور پر 899 چوہے کھانے کے بعد بلی حج کو جانے کی تیاریوں سے پہلے بھی کرتی ہو گی۔
(لیکن کہاں بلیوں کی باتیں اور کہاں جیو اکنامک معاملات… چپ رے نا ہنجار، کووِڈ-19 مارے مردُود!)
اچھا چپ رہتا ہوں…)
اب کیا کہیں ہم نحیف و نزار عام سے بندے؛ ہمیں وثوق سے تو کچھ معلوم ہونے سے رہا۔ نہ ہی کسی حضرتِ سلمانؑ جیسے پاک پیغمبرِ سے انسانوں کے شعور سے باہر کی زبانوں اور ابلاغ کی مہارت اور اُلُوہی عطاء کا دعویٰ، نہ ہی اندر کی کہانیوں کا علمِ با عمل!
تو عام زمینی فرد کو مدد ہو سکتی ہے تو یاد داشت کے پَنّوں اور ذہنی تصویری پِکسلز کی۔
تو مبارک ہو اب ہمیں نئے سپہ سالار ملنے کی امید لگنے لگی ہے۔ سپہ سالار نے کشمیر کی شہ رگ کو نہایت سادہ مگر پُر وقار طریقے سے ماضی سمجھ لینے کا اشارہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی نئی بائیڈن انتظامیہ کو یاد کرایا ہے:
“We’re very very cuute kids, jaast dooon’t bee tuff on us Sirrr!”
ساتھ ہی انھوں نے بین الاقوامی سٹریٹجِک پالیسی کے اداروں میں اپنی مستقبل کی خدمات کے لیے updated cv بھی پیش کر دیا ہے۔
پسِ تحریر: یہ ایک فقاہیہ تحریر ہے، لیکن اس پڑھنے کے دورانیے میں اپنے وطنِ عزیز کے نصیبوں پر رویا بھی جا سکتا ہے۔
پر ساتھ ہی راقم بتاتا چلے:
ابھے مودی تُو سن لے کہ اگر ہمارے سپۂِ سالار نے ماضی کو ایک بار پھر دفن کرنے کی بات کر ہی دی ہے تو اس بات کی ہٹ دھرمی چھوڑو کہ بھارتیہ دھرم میں ماضی کو دفنانے کی نہیں، چِتا جلانے کی بات کرو تو تب بات بنے… مودی اپنی نواز شریف سے یاری چھوڑو اور بندے کے پُتّر بنو…!
اب آپ افرادِ ملّی اور قومی یہ والا نیا قومی ترانہ سنیے اس کے لیے اب کی بار مودی کے یار تعاون نہیں کیا بل کہ اس بار اس کی دُھن بنائی ہے گائے سوپ تیار کرنے والے اور tweet is rejected مارکہ جھاگ دار شیمپو بنانے اداروں نے:
آرڈر، آرڈر، آرڈر
او، اوہ، اوہ، اوہ، آ آ، آ…
دُلھے کا آرڈر سہانا لگتا ہے
ہاؤس ان آرڈر پیارا لگتا ہے
نواز شریف کا تو دل پگلایا لگتا ہے…
آرڈر، آرڈر، آرڈر، آرڈر
Order, order, order House in order, house in order…
اس تحریر کو ہر چھوٹے بڑے کھوکھے والا کم عمر افراد کی پہنچ سے دور رکھے۔ محب وطن باشندے اس تحریر کو پڑھنے سے پہلے مُنھ سے نمک کی ڈَلی نکال لیں۔ اس کے با وجود طبیعت زیادہ خراب ہو جائے تو اے آر وائی یا کامران کلینک پر داخل کرائیں۔
شکریہ