مختار مسعود کے نام ایک خط
(فیضان امجد)
جناب مختار مسعود کی خدمت میں اس وزیر پُر تقصیر کا
سلام پہنچے۔اپریل کے وسط میں ایک ویب سائٹ پر آپ کے انتقال کی خبر دیکھ کر چھوٹے بھائی نے پوچھا: ”یہ مختار مسعود کون ہیں؟“اس سوال پر ہمارا حال ”کوئی بتلاو¿ کہ ہم بتلائیں کیا؟“والا تھا۔ فوراً اپنی وزارت کے ترجمان کو فون کیاتو وہ بولا: ”ریٹائرڈ بیوروکریٹ تھے، کمال کی نثر لکھتے تھے،چندکتابیں شائع ہوچکی ہیں اور آپ کی طرف سے تعزیتی بیان بھی اخبار میں چھپ چکا ہے“۔میں آپ کی ذات وصفات کے بارے میں اپنی اس لا علمی پر اتنا ہی شرمندہ ہوں جتناآج کل کوئی سیاستدان احتسابی ادارے کے سامنے ہوتا ہے۔ایک علمی وادبی شخصیت کے اس دنیا سے چلے جانے پر (اخباری بیان کے مطابق )جو دکھ صدر،وزیر اعظم کو ہوا،میری کیفیت بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔خدا اپنے پیاروں کو کتنی جلدی دنیا سے لے جاتا ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ” خوشبوو¿ں کے نگر میں“ اورنج ٹرین چلتی دیکھ لیتے۔لیکن خیر”بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے“۔
دادا جی اور بعدازاں ابا جی سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعدگھر بیٹھ گئے اورمجھے ولایت سے بلا کر الیکشن میں کھڑا کردیا۔ بھاری اکثریت سے ووٹ لے کر میں اسمبلی پہنچاتو مجھے وزیر بنا دیاگیا تاکہ ہماری جماعت میں نوجوانوں کو آگے بڑھنے کا موقع نہ دینے کا تاثر ختم ہوجائے( آپس کی بات ہے کہ میںسیاست میں اب اپنے والد سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ چکا ہوں)۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میرا اس طرف آنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا بلکہ یہ سب کچھ اتفاق سے ہوا(میری مراد اتفاق فونڈری نہیں)۔ جب سے میں نے وزارت کا قلمدان سنبھالا ہے،بزرگوں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے قلمکاروں اور صحافیوں سے بنا کر رکھتا ہوں۔کسی صحافی کو ایوارڈ دیتے ہوئے کہہ دیتا ہوں: ” ملک کےلئے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی “تو کسی ادیب کی وفات پر ” یہ خلا کبھی پُر نہیں ہو گا“جیسا کوئی جملہ بو ل دیتا ہوںچونکہ ادب میں آپ کا نام اور مقام بہت اونچا ہے تو آپ کو بہ نفسِ نفیس(اپنے دفتری معاون نفیس کی مددسے) یہ خط لکھ رہا ہوں۔
مکرمی!آپ کی وفات کی خبر کوذرائع ابلاغ خصوصاً ٹی وی چینلز پرمناسب جگہ نہ ملنے پرمجھ سمیت جملہ اہل دانش کو بہت رنج ہے۔آپ کا قابل ہونا اپنی جگہ، لیکن خدا لگتی کہوں تو اس ملک کی کئی ماڈل اور اداکارائیں آپ سے زیادہ مقبول ہیں۔ اگران میں سے کوئی اپنا وزن چار کلو کم کرلے،سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ان کے پرستاروں کی تعداد میں اضافہ ہویا کسی صحافی کو ان کے جوتوں کپڑوں کے اصل نرخ کسی طرح ”معلوم پڑ جائیں“ تو ان ”غیر معمولی واقعات“کو میڈیا حسب معمول بھرپور کوریج دیتاہے۔حضور! آپ کا عہدکتاب کا دورہوگا،اب تو شباب کا دوردورا ہے۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ترجیحات بدلنے کا اندازہ آپ اس سے لگالیجئے کہ جب ہمارے قائد پچھلی مرتبہ وزیر اعظم تھے تو ملک میں ایٹم بم بن رہے تھے،جب کہ آج کل ”آئٹم سونگ“بن رہے ہیں۔
