لبرل ڈیمو کریسی کا فکری دائرہ کار

لبرل ڈیمو کریسی

لبرل ڈیمو کریسی کا فکری دائرہ کار

از، پروفیسر محمد حسین چوہان

آزاد خیال جمہوریت کا آغاز مغربی ممالک میں اٹھارہویں صدی میں صنعتی ترقی کے ساتھ ہو گیا تھا، اور انیسویں و بیسویں صدی میں لبرل ڈیمو کریسی یا سوشل ڈیمو کریسی ایک مقبول عام سیاسی فلسفے کی شکل اختیار کر چکی تھی جس کا مقابلہ ایک طرف کمیونزم و سو شلزم سے رہا اور دوسری طرف آمریت، بادشاہت اور موروثی و خاندانی طرز حکومتوں سے بھی اس کو نبرد آزما ہونا پڑا۔ اپنے نظام فکر میں تمام تر اصلاحات و تبدیلی کے باوجود زمام کار امرا و سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہی رہی اور دنیا بھر میں یہ ایک مقبول ترین سیاسی فلسفے کے طور پر کامیاب بھی رہا۔

فکری و نظری لحاظ سے اس کو بہت سے چیلنجوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ علمی و فلسفیانہ سطح پر اس میں تضادات و تناقضات کی بھی نشاندہی کی گئی۔ مگر مغربی دنیا میں اس کی کامیابی کی بنیادی وجہ اصلاحات اور تبدیلی کا مسلسل عمل ہے، جس سے عوام میں اس کو مسلسل پذیرائی ملتی رہی ورنہ مارکسزم کے علم و انسان دوست انقلابی فلسفے کا مقابلہ کرنے کی اس میں سکت نہیں تھی۔ دوسری اہم بات لبرل ڈیموکریسی بھیانک سرمایہ داری کی نمائندہ نہیں رہی۔

اصلاحات کے عمل نے اگر اس کو سوشلزم جیسا نہیں بنایا مگر اس کو سوشلزم کے ضرور قریب کر دیا، جس میں حقوق و فرائض کا ایسا تناسب قائم کر دیا، جہاں شہریوں کو شخصی آزادی، آزادی رائے، آزادی ضمیر، سماجی انصاف، انفرادیت، مذہبی رواداری اور آزاد تجارت کے حقوق حاصل ہوئے وہاں قانون کا احترام اور بالا دستی کو بھی یقینی بنایا گیا، فرد کی آزادی کو دوسروں کی آزادی سے بھی مشروط کیا گیا۔ اقلیتوں کے حقوق اور مذہبی رواداری کو قانون کا حصہ بنایا گیا۔

طبقاتی جنگ کے بر عکس طبقات کے درمیان تفریق کم کرنے کی کامیاب کو ششیں کی گئیں۔ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کے سماجی تحفظ کو یقینی بنایا گیا۔ فرد کے حق انتخاب کو اس کا فطری اور پیدائشی حق قرار دیا گیا۔ تبدیلی کو انقلابی شکل دینے کی بجائے تدریجا اس کا نفاذ کیا گیا۔حکومتی اور سیاسی معاملات میں عقلیت پسندی اور مثالی آدرشوں کے بر عکس علمی و تجربی اور سائنسی تعبیروں کے ذریعے سماجی و سیاسی مسائل حل کیے گئے۔ تجربیت و عملیت پسندی کے نظریات کو سیاسی فلسفے میں جگہ دی گئی معاشی عدم مساوات کو اصلاحات کے ذریعے قابل قبول بنایا گیا اور جذبہ محرکہ کو بھی قائم رکھا گیا، تاکہ انسان کی ترقی کرنے کی حس اور کام کرنے کا جذبہ کہیں ماند نہ پڑ جائے۔

