ہم جنس پرستی اور ہندوستانی سماج میں پھیلتی دراڑیں
از، حسین جاوید افروز
انسان بنیادی طور پر سماجی حیوان ہے۔ وہ اکیلا اپنی تمام تر معاشی، سماجی، مادی ضروریات پوری کرنے سے یک سَر قاصر رہا ہے۔ اپنی بقاء کے لیے اس نے پتھر کے دور سے لے کر اب تک جد و جہد بھرا سفر طے کیا ہے۔ اسی لیے اسے دوسرے انسانوں کے ساتھ میل جول رکھنے کی ضرورت پیش آئی اور اسی ضرورت نے معاشرے اور ریاست کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔
یوں ہم نے دیکھا کہ کیسے انسان نے کنبے سے اپنا سفر شروع کیا اور اور اس پہلی سماجی اکائی کے بعد اس کا یہ سفر ایک خاندان سے بے شمار خاندانوں، دیہاتوں شہروں اور ممالک تک پھیلتا گیا۔
ایسا نہیں ہے کہ انسان شروع سے ہی مہذب رہا ہے بَل کہ اس نے یہ سفر ارتقائی انداز میں بسر کیا اور طوائف الملوکی، جنگل راج کے لمبے دور کے بعد اسے تنظیم کی ضرورت محسوس ہونا شروع ہوئی اور یوں اس نے اپنے تحفظ کی خاطر رسم و رواج، قوانین اور ضابطے تشکیل دیے۔ صدیوں سے دنیا کے ہر خطے میں بنی نوع انسان انہی ضوابط کی پیروی کرتا آیا ہے اور اس سے سماج کے دھارے کو فطری طور پر چلانے میں خاطر خواہ مدد بھی ملی ہے اور یوں انسانی معاشرہ اپنی ارتقائی منازل طے کرتا رہا ہے۔
مگر ہر عہد میں سماج میں ایسے عناصر بھی موجود رہے جن کے رہنے سہنے کے انداز سماج کے غالب حصے سے یک سَر مختلف رہے۔ اسی لیے ان کو سماج میں کبھی بھی قبولیتِ عام نہیں مل سکی اور آج بھی یہ انسانی معاشرے کے قدرتی دھاروں اور مُرَوّجہ اصولوں کو چیلنج کرتے رہے ہیں۔ جی ہاں آج ہمارا موضوع LGBT طبقہ ہے۔
چھ ستمبر کو انڈین سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا جس کی رُو سے اب ہندوستان میں LGBT طبقہ شادی کیے بغیر آپس میں جنسی مراسم قائم رکھ سکتا ہے اور اسے اس عمل کی مکمل قانونی آزادی میسر ہے۔ اپنے اس متنازعہ فیصلے میں اعلیٰ عدلیہ نے لکھا ہے کہ دو بالغ افراد اپنی مرضی سے جنسی تعلق قائم رکھ سکتے ہیں اور یہ فعل اب کوئی جرم نہیں ہے۔ سماج کو ہر تعصب سے پاک ہونا چاہیے اور ہمیں ہر بادل میں قوس و قزح کو کھوجنا چاہیے۔ اپنی مرضی کے ساتھ زندگی بسر کرنا LGBT طبقے کا حق ہے اور اسے ایسا کرنے سے روکنا دستور کی خلاف ورزی کے مترادف ہو گا۔
اعلیٰ عدلیہ کے مطابق 158 سال پرانے قانون میں سدھار بہت ضروری ہے جس کی روح سے سماج میں LGBT کمیونٹی جنسی مراسم قائم نہیں رکھ سکتی تھی، بَل کہ اسے جرم مانا گیا تھا جس کی سزا دس سال قید تھی۔ یاد رہے LGBT کے مخصوص جھنڈے کا رنگ بھی قوسِ قزح کے رنگوں سے مزین ہوتا ہے۔ یہاں یہ بیان کرنا اہم ہے کہ دستور کی شق کو پہلی بار 1994 میں چیلنج کیا گیا اور 24 برسوں کی بحث کے بعد اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے یہ فیصلہ سامنے آیا ہے۔
اس فیصلے کے بعد LGBT نے کورٹ کے باہر خوشیاں منائیں اور اسے جمہوریت اور انسانی حقوق کی عظیم فتح قرار دیا۔ وہ اس پر بہت شاداں دکھائی دے رہے تھے کہ 1861 سے موجود کالا قانون اب اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔
اس فیصلے کے بھارتی سماج پر نہایت ہی مہیب اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کیوں کہ ہم ایک ایسے سماج کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں جو کہ ایک کثیر القومی سماج کے طور پر جانا جاتا ہے جہاں ہر سو دو سو کلو میٹر کے بعد جغرافیہ اور زبانیں بدل جاتی ہیں اور جو کہ اپنی تہذیبی رنگا رنگی کے سبب ایک پہچان رکھتا ہے۔ اس فیصلے پر مودی حکومت نے چپ سادھی ہوئی ہے اور اس کی طرف سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
