(فیاض ندیم)
معاشرے میں تنوع معاشرتی اقدار کے ارتقاء کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ سماج اس تنوع میں سے بہترین اقدار کا انتخاب کرتا چلا جاتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں پختگی اور توازن بنتا چلا جاتا ہے۔ اور یہ عمل لا متناہی ہے۔ اس پر بہت سے عوامل مثلاََ تعلیم، معاشی ترقی، معاش کے ذرائع وغیرہ کا اثر بھی پڑتا ہے۔ کبھی اس ارتقاء کا عمل تیز ہوتا ہے اور کبھی سست، حتّٰی کہ بعض اوقات یہ ارتقائی عمل منفی صورت بھی اختیار کر لیتا ہے اور ایک بنا بنایا ترقی یافتہ معاشرہ نئے حالات میں تخریب کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ معاشرتی ترقی اور ارتقاء کی اصطلاح خصوصیتِ اضافی کے ساتھ ہے۔ ایک ہی تبدیلی معاشرے کے ایک سیکٹر کے لئے تو ترقی ہو سکتی ہے اور ممکن ہے کسی دوسرے سیکٹر کے لئے یہ تخریب ہو۔ ارتقائی عمل فقط اُسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب تنوع مقداری حالت میں ہو، کیفیتی نہ ہو۔ جب اختلاف کیفیتی سطح پر چلا جائے تو پھر دو انتہائیں بن جاتی ہیں اور ان انتہاؤں میں خلیج کبھی بھرنے نہیں پاتی، بڑھتی چلی جاتی ہے اور نتیجتاََ معاشرہ تخریب کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں اس تنوع کی کئی انتہائیں رہیں ہیں اور ایسا مذہبی معاشروں میں ہمیشہ ہوتا ہے۔ ان انتہاؤں نے ہمیں تخریب کے ایسے ایسے نمونے دکھائے ہیں کہ ہم دنیا میں ایک سپیشل اور بیمار معاشرہ بن کر رہ گئے ہیں۔ اور اس اختصاص میں ڈر کا عنصر غالب ہے اور ڈر ہمیشہ منافقت کی ترویج کرتا ہے اور اس کی گواہ موجودہ جوان نسل خوب ہے۔
پاکستان نے اپنے قیام سے بھی پہلے ہندو مسلم انتہائیں دیکھیں جو اکثر اوقات باقاعدہ جنگی فسادات کی صورت میں واضح ہوتی رہیں اور ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان کے بانیوں کا اس نئی ریاست کے قیام کا مقصد زیادہ تر انہی انتہاؤں کا خاتمہ کرنے کا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد شیعہ سنی، احمدی اور مسلم انتہائیں دیکھی گئیں اور بے شمار قیمتی جانوں کے زیاں کا باعث بنیں۔ مذہبی تنوع ہمیشہ کیفیتی حالت میں ہی ہوتا ہے۔ اس میں مذہبی پیروکار ہمیشہ کسی نا کسی انتہا پر ہی ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذاہب کی بنیاد ہمیشہ عقیدوں اور یقینوں پر ہوتی ہے اور چونکہ مذاہب کو الہامی مانا جاتا ہے، لہٰذا یہ عقاید اٹل حیثیت کے ہوتے ہیں اور ہر مذہبی پیروکار یہی سمجھتا ہے کہ وہی حق پر ہے اور کسی بھی دوسرے عقیدے کا شخص گمراہ ہے، لہٰذا وہ دوسرے عقیدے کے لوگوں کی اصلاح کا بیڑا بھی اٹھائے رکھتے ہیں۔ ایسی صورت میں اتفاق کے مواقع تقریباََ نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ مذہی تعلیمات کی تشریحات بھی مخصوص طبقے کے ہاتھ میں ہوتی ہیں لہٰذا اس طبقے کے لوگ اپنی اپنی تشریحات میں بھی عقائد کی طرح بنیاد پرست ہوتے ہیں اور اپنے اپنے پیروکاروں کو بھی اسی پر سختی سے کاربند کر دیتے ہیں۔ چونکہ یہ باور کرا دیا جاتا ہے کہ مذہبی معاملات میں سوال کرنا کفر ہے لہٰذا ان کیلئے ایسا کرنا آسان بھی ہوتا ہے۔ ان حالات میں مذاہب کے اندر مختلف فرقوں کے درمیان بھی مخاصمت تقریباََ ویسی ہی ہو جاتی ہے جیسی مخاصمت بین المذاہب ہوتی ہے۔ لہٰذا پاکستانی معاشرے میں اسی طرح کی مخاصمت کی وجہ سے معاشرتی اقدار کے ارتقاء میں کوئی فائدہ نہیں ہو سکا بلکہ تخریب ہی مقدر رہی اور ہمارا معاشرہ پستی کی طرف گامزن رہا۔