ٹیکس اور مراعات کے مابین ایسی معتدل پالیسیی اپنائی گئی کہ عام مزدور قدر زائد کی بھیانک حقیقت کو بھول گیا۔ لبرل ڈیمو کریسی نے فلاحی ریاستوں میں انسان کی محرومیوں کا علمی و تجربی بنیادوں پر ازالہ کر دیا۔ افادیت پسندی کے اصولوں کے تحت عوام میں زیادہ سے زیادہ خوشی و مسرت کو عام کرنے پر زور دیا گیا۔ ہیلو ویل کے بقول افادیت نے اخلاقی اور سیاسی نظریات کو تجربات اور مشاہدات کی بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ عمرانی اقدار اور روایات کے تحت سیاسی تھیوری کی بنیاد زیادہ مستحکم ہوتی ہے نہ کہ مفروضوں اور روایات کی پاسداری سے۔

آزاد خیال جمہوریت کی کامیابی کی بڑی وجہ اداروں کی آزادی اور خود مختاری بھی ہے جس سے نظم و ضبط قائم ہوا ہے۔ قانون کی بالادستی اور قانون سب کے لیے یکساں کو عملی طور پر رائج کیا گیا ہے، شفافیت اور میرٹ کی پاسداری کو یقینی بنایا گیا ہے۔ نظریات و افکار کی ترسیل اور مقابلے کی فضا کو قائم رکھ کر اجتماعی معاشرتی حرکت کو رواں دواں رکھا گیا ہے۔ قانون اور اخلاق کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عام شہری بھی بد عنوانی، بد نظمی، جھوٹ، دھوکہ دہی وغیرہ کی تائید کرنے کو مخرب اخلاق سمجھتا ہے۔ یعنی جن قوموں کے حکمران دیانتدار ہوں ان کے عوام بھی اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوتے ہیں۔

آج تک ترقی یافتہ ممالک کے عوام نے کسی نا اہل اور کرپٹ سیاسی راہنما کی حمایت میں نہ ریلی نکالی اور نہ ہی علمی و فکری قضایا میں اس کو جگہ دی۔ وہ اپنے سسٹم کو تیزی سے چلانے کے قائل ہیں، شخصیات ان کے نزدیک اضافی ہیں، جو جاتا ہے پلٹ کر نہیں آتا۔ آزاد پسندوں کے نزدیک دوسروں کو اذیت دے کر نیکی کا تصور محال ہے ، سماجی اقدار و روایات کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے شخصی آزادی احساس ذمہ داری کی پابند ہے۔

آزاد خیال جمہوریت اعتدال پسندی کا فلسفہ ہے۔ یہ اپنے علمی و فکری قضایا میں افراط و تفریط کو خاطر میں نہیں لاتی۔ سیاسی معاشیات میں طبقاتی تفریق کو ذمہ داری اور معقولیت کے ذریعے کم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ آجر و اجیر کے مابین انسانی نفسیات اور ضروریات کو پیش نظر رکھ کر حقوق و فرائض کا تعین کرتی ہے، جہاں آہستہ آہستہ طبقاتی تفریق میں خلیج حائل نہیں رہتی۔ سماجی تحرک کے فلسفے کے ذریعے شہریوں کو یکساں ترقی کے مواقع فراہم کر کے ان کے سماجی رتبے میں تبدیلی لاتی ہے، جہاں شخصیت کی نشوونما اور انفرادیت پیدا کرنے کا انسان کو فطری ماحول میسر ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک صداقت معتدل اور متوسط راستہ اختیار کرنے سے حاصل ہوتی ہے، جس کی وجہ سے آج مغربی ممالک کی اکثریت اس کے ثمرات سے مستفید ہو رہی ہے، اگر سیاسی و معاشی نظام میں تعطل و تضاد بھی پیدا ہو جائے تو اس میں اتنی لچک ہوتی ہے کہ وہ سنبھل جاتا ہے کیونکہ اس کی ذمہ داری صرف حکومت کے پاس نہیں ہوتی بلکہ عام فرد کی دلچسپی اور مفاد بھی اس میں شامل ہوتا ہے۔