تاہم سینئر کانگرسی رہنماء، نامور محقق اور دانش ور ششی تھرور ایسی واحد سیاسی شخصیت ہیں جنہوں نے پُر زور الفاظ میں اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ ششی کے مطابق ’’اس فیصلے سے اعلیٰ عدلیہ نے LGBT کی ذاتیات اور مساوات کا تحفظ کیا ہے اور اسے بلا شبہ ایک نئے دور کا آغاز قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک پرانے وکٹورین عہد کے ظالمانہ قسم کے قانون سے آزادی حاصل کرنا باعثِ طمانیت ہے۔ میری کوشش ہے کہ اپنی ریاست کیرالا میں بھی ایسے ہی اقدامات اٹھانے کو یقینی بناؤں۔ لیکن LGBT کو ابھی آرام سے بیٹھنا نہیں ہے بَل کہ اسے اب اپنی اگلی منزل same sex marriage کو یقینی بنانا ہو گا۔‘‘
بولی وڈ کمیونٹی نے بھی ایک بڑی تعداد میں اس فیصلے کو سراہا ہے۔ بقول سونم کپور اس فیصلے سے مجھے اپنے ہندوستانی ہونے پر فخر ہے۔ میں ایسے ہی بھارت میں رہنا چاہتی ہوں۔ فلم ڈائریکٹر سدھیر مشرا نے اسے بہت بڑی جیت قرار دیا۔ جب کہ کرن جوہر نے اس فیصلے کو ایک تاریخی اقدام سے تعبیر کیا ہے۔ ارجن کپور کے مطابق شکر ہے کہ اب ہمارے ہاں بھی ہوش مندی سے فیصلے لیے جا رہے ہیں۔ جب کہ اداکار راہول بوس نے بھی اسے اندھیرے میں روشنی کی کرن قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں پریتی زنٹا، ورون دھون، تنو شری دتا اور رونت رائے نے بھی اس فیصلے کو آزادی، مساوات سے لبریز ایک فیصلہ قرار دیا ہے۔
یہاں یہ امر دل چسپی سے خالی نہیں کہ شاید پہلی بار کسی سماجی مسئلے پر سنگھ پریوار اور کٹر مسلم حلقے ایک صفحے پر دکھائی دیتے ہیں جیسے نامور دانش ور سوامی سبرا منیم کے مطابق ایسے فیصلوں سے ملک کی سیکورٹی کو خطرات لا حق ہو سکتے ہیں۔ یہ آزادی نہیں بَل کہ جینیاتی اغلاط کا نتیجہ ہے کہ ہم یہ دن دیکھ رہے ہیں۔ اب یہاں لگتا ہے کہ Gay bars کھلنے کی کسر رہ گئی ہے۔ یہ معاملہ کہاں جا کر رکے گا؟ ہم چاہتے ہیں کہ LGBT کمیونٹی کو روز گار ملے مگر اس فیصلے کے بعد کھلم کھلا خوشیاں منانا یہ درست نہیں۔ ایسے اقدامات ہندو توا کی روح کے منافی ہیں۔
sexual orientation کا مسئلہ میڈیکل ریسرچ کے تحت ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ بابا رام دیو کے مطابق معاملہ آزادی کا نہیں ہے بَل کہ بیماری کا ہے جس کے خلاف ہمیں لڑنا ہو گا۔ منو سمرتی کے باب گیارہ کو پڑھ لیں جہاں اسے برا فعل کہا گیا ہے اور سزا کے طور پر دو انگلیاں کاٹنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جب کہ مسلم عُلَماء کرام نے بھی کھل کر اس فیصلے کو لتاڑا اور اسے غیر قدرتی اور غیر فطری فعل قرار دیا۔ ان کے مطابق LGBT کا اس فیصلے کے بعد جشن منانا دماغی خلل کی نشان دہی کرتا ہے۔
متعلقہ: کیا ہم جنس پرستی کی ذہنیت موروثی ہے؟ از، محمد رضی الاسلام ندوی
یونان کی شاعرہ سیفو اور جنس بازی از، پروفیسر ڈاکٹرسعید احمد
اسلام میں ایسے مکروہ فعل کی سزا موت مقرر کی گئی ہے۔ آج بھی قومِ لُوط کی تاریخ پڑھ لیں جو کہ فطرت کے اصولوں کو چیلنج کرنے اور بے راہ روی کی بدولت عذابِ الٰہی کی حق دار ٹھہری۔ ایسے قبیح اقدامات انڈین سماج کی بنیادوں کو خاکستر کر دیں گے۔
قرآن پاک میں سورہِ اعراف میں کھل کر ایسی بد فعلیوں کو گناہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جب کہ سعودیہ، یمن اور ایران میں تو ایسے مکروہ عمل کی انجام دہی پر سخت سزائیں مقرر کی گئیں ہیں۔
