تحریر و تقریر کی آزادی کی بحثوں کی کچھ لبرل اور ریڈیکل جہتیں
از، یاسر چٹھہ
ماخوذ از، ایرک ہائینز کے مضمون
Free speech debates are more than ‘radicals’ vs ‘liberals’
صدیوں تک تحریر و تقریر پر قدغن شہنشاہیت، جاگیرداری اور پاپائیت جیسی قدامت پرست قوتوں کا ہتھکنڈہ رہا۔ آزادی تحریر و تقریر سے خطرہ کسی کو تھا بھی تو ان طاقت اور اثر و نفوذ کے سنگھاسن پر براجمان لوگوں کو تھا۔ آج کی دنیا میں بھی اگر کسی کو ایسا خطرہ محسوس ہوتا ہے تو انہی قوتوں کو ہی ہوتا ہے۔ لبرل ازم نے ان قوتوں اور طاقت کے مراکز کے خلاف جد و جہد کی۔
لبرل ازم کی تحریک سے آگے آئیے۔ اب کارل مارکس کا زمانہ آن پہنچتا ہے۔ اب مارکسیت، لبرل ازم کے اس روایتی کردار کو اپنے آپ کو سونپ لیتی ہے۔ لبرل ازم جو ایک وقت میں تو طاقت کے مراکز کے سامنے ایک فیصلہ کن ڈھال کے طور پر موجود رہی تھی۔ مگر حالات کے پلٹا کھانے پر اب یہ خود انہیں مراتب پر خود کو براجمان کر بیٹھی تھی جن سے یہ اب تک بر سرِ پیکار رہی تھی۔
مارکس کے خیال میں، لبرل ازم کی اختراع کردہ سماجی گروہ بندیوں نے تو محض طاقت کی قوتوں اور مراکز میں اپنے لیے نئے روپ تراشے تھے اور جگہیں حاصل کی تھیں۔ لبرل ازم کے طاقت کے مراکز نے اپنا جواز ہمہ گیر آزادی و مساوات کی اسطورہ، یا خالصتاً آئیڈیالوجی کے ذریعے تراشنے کی کوشش کی۔
بیسویں صدی عیسوی کے وسط سے لے کر اب تک اس نقطۂِ نظر نے آزادی تحریر و تقریر کے ریڈیکل انتقادات کو فکر کی روشنی فراہم کی ہے؛ گو کہ ایسے انتقادات کرتے ہوئے مارکسی نظریے کا براہ راست حوالہ نہیں بھی دیا جاتا۔
دائیں اور بائیں بازو کے سخت گیر پیروؤں کے بیچوں بیچ لبرل ازم کی ایک الگ پہچان بن چکی ہے: اب لبرل ازم سیاسی مقتدرہ کے خلاف بر سر پیکار ہونے کی شبیہ پر نہیں دیکھی جاتی؛ بلکہ اسے تو خود دھیرے دھیرے سے سیاسی مقتدرہ کے سانچے پر ڈھلتے اور اس کی تجسیم ہو چکنے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
اس نقطۂِ نظر کا منھ چڑانے کے انداز میں ہمہ گیر شخصی آزادی کی اسطورہ عین اسی طاقت کے ارتکاز کے خلاف ایک جھوٹی اور دکھاوے کی ڈھال کے طور پر نظر آنے کا ڈھکوسلا کرتی ہے جس طاقت و جاہ کو در حقیقت وہ از خود اپنے خاطر جذب کرنے آ رہی ہوتی ہے۔ بغیر کسی روک ٹوک کے جاری رہنے والی عوامی بحث و تمحیص آزادی کی محفوظ پناہ گاہ بننے کی بجائے اس کی مخاصمت پر اتر آتی ہے۔ یہ حاشیے پر پھینک دی گئی آوازوں اور بیانیوں کی نمائندگی نہیں کرتی، بلکہ انہیں اپنے شور کے نیچے دبا کر مراکز سے مزید دور کر دیتی ہے۔
لیکن یہ جھگڑا کہانی کا صرف ایک پہلو بتاتا ہے۔ امریکہ کو چھوڑ کر عہدِ حاضر کی تمام لبرل جمہوریتوں میں مختلف سر کردہ لبرل نظریاتی چھتریاں اور صف بندیاں بہت زور و شور سے اشتعال دلانے والی تحریر و تقریر کے خلاف حد بندیاں قائم کرنے کے متعلق دلالت کرتی ہیں۔
