لبرل طبقے کی زبردستیاں اور ہمارے نازک اندام ادارے
از، یاسر چٹھہ
ہمارے ہاں سیاست کرنے کا شوق بہت سی جماعتوں اور گروہوں کو ہے۔ لیکن وہ جماعتیں، گروہ اور افراد اپنی ان حرکات و افعال کو جو سیاست کے زمرے میں ہی آتے ہیں، سیاست کا نام نہیں دیتے۔ وہ چونکہ طاقت ور مراکز کے مکین ہوتے ہیں۔ بیانیے کی تشکیل کے وہ مسند نشین ہوتے ہیں، اخباروں کے صفحۂِ اول کے مدیران، نیوز چینلوں کے “رن ڈاؤن” میں اول اول جگہ دینے کے کار پرداز، اور سنسنی خیز موسیقی کے سنگم میں کسی خاص الخواص کی مُنھ جھڑی کو ریمارکس اور آبزرویشنز کے لباس میں مزین کر کے ہماری سماعتوں اور بصارتوں پر دے مارتے ہیں۔
جماعتیں کا لفظ استعمال کیا تو روایتی بھٹی کا تیارکردہ، اور تربیت شدہ ذہن ان ” exclusively کرپٹ” ساخت کردہ، باور کردہ اورآئیڈیاز کی مارکیٹ میں پیش کردہ گروہوں کی جانب جائے گا۔ لیکن توقع یہ ہے ایک روزن کا مفروضہ مثالی قاری ideal reader ایسا نہیں ہے۔
ایسے افراد و گروہ اور چھوٹے چھوٹے clique سیاست کرتے ہوئے بھی اپنی کَرنیوں کو سیاست نہیں کہتے۔ وہ اپنی حرکات و افعال کو
“ہم یہ نا کریں تو پھر کون کرے؟،”
“بھاری دل کے ساتھ کر رہے ہیں،”
“عوام کو ان کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا،”
جیسے بیانوں کے غلافوں میں ملفوف کر کے آئینی درستی قائم مقام political correctness، اینکروں سے ملاقاتیں “آف دی ریکارڈ” رکھتے ہیں، اپنی ہی جاتی کے “کھلے دل والے” کالم نگار چودھری سے بات کرتے ہیں تاکہ اپنا فلسفہ آف دی ریکارڈ سیاست کو عدم سیاست مارکیٹ کر سکیں۔
پر وہ سیاست سے لفظی دستانوں کے فاصلے شاید آئینی درستی کی خاطر ہی نہیں کرتے، بلکہ اس کے پیچھے ایک اور پروپیگنڈائی جنگِ عظیمِ استقلال ہے جس کی رُو سے خود اِنہی اشرف المخلوقات نے سیاست کو مترادفِ گناہ، کرپشن، غداری، توہین، عوام دشمنی، حِرصِ جاہ و مرتبہ، مُوجبِ مردود(یت)، چور بازاری باور کرایا ہوا ہے۔
کچھ حوالے ڈھول کون ہوگا جس کے ہاتھ میں بندوق ہوگی، میرا ڈھول سپاہی۔ گاؤں کا با عزت بزرگ اور انصاف کا دیوتا صرف وہ ہوگا جو اپنے نہیں بلکہ دوسروں کے مُنھ پر پٹی باندھ کر انصاف کو سرکٹ میں ریلیز کرے گا۔
اس سیاسی حقیقت کی صورت پذیری اور باور کاری جھکڑ اور طوفان میں جو ” بُود ہے” آپ نے، ہم نے اسے “نا بود ہے” کہنا ہے؛ اور جو “نابُود ہے،” اسے ہی “بُود ہے” کہنے کے سوا کوئی چارۂِ دیگر نہیں۔