شخصی آزادی اور ذاتی مفاد کا تصور اجتماعی سطح پر سیاسی معاشیات کی چولیں ڈھیلی نہیں ہونے دیتا۔ محنت کرنے والے بامراد ہوتے ہیں اور کام چوروں کے منہ بھی ریاست نوالہ ڈال دیتی ہے، یہ سب افادیت پسندی کے سیاسی اصولوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ کیسے خوشی اور مسرت فراہم کی جائے، افادیت پسندی انسانی ضروریات و احتیاج پوری کرنے کا سیاسی فلسفہ ہے، یہ اضافیت اور اثبات کے چکروں میں نہیں الجھتی، اس کے نزدیک صداقت صرف عالمگیر نہیں ہوتی مقامی بھی ہوتی ہے اس بنا پر یہ مابعد جدید فلسفے کے قریب بھی آجاتی ہے مگر ترجیحات کو بھی پیش نظر رکھتی ہے، زمانے کی تیز رفتار ترقی کی بنا پر نظریات اور علوم و فنون کو اپنے سیاسی فلسفے میں بھی جگہ دیتی ہے۔

احکامات و روایات کے بر عکس تجربی و جدلیاتی اصولوں کو بھی قبول کرتی ہے مگر تدریجی بنیادوں پر اور نظام اپنی تصیح آپ کرتا ہے۔ اداروں میں آلاتیت پسندی کی سائنس اور گلوبولائزیشن نے نئی طرح کی جدید مادیت کو بھی جنم دیا ہے۔ جس سے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم میں، ٹیکس اور ریونیو کے ذریعے توازن پیدا ہوا ہے، روزگار کے مواقع بڑھے ہیں۔ ریگولیشن کے عمل سے قدر زائد کے مارکسی تصور میں ابال کم ہوا ہے۔ مغرب کی لبرل ڈیمو کریسی کا مزاج و انداز ہمارے معاشروں کی طرح روائیتی و اقداری بھی نہیں رہا ہے اور نہ ہی تجریدی و کلیت پسندانہ ، بلکہ تجزیاتی وتحلیلی سے بھی منحرف ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ نئی مادیت پسندانہ تعبیر سائنس و تجربے کی مرہون منت ہے۔

اس کے نزدیک سیاسی معاشیات کا انحصار و ترقی اداروں اور دیگر شعبوں کو آلات و تجربے کے سانچے میں ڈھلنے سے ہوتا ہے۔ صحت عامہ، پولیس، ماحولیات، معاشیات، تعلیم، نفسیات حیاتیات، بائیو ٹیکنالوجی اور دیگر شعبہ جات سائنس و ٹیکنالوجی کی رہین منت ہیں جس میں کسی قیاس آرائی اور مفروضے کی اتنی ضرورت نہیں رہی ہے۔ علم وجودیات کے ذریعے فطرت وسماج کا نظام آپس میں جڑا ہوا ہے اور یہ لازوال مادی تعلق معاشیات وسیاسیات پر بھی اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔ لبرل ڈیمو کریسی نئی مادیت کی اس تعبیر کو اپنے نظام فکر میں جگہ دیتی ہے، جس سے سیاسی معاشیات سائنس و ٹیکنالوجی کے اداروں پر مرتب اثرات سے خود بخود اپنا قبلہ درست کرتی ہوئی نظر آرہی ہے، جہاں انقلاب کے بر عکس اصلاحات کے ذریعے تبدیلیوں کو قبول کیا جا رہا ہے۔

علم اور ٹیکنالوجی کے قائم کردہ اثرات سے سرمایہ داری کے تضادات سکڑ تے جا رہے ہیں اور ایسا قابل قبول فلاحی معاشرے کی ترقی یافتہ صورت ظاہر ہو چکی ہے جس کا فاصلہ ڈیمو کریٹک سوشلزم سے اتنا دور نہیں رہا ہے۔ اب کے جنوں میں فاصلہ شاید کچھ نہ رہے۔ دا من کے چاک اور گریبان کے چاک میں، والی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ یہ سب کچھ ایک فلاحی ریاست کے تصور سے ممکن ہوا ہے اور سوشل ڈیموکریسی اپنے اندر سائنسی صداقتوں کو قبول کر رہی ہے، جس میں نظریے کی صداقت عمل میں ثابت ہو تی ہے۔ پھر بھی لبرل ڈیموکریسی کو کسی مربوط سائنسی فلسفے و نظریے میں منضبط نہیں کیا جا سکتا مگر اس کا مصلحانہ کردار و ا نداز کامیابی و ترقی کی طرف ضرور گامزن ہے۔