سنا ہے کہ آپ کی نمازِ جنازہ میںگنتی کے لوگ شریک تھے، کوئی حکومتی شخصیت موجود نہیں تھی۔اب اگر ایک بندہ تین دہائیاں پہلے ریٹائرڈہو،اس کے بعد کسی ادارے کا سربراہ لگنے کےلئے کوئی تگ و دوکرنے کی بجائے خلوت نشین ہوجائے، نمود و نمائش سے گریز کرے توپھر لوگ کہاں یاد رکھتے ہیں؟دین داری اپنی جگہ درست، مگر دنیا داری بھی کوئی چیز ہے صاحب۔ آپ اپنا قلم حکومت کےلئے وقف کرتے،اپنی نثر اس پر نثار کرتے تو آج کہیں آپ بھی مشیر ہوتے یا کم ازکم کسی ادبی،ثقافتی ادارے میں بیٹھ کر ”خواہشوں کو خوبصورت شکل“دے رہے ہوتے۔یہ اپنی جگہ باعث تشویش ہے کہ کسی ادبی تنظیم یا ادارے کی طرف سے آپ کی یاد میں تعزیتی ریفرنس یا تقریب کا انعقاد نہیں ہوا۔اس بے اعتنائی کی وجہ آپ ہی جانیں! مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ کی زندگی میں بھی ایسا اہتمام کم ہی ہوا ہے ورنہ ہمارے ملک میں تو کئی شاعر ادیب ایسے ہیں جن کے اعزاز میں ہر مہینے کہیں نہ کہیں شامیں منائی جاتی ہے( کبھی تو راتیں بھی منالی جاتی ہیں)۔
آپ کی وفات کے بعد چھپنے والی چند اخباری تحریروں سے مجھے آپ کے بارے میں جانکاری ہوئی۔ ایک جگہ لکھاتھا کہ آپ اردو ادب میں بڑے پائے کے آدمی تھے۔ہمارے وزیر اعظم بھی بڑے پائے کے شوقین ہیں۔میرا اشتیاق بڑھا تو آپ کی کتاب”آوازِ دوست“منگوالی۔ لا جواب اسلوب ہے،آپ کے کچھ جملے پڑھ کر مجھے سمجھ تو نہیں آئی لیکن مزہ بہت آیا۔ یہ آپ نے بالکل صحیح بات کہی: ”عہدے کو عہدِ وفا کا لحاظ بھی تو لازم ہے“۔ جب سے اعلیٰ قیادت نے مجھے یہ عہدہ دیا ہے،میں نے ہرحد تک جا کر وفا کے تقاضے نبھائے ہیں۔اب آپ کو کیا بتاو¿ں،کیا چھپاو¿ں؟
آوازِ دوست کا جو پہلا مضمون ہے: ”مینارِ پاکستان“۔ یہ موضوع اب اتنا پرانا ہوچکا کہ کسی کو یہ بھی یاد نہیں آپ نے اس کی مجلس تعمیر کی صدارت کی تھی۔ عصرِ حاضر میں آپ کوچاہیے تھا کہ میٹرو بس کے کوتاہ قامت ستونو ں کا ذکر کرتے۔اس سے آپ کا نام سرکاری حلقوںاور سیاسی ”ہلکوں“ میں روشن تو ہوتا ہی، مورخین بھی میٹروکے ذکر کے ساتھ آپ کا حوالہ دیتے۔ دوسرا مضمون ”قحط الرجال “ ہے، اس لفظ کا مطلب ایک افسر نے مجھے ”بندوں کی کمی“بتایا۔ لگتا ہے آپ آخری عمر میں ٹی وی نہیں دیکھتے رہے،ورنہ سکرین پرہماری جماعت کے جلسوں میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دیکھ کر آپ کو اب یہ شکایت نہ ہوتی۔ آپ نے قائد اعظم سمیت کئی بڑی شخصیات سے آٹو گراف بھی لئے ہیںلیکن میرے بزرگوںنے آپ کوآٹو گراف دینے کا کبھی ذکر نہیں کیا۔یاد آیا کہ میرے انتخابی حلقے کے کئی لوگ مجھ سے روزانہ آٹو گراف لے کر جاتے ہیں،پھر تھانے، کچہری اور دیگر سرکاری اداروں میں دکھاکر اپنے کام نکلواتے ہیں۔