بائبل میں بھی ہم جنس پرستی کی سزا موت سے کم نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہندوستانی سماج، مغربیت کے ہاتھوں کیوں یر غمال بنتا جا رہا ہے؟ اس سے قبل دلی، بنگلور، ممبئی اور کولکتہ میں کھلے ڈانس بار بھی معاشرے میں اخلاقی بے راہ روی کو فروغ دے رہے تھے۔ جس سے انڈین یوتھ تیزی سے ڈرگز اور ریپ کی طرف مائل ہو رہی تھی۔ اب کیا ہم یہ سنیں گے کہ ہندوستان کے طول و عرض میں ایسے کیفے کھل رہے ہیں جہاں صرف ہم جنس پرست ہی داخل ہو سکیں گے؟ گویا ہزاروں سال کی تہذیبی شناخت سے لبریز گنگا ویلی کی تہذیب اب مغربی یلغار کے نشانے پر ہے۔
یقینی طور شخصی آزادی، ضمیر کی آزادی، معاشی و سماجی آزادیوں کا حصول اولادِ آدم کا بنیادی حق متصور ہوتا ہے۔ مگر ایسی آزادی جو مساوات اور ذاتی زندگی کی آزادی کے نام پر انسانی رشتوں کو کھوکھلا کردے اور مذہب، اخلاقیات، شادی، اولاد، اور ازدواجی تصور زندگی کو یک سَر مسترد کر دے اس کو ہر گز ہر گز پنپنے کی آزادی نہیں دینی چاہیے۔
ہم جنس پرست تو ویسے بھی انسانی رشتوں کو تسلیم نہیں کرتے وہ بھلا شادی بیاہ کے جھنجھٹ میں کیوں پڑیں گے؟ وہ اپنے غیر فطری مَیلان کی تسکین کے لیے کیوں نکاح کرنے یا اگنی کے گرد سات پھیرے لے کر خود کو مجرم بناتے پھریں؟
بھارتی اہلِ دانش کو سمجھنا ہو گا کہ اس کالے عدالتی فیصلے سے کسی ایک طبقے کا خوف دور نہیں ہوا بَل کہ مستقبل کے لیے بھی سماج کو ایک نہ ختم ہونے والے خوف میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ کیا یہ نارمل زندگی کی جانب ایک قدم ہے؟ کیا اس ایک فیصلے نے بھارت کی آئندہ نسلوں کے مستقبل کو خطرے میں نہیں جھونک دیا ہے؟ نہیں صاحب ایسے قبیح فعل کو قطعاً نیچرل پراسیس قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بَل کہ مغرب کی تقلید پر ہی چلنا ہے تو ذرا کھل کر سامنے آئیں۔
مغرب میں اب ہم جنس پرستی کوئی انوکھی چیز نہیں سمجھی جاتی بَل کہ یہ وہاں کی روز مرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ رونگٹے تو تب کھڑے ہوتے ہیں جب جرمنی، آسٹریلیا اور ہالینڈ جیسے ممالک میں بحث یہ شروع ہو چکی ہے کہ جنسی آزادی کے لیے انسانی رشتوں کی ڈور میں کیوں بندھے رہیں؟ یہ خونی رشتے بھی نام نہاد مساوات کے علم برداروں کو اب کھٹکنے لگے ہیں۔ کیا اب ہندوستان کی عدلیہ مستقبل میں ایسے غلیظ اور پلید فعل کو بھی بھارت میں دستوری تحفظ فراہم کرے گی؟
افسوس ایک منظم مہم کے تحت بولی وڈ میں بھی ہم جنس پرستی کو بڑھاوا دینے اور اسے ایک معمول کی کار روائی سمجھنے پر زور دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ہمارے سامنے فائر، گرل فرینڈ، علی گڑھ، کپور اینڈ سنز، مارگریٹا ود سٹرا، بمبئے ٹاکیز، ہنی مون ٹریولز اور دوستانہ جیسی فلمیں ہیں جن میں ہم جنس پرستی کا شرم ناک پرچار کیا گیا ہے۔
ہم جنس پرستی ایک سماجی گالی کے مترادف ایسا عمل ہے جو کہ انسان کو پُر تشدد رویے اپنانے، فطرت کے بہاؤ کے منافی چلنے، زندگی کا دورانیہ مختصر کرنے کی جانب راغب کرتا ہے جو بالآخر خود کشی پر مُنتِج ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایڈز جیسی مُوذی بیماری میں چار سو گنا اضافے کی وجہ کے پیچھے بھی ہم جنس پرستی ہی اہم محرک رہا ہے۔
آج ہندوستان بھر میں 2.5 ملینLGBT طبقے کے افراد سات رنگوں پر مشتمل اپنا جھنڈا اونچا کیے فاتحانہ انداز میں گھوم رہے ہیں۔ یہ شاید ان کی فتح تو ہو سکتی ہے مگر ہزاروں سال پر محیط ہندوستان کی درخشاں تہذیب کے چاہنے والوں کے لیے یقیناً شرم کا مقام ہے۔