فائدے کی سائنس نے فائدے کی سیاست کو ضرور جنم دیا ہے۔ سوشلسٹ تحریکوں سے بھی اس کو جلا ملی ہے۔ تاریخ و روایات سے بھی استفادہ کیا ہے، مگر سیلف کریکشن یا خود احتسابی کے عمل سے مسلسل گذر رہی ہے۔ اسی بنا پر دنیا بھر میں لبرل ڈیمو کریسی ایک مقبول سیاسی فلسفے و نظام کے طور پر بہت مقبول ہے۔ جیسے فرانس اور کینیڈا میں اس پر سوشلزم کی چھاپ زیادہ گہری ہے۔ آسٹریلیا میں دایاں بازو کی طرف اس کا زیادہ رجحان ہے، یورپ میں آزاد منڈی کی نمائندگی کرتی ہے۔ امریکہ میں اختیارات و معیشت کی مرکزیت پر زور دیتی ہے، برطانیہ میں اصلاحات کے ایجنڈ ے پر عمل پیرا ہے۔ سکینڈ نیوین ممالک میں ایک فلاحی معاشرے کی بہترین عملی تعبیر پیش کر چکی ہے اور سوشلزم کے مہا بیانیہ کے مقابلے میں ایک معتدل انسان دوست معاشی سسٹم کو رائج کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، جو کامیابی سے کام کر رہا ہے۔ اب اس کو ماحولیات گلوبل وارمنگ اور جنگوں جیسے مسائل کو حل کرنا باقی ہے جو آہستہ آہستہ ارتقائی مراحل سے گزر کر حل ہو جائیں گے۔

پاکستان میں لبرل ڈیمو کریسی کو نظریاتی مسائل کا اتنا سامنا نہیں، جتنا اس کو عوامی مسائل حل کرنے کا ہے، کیونکہ وہاں ایک وسیع طبقاتی تفریق موجود ہے۔ آدھی سے زائد آبادی سخت معاشی و سماجی تفریق کا شکار ہے۔ احساس محرومی اور غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہے۔ دیہات میں چھپی ہوئی غربت کسی کو نظر نہیں آتی۔ جاگیر داری نظام نے اکثریتی آبادی کو غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔ بے گھری کا مسئلہ وسیع زمینیں ہونے کے باوجود حل نہیں ہوا ہے بلکہ کسی نے بھی اس معاملہ میں سنجیدہ کوششیں نہیں کی ہیں۔

ہاریوں، خانہ بدوشوں اور بے زمینوں کو ابھی تک حقوق ملکیت نہیں ملے ہیں۔ جمہوریت کے لبادے میں سیاست کرنے والی مفاداتی سیاسی جماعتیں حکومت بچاؤ اور اثا ثے چھپاؤ کی پالیسی پر کاربند رہی ہیں اور اقتدار کو عوامی خدمت کے بر عکس ذاتی کاروبار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ملک پر طالع آزما مافیا اور اشرافیہ کا اقتدار قائم رہا ہے۔ ملکی سیاست پر آمریت نواز بر اجمان رہے، سوشلزم کے نام پر عوام کو نہ صرف دھوکہ دیا گیا بلکہ ان کو لوٹا بھی گیا۔ کسی بھی قسم کی اصلاحات متعارف نہیں کرائی گئیں۔ مذہبی شدت پسندی نے سیاست میں فرقہ وارایت اور انتشاری سیاست کو فروغ دیا جس سے نہ صرف ملک کا امن تباہ ہوا بلکہ علمی و سائنسی اور جمہوری اقدار بھی پروان نہیں چڑھ سکیں۔