آج کے لبرل طبقات اس بات کی بابت آپسی طور پر ہاں میں ہاں ملاتے نظر آتے ہیں کہ قانونی، غیر قانونی اور جائز و نا جائز اظہار رائے کے بیچ میں حد فاصل کا قائم کیا جانا اشد ضروری ہے۔ ان کا اختلاف اگر کوئی ہے تو ایسا محض اس بات پر ہے کہ یہ حد فاصل کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں آکر اسے ختم ہو جانا چاہیے۔
آزادی تحریر و تقریر کے مباحث و مجادلے میں اگر کوئی نزاعی معاملہ ہے تو وہ یہ کہ:
1۔ لبرل حلقے اس بات کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں کہ قطعی طور پر پا بندیوں سے بالا بالا تحریر و تقریر آزادی کے حصول اور حظ اٹھانے کا کا ایک اہم آلہ ہے
2۔ اس کے بر خلاف، ریڈیکل حلقے بغیر کسی قدغن کے تحریر و تقریر کو ایک قسم کے طبقاتی استحقاق کی عیاشی کے اوپر چڑھے ملمع کے طور پر دیکھتے ہیں
بہر کیف زیادہ تر لبرل حلقے اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ آزادی اظہار کو مطلق نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے بیچوں بیچ کچھ ایسے ریڈیکل گروہ بھی ہیں جو ان پا بندیوں کے بالکل حق میں نہیں۔ مارکس لبرل ازم کی ہمہ گیریت کے جھوٹے بہانے کی رد تشکیل کر سکتے تھے۔ وہ ایسا لبرل ازم کے تضاد کو دکھا کر واضح کر سکتے تھے کہ لبرل ازم تو جو نظر آتی ہے، فی الحققیت اس کے بر عکس ہے؛ لبرل ازم تو در حقیقت کچھ طبقات کو مسلط کرنے، اور کچھ کو بے دخل کرنے کی حکمت عملی میں مصروفِ کار رہتی ہے۔ ہیگل نے لبرل ازم کی اس خواہش و چاہت کی ردِ تشکیل کی پہلے ہی بہت امید افزاء انداز سے بنیاد رکھ دی تھی۔ ہیگل کی اسی بات کی بنیاد پر جوڈتھ بٹلر کی Excitable Speech (1997) میں بات نکلتی ہے۔
جہاں غالب ریڈیکل رائے منافرت کو فروغ دینے والی تحریر و تقریر کی اس بات کی بنیاد پر مذمت کرتے دکھائی دیتی ہے کہ یہ سیاسی و سماجی طور پر مردودِ حاشیہ گروہوں کی شناخت کی نا صرف تشکیل کرتی ہے بلکہ اس کو مضبوطی سے استوار بھی کرتی ہے، البتہ جوڈتھ بٹلر کی نظر میں ایسے بظاہر مسلنے اور کچل دینے والے اعمال و افعال کے رد عمل میں ان مردود و محقور گروہوں میں سیاسی آگہی اور ایک قسم کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔
جیمز مل سے بھی پرانی ایک روایت ہے جسے لوئیس براندیس نے جدید خطوط پر استوار کیا۔ اس کے تحت موخر الذکر نے آزادی اظہار کو آزاد منڈی کے ساتھ نتھی کر دیا۔ اس کی رو سے منڈیوں کی کسی کم تر درجے کی مصنوع کا علاج زیادہ سے زیادہ مصنوعات کی فراہمی میں ہے۔ اسی سانچے پر بڑی سطح کی تحریر و تقریر کا علاج و حل زیادہ سے زیادہ تحریر و تقریر کی آزادی دینے میں ہے۔