بات موٹر وے کی طرح طویل ہوتی جارہی ہے۔ آخر میں آپ سے گزارش ہے کہ اگر عالم برزخ میںکہیں آپ کی ملاقات قائد اعظم سے ہوجائے توانہیں ہمارے قائدین اور حکومت کے بارے میں اچھی رائے دیجئے گا۔ خدا را کسی کیس کا ذکر کرکے ان کے دل کو ٹھیس نہ پہنچانا۔ آپ یہاں پاکستان خط بھیجنے کی زحمت نہ کیجیے گاکیونکہ آج کل تو یہاں قطر ی شہزادوں کے خط بھی مسترد ہورہے ہیں۔اللہ آپ کےلئے اوپر اور ہمارے لئے نیچے آسانیاں پیدا کرے۔ آپ کی شایانِ شان پذیرائی نہ ہونے کا مجھے ذاتی طور پر بہت دکھ ہے۔ ہمارے وزیراعلیٰ کوئی نئی سڑک بناتے ہیں تواِسے آپ کے نام کرنے کی تجویز دوں گا۔
فی الوقت نادم، آپ کا خادم
دادا جی اور بعدازاں ابا جی سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعدگھر بیٹھ گئے اورمجھے ولایت سے بلا کر الیکشن میں کھڑا کردیا۔ بھاری اکثریت سے ووٹ لے کر میں اسمبلی پہنچاتو مجھے وزیر بنا دیاگیا تاکہ ہماری جماعت میں نوجوانوں کو آگے بڑھنے کا موقع نہ دینے کا تاثر ختم ہوجائے( آپس کی بات ہے کہ میںسیاست میں اب اپنے والد سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ چکا ہوں)۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میرا اس طرف آنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا بلکہ یہ سب کچھ اتفاق سے ہوا(میری مراد اتفاق فونڈری نہیں)۔ جب سے میں نے وزارت کا قلمدان سنبھالا ہے،بزرگوں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے قلمکاروں اور صحافیوں سے بنا کر رکھتا ہوں۔کسی صحافی کو ایوارڈ دیتے ہوئے کہہ دیتا ہوں: ” ملک کےلئے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی “تو کسی ادیب کی وفات پر ” یہ خلا کبھی پُر نہیں ہو گا“جیسا کوئی جملہ بو ل دیتا ہوںچونکہ ادب میں آپ کا نام اور مقام بہت اونچا ہے تو آپ کو بہ نفسِ نفیس(اپنے دفتری معاون نفیس کی مددسے) یہ خط لکھ رہا ہوں۔
مکرمی!آپ کی وفات کی خبر کوذرائع ابلاغ خصوصاً ٹی وی چینلز پرمناسب جگہ نہ ملنے پرمجھ سمیت جملہ اہل دانش کو بہت رنج ہے۔آپ کا قابل ہونا اپنی جگہ، لیکن خدا لگتی کہوں تو اس ملک کی کئی ماڈل اور اداکارائیں آپ سے زیادہ مقبول ہیں۔ اگران میں سے کوئی اپنا وزن چار کلو کم کرلے،سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ان کے پرستاروں کی تعداد میں اضافہ ہویا کسی صحافی کو ان کے جوتوں کپڑوں کے اصل نرخ کسی طرح ”معلوم پڑ جائیں“ تو ان ”غیر معمولی واقعات“کو میڈیا حسب معمول بھرپور کوریج دیتاہے۔حضور! آپ کا عہدکتاب کا دورہوگا،اب تو شباب کا دوردورا ہے۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ترجیحات بدلنے کا اندازہ آپ اس سے لگالیجئے کہ جب ہمارے قائد پچھلی مرتبہ وزیر اعظم تھے تو ملک میں ایٹم بم بن رہے تھے،جب کہ آج کل ”آئٹم سونگ“بن رہے ہیں۔