لسانی اور قبائلی سیاست نے گروہی سیاست کو فروغ دیا ۔خاندانی و موروثی سیاست نے اجارہ دار سیاست کی داغ بیل ڈالی جس سے جمہوریت قبیلے و خاندانوں تک محدود رہی اور جبر و تعصب کی فضا نے جمہوری اقدار و روایات کو پنپنے کا موقع نہیں دیا۔ملک میں قومی سیاست اور قومی جذبہ انتشاری سیاست کی نذر ہو گیا۔ سیاست میں قومیت کے جذبے کے فقدان کی وجہ سے مفاداتی سیاست کو فروغ ملا۔ جاگ پنجابی جاگ، جئے سندھ کے نعرے۔ لسانی اور فرقہ ورانہ سیاست اسی انتشاری سیاست کی غمازی کرتے ہیں۔ بدعنوانی کا راج اپنے جلوے دکھاتا رہا۔ حکمرانوں نے ملکی دولت لوٹ کر بیرونی ممالک کے بینکوں میں جمع کرنا شروع کر دی، جہاں ایک عام شہری ساری زندگی محنت کر کے اپنے کاروبار کو فروغ نہیں دے سکتا وہاں کے حکمرانوں کی دولت وال اسٹریت کے انڈیکس کو بھی عبور کر گئی۔ جس سے نہ صرف ملک میں غربت پھیلی بلکہ قوت خرید گھٹ گئی اور عام انسان محنت کرکے بھی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں رہا اداروں کی آزادی و خود مختاری میں سیاسی مداخلت نے ان کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کیے۔ اداروں کی فعالیت ہی بالائی سیاسی ڈھانچے کا تعین کرتی ہے اور پولیٹیکل اکانومی اپنی اصل شکل دکھاتی ہے، مگر اداروں کی خودمختاری قائم نہ ہونے اور سائنسی آلات کی عدم فراہمی سے بہترین نظم قائم نہیں ہو سکا، سیاسی حکومت کچھ نہیں ہوتی ماسوائے اداروں کے عکس کے۔

دولت سے حاصل کیے ہوئے اقتدار کی تھیوری کئی عشروں تک کامیاب رہی اور ان کو ایوانوں تک بھی پہنچاتی رہی۔ مگر عوام کو نظر انداز کرنے سے عوام میں سیاسی بغاوت کا جذبہ پیدا ہو گیا، جس سے عوام میں پاکستان تحریک انصاف کو سخت پذیرائی حاصل ہوئی، اس پذیرائی کی اصل وجہ چئیرمین تحریک انصاف کی نہ صرف کرشماتی شخصیت تھی بلکہ اس کا قومی کردار بھی تھا۔

اصولوں کی سیاست کی داغ بیل ڈالنے سے کرپشن کے خلاف تحریک میں خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ اداروں کی خود مختاری میں جان پڑی۔ عوام میں امید کی کرن پیدا ہوئی۔ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت نہیں رہی بلکہ ایک اصلاحی سیاسی جماعت کا مقام حاصل کر گئی مگر اس کے باوجود لبرل ڈیموکریسی کو مذہبی رواداری کے کلچر کو فروغ دینے میں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، ملک میں مذہبی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے معاشی دہشت گردی کا خاتمہ بھی ضروری ہے کیونکہ اس مذہبی دہشت گردی کے ڈانڈے بھی معاشی دہشت گردی سے ملتے ہیں۔

اس بنا پر سب سے بڑا مسئلہ معاشی دہشت گردی کے خاتمہ کا بھی ہے۔ دینی مدارس میں جدید نصاب کے متعارف کرنے کا مسئلہ بھی اپنی جگہ ہے بلکہ مدارس کی تعلیم کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے اور مدارس کو حکومتی و سرکاری سرپرستی میں چلانے سے ایک وسیع احساس بیگانگی کا شکار طبقہ عملی زندگی میں احسن طریقے سے اپنی خدمات سر انجام دے سکتا ہے اور شدت پسند جذبات معقولیت کے سانچے میں ڈھل سکتے ہیں۔ مذہبی رواداری اور شخصی آزادی کا عملی خواب معاشی آسودگی کے بغیر پروان نہیں چڑھ سکتا۔

