آئیے کوئٹہ چلیں

Kishwar Naheed
کشور ناہید، لکھاری

آئیے کوئٹہ چلیں

از، کشور ناہید

کوئٹہ اور کابل میں بس ایک چیز کامن ہے۔ بڑے ہوٹل میں ٹھہرو تو واپسی پہ پیٹ پکڑ کر آؤ اور یوں مچھلی کا ذائقہ آپ کئی دن تک بھول نہیں سکتے ہیں۔ خیر یہ تو جملۂِ معترضہ تھا کہ مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات ورنہ کوئٹہ تو دوستوں کا دوست ہے۔

کوئٹہ میں سردار بہادر خان وِیمِن یونیورسٹی میں یوں تو بین الاقوامی دو روزہ خواتین کانفرنس تھی۔ البتہ معلوم نہیں پروفیسرز کی خواہش تھی کہ بچیوں کی۔ یہ بھی معلوم کر کے حیرانی ہوئی کہ یہ پانچویں کانفرنس ہے، لطف کی بات یہ تھی کہ ٹی وی اینکرز کو با قاعدگی سے ہر سال بلایا جا رہا تھا اور وہ بھی مرد حضرات۔

کہتے ہیں کہ فاصلے اس طرح دور ہوں گے کہ خواتین و حضرات میں مکالمہ ہو گا۔ مگر یہ تو کالج کے لیکچرز کا سا ماحول تھا۔ یہ کمال بات تھی کہ انتظام بہت اچھا، یونیورسٹی کی وائس چانسلر محترمہ رخسانہ کی شگفتہ شخصیت اور انتظامات کے باعث تھا۔ باقی پروفیسرز بھی چند لمحوں میں دوست بن گئیں کہ ہم سب کی سوچ ایک تھی اور وہ بھی یہ کہ خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے، سب سر بہ کف ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ چند سال پہلے یونیورسٹی کی بس میں خود کش بم بار نے گھس کر ایسی ظالمانہ حرکت کی کہ کئی بچیاں شہید ہو گئی تھیں۔

اس طرح کانفرنس کرنا مستحسن اقدام ہے مگر اس کو اگر یوں کہا جائے کہ وہ خواتین جو ہمارے پسماندہ علاقوں سے چراغوں کی طرح فروزاں ہوکر نکلی ہیں، وہ بتائیں کہ کیا پتھر نہ ان کی جانب اٹھائے گئے اور کس طرح یہ ہے کہ آج اس سال میں بلوچستان میں 8 اسسٹنٹ کمشنر نوجوان لڑکیاں مقرر کی گئی ہیں۔

اس کے علاوہ ہائی کورٹ کی چیف جسٹس بھی خاتون ہیں۔ ایک خاتون افسر نے کہا کہ مجھے کہیں اور بھیج دیں کہ یہاں کے لوگ بہت تنگ کر رہے ہیں۔ قبائلی لوگوں کے لیے، یقیناً عورت افسر کو بر داشت کرنا واقعی محال ہے، مگر مجھے یاد آ رہا ہے کہ آخر راحیلہ درانی نے بہ طور اسپیکر بڑے حوصلے کے ساتھ ساری کارِ روائی چلائی اور سرخ رُو رہی۔ تو آخر معاشرہ بدل رہا ہے کہ یونیورسٹی میں کئی ہزار بچیاں پڑھنے کے لیے آ رہی ہیں۔ وِیمِن یونیورسٹی کے کیمپَس بھی دوسرے شہروں میں بنائے گئے ہیں کہ لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم اور رہائش کا بند و بست بھی ہو۔

وِیمِن یونیورسٹی سے لے کر ایئر پورٹ تک دو رویہ سڑک تک نہیں بنی ہوئی۔ ٹرک، رکشہ اور گدھا گاڑیاں خوب ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے چلتے ہیں۔ گرد کیا اڑتی ہے، وہ تو گزشتہ حکومت کی کار کردگی کا آئینہ بنی ہوئی ہے۔ آج کی حکومت کا یہی جواب ہو گا۔ کب تک ایسا جواب چلے گا۔


مزید دیکھیے:  واشک سے لاہور تک کا سفر  از، اظہار حمید بلوچ


کوئٹہ آؤ اور اپنے شاعر دوستوں سے ملاقات نہ ہو یہ تو ممکن نہیں۔ چوں کہ کوئٹہ میں آج کل بھی سات گھنٹے بجلی بند ہوتی ہے، اس لیے غنیمت جانا کہ میں ان معزز شُعَراء کو اپنے کمرے میں ہی بلا لوں۔ ان کی عنایت کہ وہ اس بلاوے پہ چلے آئے اور پھر شام سے رات، شعر سننے سنانے میں اتنی پُر لطف رہی کہ میرے سر کا درد بھی غائب ہو گیا تھا۔