سنا ہے کہ آپ کی نمازِ جنازہ میںگنتی کے لوگ شریک تھے، کوئی حکومتی شخصیت موجود نہیں تھی۔اب اگر ایک بندہ تین دہائیاں پہلے ریٹائرڈہو،اس کے بعد کسی ادارے کا سربراہ لگنے کےلئے کوئی تگ و دوکرنے کی بجائے خلوت نشین ہوجائے، نمود و نمائش سے گریز کرے توپھر لوگ کہاں یاد رکھتے ہیں؟دین داری اپنی جگہ درست، مگر دنیا داری بھی کوئی چیز ہے صاحب۔ آپ اپنا قلم حکومت کےلئے وقف کرتے،اپنی نثر اس پر نثار کرتے تو آج کہیں آپ بھی مشیر ہوتے یا کم ازکم کسی ادبی،ثقافتی ادارے میں بیٹھ کر ”خواہشوں کو خوبصورت شکل“دے رہے ہوتے۔یہ اپنی جگہ باعث تشویش ہے کہ کسی ادبی تنظیم یا ادارے کی طرف سے آپ کی یاد میں تعزیتی ریفرنس یا تقریب کا انعقاد نہیں ہوا۔اس بے اعتنائی کی وجہ آپ ہی جانیں! مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ کی زندگی میں بھی ایسا اہتمام کم ہی ہوا ہے ورنہ ہمارے ملک میں تو کئی شاعر ادیب ایسے ہیں جن کے اعزاز میں ہر مہینے کہیں نہ کہیں شامیں منائی جاتی ہے( کبھی تو راتیں بھی منالی جاتی ہیں)۔
آپ کی وفات کے بعد چھپنے والی چند اخباری تحریروں سے مجھے آپ کے بارے میں جانکاری ہوئی۔ ایک جگہ لکھاتھا کہ آپ اردو ادب میں بڑے پائے کے آدمی تھے۔ہمارے وزیر اعظم بھی بڑے پائے کے شوقین ہیں۔میرا اشتیاق بڑھا تو آپ کی کتاب”آوازِ دوست“منگوالی۔ لا جواب اسلوب ہے،آپ کے کچھ جملے پڑھ کر مجھے سمجھ تو نہیں آئی لیکن مزہ بہت آیا۔ یہ آپ نے بالکل صحیح بات کہی: ”عہدے کو عہدِ وفا کا لحاظ بھی تو لازم ہے“۔ جب سے اعلیٰ قیادت نے مجھے یہ عہدہ دیا ہے،میں نے ہرحد تک جا کر وفا کے تقاضے نبھائے ہیں۔اب آپ کو کیا بتاو¿ں،کیا چھپاو¿ں؟
آوازِ دوست کا جو پہلا مضمون ہے: ”مینارِ پاکستان“۔ یہ موضوع اب اتنا پرانا ہوچکا کہ کسی کو یہ بھی یاد نہیں آپ نے اس کی مجلس تعمیر کی صدارت کی تھی۔ عصرِ حاضر میں آپ کوچاہیے تھا کہ میٹرو بس کے کوتاہ قامت ستونو ں کا ذکر کرتے۔اس سے آپ کا نام سرکاری حلقوںاور سیاسی ”ہلکوں“ میں روشن تو ہوتا ہی، مورخین بھی میٹروکے ذکر کے ساتھ آپ کا حوالہ دیتے۔ دوسرا مضمون ”قحط الرجال “ ہے، اس لفظ کا مطلب ایک افسر نے مجھے ”بندوں کی کمی“بتایا۔ لگتا ہے آپ آخری عمر میں ٹی وی نہیں دیکھتے رہے،ورنہ سکرین پرہماری جماعت کے جلسوں میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دیکھ کر آپ کو اب یہ شکایت نہ ہوتی۔ آپ نے قائد اعظم سمیت کئی بڑی شخصیات سے آٹو گراف بھی لئے ہیںلیکن میرے بزرگوںنے آپ کوآٹو گراف دینے کا کبھی ذکر نہیں کیا۔یاد آیا کہ میرے انتخابی حلقے کے کئی لوگ مجھ سے روزانہ آٹو گراف لے کر جاتے ہیں،پھر تھانے، کچہری اور دیگر سرکاری اداروں میں دکھاکر اپنے کام نکلواتے ہیں۔
بات موٹر وے کی طرح طویل ہوتی جارہی ہے۔ آخر میں آپ سے گزارش ہے کہ اگر عالم برزخ میںکہیں آپ کی ملاقات قائد اعظم سے ہوجائے توانہیں ہمارے قائدین اور حکومت کے بارے میں اچھی رائے دیجئے گا۔ خدا را کسی کیس کا ذکر کرکے ان کے دل کو ٹھیس نہ پہنچانا۔ آپ یہاں پاکستان خط بھیجنے کی زحمت نہ کیجیے گاکیونکہ آج کل تو یہاں قطر ی شہزادوں کے خط بھی مسترد ہورہے ہیں۔اللہ آپ کےلئے اوپر اور ہمارے لئے نیچے آسانیاں پیدا کرے۔ آپ کی شایانِ شان پذیرائی نہ ہونے کا مجھے ذاتی طور پر بہت دکھ ہے۔ ہمارے وزیراعلیٰ کوئی نئی سڑک بناتے ہیں تواِسے آپ کے نام کرنے کی تجویز دوں گا۔
فی الوقت نادم، آپ کا خادم