غربت و بے روزگاری کے خاتمہ کے لیے صنعتوں کا قیام اور سرمایہ کار کے لیے امن اور سازگار ماحول ضروری ہے۔ جس کے لیے سرخ فیتے سے نجات کے لیے الگ محکمہ قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں لیز پٹے اور کرائے پر آسانی سے کاروبار کرنے کے لیے زمینیں دستیاب ہوں۔ بالخصوص دیہاتوں اور دور دراز علاقوں میں چھوٹی صنعتوں کے قیام، سیاحتی ضروریات و خدمات کی فراہمی سے نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا ہوں بلکہ سستی لیبر سے مسابقتی معیشت بھی پروان چڑھ سکے اور عوام روایتی سیاست کے جال سے بھی نکل سکیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ بیرونی ممالک میں آباد پاکستانی کاروبار کے لیے ساز گار ماحول کے منتظر ہیں۔ ان کے لیے مخصوص جگہ اور سازگار ماحول چاہیے۔ جس میں سب سے بڑا مسئلہ مناسب مقامات و سپاٹ کی دستیابی اور قانونی پچیدگیوں کا ہے۔ جب لیز ، پٹے اور کرائے پر کمرشل پلاٹ و جگہیں دستیاب ہوں گی تو روزگار کے زیادہ مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

صارفیت کے بڑھنے سے معاشی شرح نمو میں بھی اضافہ ہو گا۔ ٹیکس کی وصولی سے ملکی معیشت مضبوط ہو گی۔ آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں اس طرح کے کاروباری اور معاشی منصوبے معاشی تحرک میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایک فلاحی اور معتدل آزاد معاشرے کی تشکیل کے لیے بدعنوانی کا خاتمہ ضروری ہے اور اس کے لیے صفر برداشت کی پالیسی اپنانا ہوگی اور سخت سزاؤں کو متعارف کرنا ہو گا۔ وطن عزیز میں لبرل، روشن خیال بلکہ سوشل ڈیموکریسی کے نفاذ سے تہذیبی و ثقافتی اقدار کو ذرا بھی خطرہ نہیں کیونکہ یہ ہر خطہ میں اپنے آپ کو مقامی روایات و اقدار کے سانچے میں ڈھال لیتی ہے، اس کی اساس انسانی فلاح پر قائم ہوئی ہے۔ اس بنا پر ترقی پسندوں کے نزدیک بھی یہ ایک کامیاب اور قابل قبول سیاسی نظام کے طور پر مقبول ہو چکی ہے۔

بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مایوس کارکنوں، دانشوروں اور رہنماؤں کی اکثریت جوق در جوق اس قافلہ سخت جاں میں شرکت کر رہی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ تحریک انصاف میں بے لوث اور مشنر ی جذبے کے حامل افراد کی ایک ایسی صاحب نظری و فکری ٹیم موجود ہے جو خلوص دل سے وطن عزیز میں تبدیلی کی خواہاں ہے ایسی معتدل سیاسی فکر سے تبدیلی کا سفر طے ہو گا اور نئی عقلی و فکری اور علمی و سائنسی راستوں کے دروازے کھلیں گے۔ اب پاکستانی عوام کے پاس آخری امید اور آخری آپشن کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں اور اس خواب کی تکمیل و تعبیر کے لیے تحریک انصاف سے بہتر کوئی دوسرا سیاسی پلیٹ فارم نہیں۔ اکیسویں صدی میں عملی طور پر داخل ہونے کے لیے عوام کو نہ صرف عقل و فراست بلکہ جنوں و جوانمردی سے فیصلے کرنے ہوں گے۔

فطرت افراد سے تو اغماض کر لیتی ہے

کرتی نہیں ہے کبھی ملت کے گناہوں کو معاف

2 Comments

  1. چوہان صاحب، آپ کا مضمون ایک سنجیدہ کاوش ہے۔ بہرحال کلی اتفاق کی نا ہی توقع کی جاتی ہے اور نا ہی شاید ہو سکتا ہے۔
    لبرل ڈیموکریسی کے اندر اپنی ازالہ غلطی و ترویج صالحیت کی گنجائش کی بابت جو آپ کا خیال ہے، اس پر آپ کی رائے سے اختلاف کی کافی گنجائش ہے۔
    آپ نے ذکر کیا کہ سوشلسٹ تحریک کا اس میں کسی حد تک کردار ہوسکتا ہے، وہ انتہائی حاشیائی سیاق میں کیا، اور بہت بعد میں جا کر کیا۔ اس سوال کو مزید کھوجنے کی گنجائش ہے کہ کیا واقعی لبرل ڈیموکریسی خود کو، بغیر کسی اردگرد کی تحریکوں کے دباؤ کے ٹھیک کر لیتی ہے، یا اس کے اندر ایسی صلاحیت خود بخود موجود ہے؟