یوں تو پچھلے دنوں چیف منسٹر بلوچستان نے زیارت میں ایک میلے کے دوران کہا کہ ہر شہر میں میلے کیے جائیں گے۔ مگر ہمیں ملاکھڑا نہیں مکالمہ چاہیے۔ نو جوانوں کے دلوں میں جو سوالات ہوں، ان کا جواب دیا جائے۔

ذیشان بگٹی جیسے نو جوان سامنے آئیں اور نو جوانوں کے سوالوں کے جوابات دیں کہ فی الوقت، ڈاکٹر مالک اور بزنجو انقلاب چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے ہیں۔

کوئٹہ میں کام کرنے والے بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے سربراہ جسٹس کوملی اس طرح کام کر رہے ہیں کہ ممتحن بھی خود، منصف بھی خود اور اس عمر میں رات گئے تک، نو جوان نسل خاص کر خواتین ڈاکٹرز، پروفیشنلز، وکلاء، ایڈمنسٹریشن میں سامنے لا رہے ہیں۔ میں نے ایک شکایت کی کہ پنجاب بار ایسوسی ایشن جو کہ عاصمہ جہانگیر کی صدارت میں جرأت مند تھی، انہوں نے 2018ء میں لکھا ہے ’’جس قوم نے عورت کو عزت دی اور ضرورت سے زیادہ آزادی دی، وہ کبھی نہ کبھی اپنی غلطی پر پشیمان ہوئی۔‘‘

کرد صاحب سے لے کر کوہلی صاحب تک، یہ جملہ پڑھ کر، نہ صرف افسوس کرنے لگے بَل کہ اس کے خلاف بیان دینے کی بات بھی کی۔ یہ فقرہ زمانۂِ قدیم میں نہیں، 6 اکتوبر 2018ء کو لکھا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی سربراہ شیریں مزاری اور وکیل حضرات جس میں خواتین بھی شامل ہوں، اس کے خلاف نہ صرف بیان دیں بَل کہ ایسی ذہنیت کی مذمت بھی کریں۔

اس وقت ہمارے چیف جسٹس ہر موضوع پر بول رہے ہیں، آخر پنجاب بار کونسل کے اس فقرے کو انہوں نے نظر انداز کیسے کر دیا۔ وہ تو معاشرے کے ہر طبقے کو با شعور کرنے کا عزم لیے ہوئے ہیں۔ اگر وکیل ہی رَجعَت پسند ہوں گے تو انصاف کسے اور کیسے ملے گا۔ پہلے بھی کسی جج نے کہا تھا کہ آپ لوگ یعنی خواتین وکیل بن ٹھن کر آئیں گی تو پھر آنکھیں تو آپ کی جانب اٹھیں گی۔ پتا نہیں کس جج کے چشمے کا نمبر کمزور تھا، ورنہ تمام وُکَلاء خواتین سفید کپڑے اور کالا کوٹ پہنے ہوتی ہیں شاید دیکھنے والی نظروں میں حجاب نہیں رہا۔

کوئٹہ کے اس بڑے ہوٹل میں، ہمیشہ ورلڈ ایجنسیز کے نمایندے بیٹھے اور پیٹ بھر کر ناشتہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بلوچستان حکومت انہیں بلا کر بتائے کہ یہ اپنے فنڈز کہاں اور کیسے خرچ کریں کہ مجھے تو 50برس ہو گئے ہیں، ان اداروں کو آتے جاتے دیکھتے، بڑے ہوٹلوں اور بڑی فور وہیل گاڑیوں میں سفر کرتے دیکھتے۔

بلوچستان میں خاک اڑ رہی ہے، کوئٹہ کیا پورے علاقے میں سوکھا پڑا ہے۔ ایک زمانے میں بلوچستان کی مٹی کی سوکھی پہاڑیوں پر ہیلی کاپٹرز سے بیج گرائے گئے اور پھر ہیلی کاپٹرز ہی سے پانی بھی چھڑکایا گیا تھا۔ شمالی علاقہ جات میں پہاڑوں کی زمین کے قریب حصوں میں لوگ فصلیں اگاتے اور گھر کے لیے اناج پیدا کرتے ہیں۔ یہ سوکھا جو تھرپارکر سے بلوچستان تک پھیلا ہے۔ اس کا علاج یہ فنڈنگ ایجنسیوں اور بڑی بڑی تنخواہوں والے نہیں کر سکتے۔ اپنی حکومت میں ایک تو خواتین کو شامل کریں اور مضبوط بنائیں۔ پھر دیکھیں یہ فنڈ کیسے ترقی کا سبب بنیں گے۔

بشکریہ روز نامہ جنگ