اس سیاست کے شعبے کو عدمِ وجود کی کیفیت میں ڈالنے اور عدمِ سیاست کو سیاست کہنے کے سیاق میں ہمارے گلی محلوں میں رسمی تعلیم اور مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ نے کم از کم تین نسلیں ایسی پروان چڑھا دی ہیں جن کو انگریزی کی ترکیب میں de-polticised political beings کے طور پر ضبطِ تخیل میں لایا جا سکتا ہے۔ آپ اگر معروف و مقبول لِکھت پَڑھت اور سماعت میں جگہ کے متمنی اور پذیرائی کے خواہاں ہیں تو آپ کو اس نسل کے ذوق تہی ذوق سے کلام کرنا ہوگا۔ آپ کو انہی کے ذہنی جھکاؤ کی آب پاشی کرنا ہو گی۔ آپ ٹی وی پر ہوں تو میڈیا لاجک کی ٹی آر پیز TRPs کا shadowy بند و بست آپ کے قدموں تلے؛ اگر آپ اخباری دانش ور ہیں تو آپ محب وطن اور معتدل مزاج سوچ پرور کار معروف کیے جائیں گے۔
اوپری پیراگراف میں بیان کردہ احوال کو راقم السطور کسی طور پر بھائی مجاہد حسین سے مخصوص نہیں کرتا۔ آپ بات کرتے ہیں، سنتے ہیں۔ عزت کرتے ہیں اور عزت کماتے ہیں۔ آپ کا آج کل کی تاریخ میں ایک فیس بک سٹیٹس شائع ہوا تو راقم السطور کا جواب اس مجموعی سیاسی فضا کو تھا اور ہے۔
مجاہد حسین نے کہا:
ہمارے لبرل طبقےکا تمام تر آئیڈل ازم ججز کے لیے ہے۔ جوڈیشل ایکٹیوزم پر تنقید کے لیے دنیا جہان کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ لیکن انہی ممالک کے عوامی نمائندوں کا طرز عمل پیش کیا جائے تو ان کے خیالات کی ٹرین آئیڈیل ازم کے سٹیشن سے روانہ ہو کر زمینی حقائق کے سفر پر روانہ ہو جاتی ہے۔
اس پر راقم نے کچھ یوں تبصرہ کیا، جو اس سوال کا جواب تھوڑا ہی ہے بلکہ مجموعی ساخت کردہ فضا پر جواب متبادل ہے۔ عرض ہے:
عدلیہ اور دوسرا تنقید سے نازک ادارہ specialised bureaucratic ایکو سسٹم eco-system سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ باضابطہ طور پر تربیت یافتہ لوگ ہوتے ہیں۔ جیسے کوئی معلم، کوئی طبیب، کوئی انجنیئر، کوئی عمارتی نقشے بنانے والا، کوئی کسان۔ انہیں اپنے آپ کو “مکمل ضابطہ حیات و مکمل ضابطہ اختیارات و مُحیط بر کائنات ” سمجھنے سے باز رہنا چاہیے۔
انہیں عوامیت اور ثقافت سے اس قدر (جس قدر اہلِ سیاست کو) سخت و تُند مکالمہ و تفاعل نہیں درپیش ہوتا اور نا ہی کسی ایسے معقول اور پیشہ ورانہ ادارے میں ہونا چاہیے۔ انہیں گیلری کے مزاج کو دیکھ کر اپنے ڈائیلاگز اَز سرِ نو ترتیب و تزئین نہیں کرنا ہوتے۔
لیکن یہاں ان اداروں میں آنے والوں کے خوابوں کے اندر اور ان کی خود کلامیوں سے کسی طور رسائی ہو سکے تو ہمارے جیسے معاشروں میں ان اداروں میں آنے والے بھی طاقت کے کیڑے کی لکیر پر اپنے خواب رکھ کر آتے ہیں۔
معتدل معروف پیارے دوستوں سے درخواست ہے، ماحولیاتی مغالطے (؟؟؟) کے سیاق میں ایک بار اپنی رائے کو، بھلے کچھ عبوری لمحوں کے لیے ہی سوال زد کر لیجیے۔ باقی حال تو یہی ہے کہ ہم اکثر، بلکہ تقریبا سارے کے سارے ہی، اپنے اپنے echo chambers کی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں۔