    مزید یہ کہ آپ کے خیال میں ہمارے ادارے جو نااہل قرار دینے کی طاقت استعمال کرتے رہے ہیں، کیا وہ ایسا
    آزادی سے اور اپنی آئینی حدود کے اندر رہ کر کرتے رہے ہیں؛ یا بعد میں آ کر جج خود مانے کے کوئی “غیر سیاسی” دباؤ ہوتے ہیں؟ اپنے مضمون میں اس سوال کو بھی آپ شاید زیادہ آسان سمجھ کر، آسان جواب دینا پسند کرتے ہیں۔
    آخری بات، کیا جہانگیر ترین، مخدوم قریشی، علیم خان، اسد عمر (یوریا کارٹیلائزیشن) کی موجودگی میں آپ تحریک انصاف سے جاگیرداری کے خلاف کسی بامعنی عمل کی توقع رکھتے ہیں۔ اور جسٹس وجیہ الدین جیسے افراد کو مکھن میں سے بال کی طرح نکالنے سے انصاف کے کسی مستقبل کی زیادہ امید لگا سکتے ہیں؟ آپ کو پسند نا پسند کا حق ہے۔
    پس نوشت: کیا آپ جن ممالک کی ڈیموکریسی کا حوالہ دے رہے ہیں اور اس سے ڈیموکریسی کے خصائص اخذ کر رہے ہیں، ان ملکوں نے جتنے وقت میں (نسبتا) پختگی حاصل کی، اس سے نصف یا ایک چوتھائی وقت پاکستانی جمہوریت کو دے سکتے ہیں؟

  2. چٹھہ صاحب لبرل ڈیموکریسی ایک ارتقائی سیاسی عمل کی پیداوار ھے۔یہ اپنے اردگرد کے تجربات سے بہت کچھ اخذ کرتی ھے۔اس کی بنیاد تجرباتی اور عملیت پسندانہ نظریات پر قائم ھے۔اس کا آغاز تضادات و تناقصات کے حل سے شروع ھوتا ھے جس میں عوامی جدوجہد کا بڑا عمل دخل ھوتا ھے۔شروع میں یہ جاگیرداروں و سرمایہ داروں کو اپنی گود میں لیتی ھے لیکن چالیس دن کے بعد مرغی کی طرح بچوں کو چونچیں مار کر الگ بھی کر دیتی ھے۔یہ اس کا ارتقائی پروسیس ھے۔سائنسی وتجربی اور علمی مزاج سے ہم آہنگ ھے۔سوشلزم کی انقلابی تحریک سے اس نے بہت کچھ کیا ھے۔عوامی مسائل حل کئے ھیں۔طبقاتی تفریق کو معاشی تحرک کے ذریعے کم کر کے غربت سے لوگوں کو نکالا ھے۔طبقاتی تفریق کا یورپ میں احساس نہیں ھوتا۔ترقی کے کھلے اور مساویانہ مواقع موجود ھیں۔پاکستان میں اس پر بہت سا کام ھونا باقی ھے۔نواز شریف کا نااہل ھونا ایک کلی سیاسی جدلیاتی عمل ھے جو پہلی بار پاکستان میں ایک مثال بنی ھے۔اس بنا پر ہم آگے جا رہے ھیں۔نہ کے پیچھے۔اب سوشلزم کا بیانیہ دم توڑ چکا ھے اور ہم نے اصلاحی سوشل ڈیمو کریسی پر ہی چلنا ھے۔میں اس پر ہر امید ھوں۔چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ۔

Comments are closed.