بائیں بازو کے لیے آزادانہ اظہار رائے کو آزاد منڈی سے منسلک و نتھی کردینا بھی محض ایک اور آدھے سچ کا درجہ رکھتا ہے۔ اشیائے صرف کی منڈیاں طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے کا کام ہر گز نہیں کرتیں؛ بل کہ ان کے وجود پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہیں اور انہیں جواز بخشتی ہیں؛ کہتی ہیں کہ یہی عین فطری مقابلے کے نا گزیر نتائج ہیں۔
خیالات کی منڈی بھی عین یہی کام سر انجام دیتی ہے۔ یہ بظاہر سب کو برابری کی بنیاد پر مواقع فراہم کرنے کا دم بھرتی ہے، لیکن در حقیقت ایک منظم انداز سے اس کا جھکاؤ طبقۂِ امراء اور دیگر طاقت ور گروہوں کی آوازوں کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔ جب کہ دوسری آوازیں اور بیانیے ان کے زور و شور اور وزن کے نیچے دب کر رہ جاتے ہیں۔
جوڈتھ بٹلر کے مندرجاتِ بالا پر مشتمل مضمون لکھنے کے چھ سال بعد حاوول وینیئم Raoul Vaneigem، نے فرانسیسی زبان کے سرکردہ اور ممتاز مابعد مارکسی دانش ور کے طور پر ایک اہم جواب لکھا۔ وینیئم نے خام قسم کے بائیں بازو کے بیانیے کا مہا بائیں بازو والا جواب دعوٰی بیان جاری کیا۔ لبرل حلقے اشیاء اور خیالات کی منڈیوں کو باہم نتھی کر دیتے ہیں تا کہ وہ ضوابط و نگرانی یعنی regulation کے خلاف دلالت کر سکیں؛ اور ریڈیکل انتقاد ان دونوں، یعنی اشیاء اور خیالات کی منڈیوں کو باہم جوڑ کر اس لیے دیکھتا ہے کہ یہ ضوابط و نگرانی کے حق میں دلالت کر سکے۔
وینیئم البتہ ان دونوں یعنی لبرل اور ریڈیکل فکروں کی اشیاء اور خیالات کی منڈیوں کو جوڑ دینے کے انداز کو توڑ پھوڑ دینے کی حکمتِ عملی برتتے ہیں۔ سنہ 2003 میں لکھے اپنے ایک مضمون میں وینیئم بیان کرتے ہیں کہ بغیر کسی قدغن کے تحریر و تقریر بالکل کسی طور پر بھی نیو لبرل حلقوں کی منڈی کی قوتوں کی بہ الفاظ دیگر سیدھی سادی شیئیت میں ڈھلائی شدہ یک سانیت، commodified uniformity، نہیں؛ بل کہ ان کو باہمی عدم توازن و عدم استحکام کا شکار کر دینے کا اہم آلہ ہے۔
وینیئم کہتے ہیں کہ اشیائے صرف کی منڈی کی گورکھ دھندہ قسم کی آزادی کی نسبت عوامی بحث و تمحیص کے عمل میں اصلی اور کھری آزادی ہے: ایک ایسی آزادی جو مقتدر ہیئتوں اور اشرافیائی طاقت کو عدم توازن و عدم استحکام کا شکار کر دینے کی تخلیقی نوعیت کی آزادی سے عبارت ہے۔
کسی قدر واضح نتیجے پر پہنچنے کے لیے ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ہم یہ مفروضہ ترک کر دیں کہ لبرل اور ریڈیکل اس مسئلے پر کلی طور پر دو مختلف آراء اور نتائج و عواقب کے حاملین ہیں۔ دونوں مکتبہ ہائے فکر اپنے طور پر قائل کرنے والی توجیہات پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ عوامی سطح کی بحث و تمحیص پر پا بندیاں عائد کرنا کیوں ضروری ہیں؛ بَل کہ حد تو یہ ہے کہ ان پر پا بندیاں لگانے کی مخالفت میں بھی اسی قدر مضبوط تر دلائل پیش کرتے ہیں۔