مغرب کو بھی کئی صدیوں تک ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا رہا۔ قتل و غارت، خانہ جنگی اور لا قانونیت،کی وجہ سے لاکھوں جانوں کا نقصان ہوا اور آخرِ کار سیکولرازم میں انہوں نے امن تلاش کرنے کی کوشش کی اور کامیاب رہے۔ جدید جمہوری نظام میں سیکولرازم کے مطابق مملکت کسی بھی مذہب کے ساتھ منسلک نہیں ہوتی یا دوسرے لفظوں میں کوئی سرکاری مذہب نہیں ہوتا۔ نظامِ حکومت عوامی نمائندوں کے بنائے ہوئے آئین اور قوانین کے مطابق چلتا ہے اور مذہب ہر ایک کا نجی اور انفرادی مسئلہ ہوتا ہے۔ ہم اسے مغربی حالات کے مطابق عام فہم زبان میں یہ کہ سکتے ہیں کہ چرچ اور ریاست ایک دوسرے سے الگ ہیں اور کاروبارِ حکومت میں چرچ کا کوئی عمل دخل نہیں۔ سیکولرازم کی تین بنیادی ضروریات ہیں، آزادی (liberty) ، مساوات ( equality) اور بھائی چارہ (fraternity).۔ آزادی سے مراد ہے کہ مذہب اور عقائد کے معاملے میں کسی پر جبر نہیں ، مساوات ملک کے ہر شہری کے لئے وسائل تک رسائی کے برابر مواقع مہیا کرتی ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب، رنگ، نسل یا بیک گرؤنڈ سے ہو۔ بھائی چارے سے مراد ہے کہ ہر شخص، گروپ، قبیلہ یا نسل کے لوگوں کو سنا جائے، انہیں معاشرے اور سماج کا حصہ بنایا جائے، کسی کو دیوار سے نا لگایا جائے۔ ملکی ترقی میں سب کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ کسی کے ساتھ اس کی کسی مذہب، قبیلے، فرقے یا نسل کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے نفرت نہ کی جائے۔ سب کومعاشرتی، سیاسی اور اقتصادی دھارے میں شامل ہونے کے یکساں مواقع دیے جائیں۔
مغربی معاشرہ چونکہ صدیوں سے بادشاہت اور چرچ کی ملی بھگت میں چلتا رہا تھا اور چرچ کے بے پناہ اختیارات کی وجہ سے اقتدار کے حصول کے لئے مختلف فرقوں میں خانہ جنگی کی سی کیفیت رہی تھی، جس کی وجہ سے عام لوگوں کے حالاتِ زندگی پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے ۔ لہٰذا عوام نے سیکولرازم کو خوش آمدید کہا۔ اور ظاہر ہے یہ تبدیلی کوئی اتنی آسان بھی نہیں تھی۔ چرچ کی صدیوں تک مکمل اجارہ داری رہی تھی، اس سے آزادی حاصل کرنے کے لئے لبرلز اور سیکولرز کو بہت قربانیاں بھی دینا پڑیں۔ لیکن ان قربانیوں کے نتیجے میں جو پھل ملا، وہ آج کے آزاد مغربی معاشرے کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔ سیکولرازم کم و بیش پچھلی دو صدیوں سے ارتقائی منازل طے کرتا ہواآج کافی حد تک متوازن اور اپنی ترقی یافتہ حالت میں موجود ہے۔ اور ہم شاہد ہیں کہ اس کے بعد وہاں جو ترقی کے در وا ہوئے تو دنیا میں مغرب ترقی یافتہ اور مہذب معاشرے کی شکل میں سامنے آیا اور دنیا کی مضبوظ ترین اقوام اُسی خطے میں ابھر کر سامنے آئیں۔ اس کے بعد وہاں زندگی کے تقریباََ ہر شعبے میں ترقی دیکھنے کو ملی۔ معاشیات، معاشرت، ادب، فن ، گو کہ معاشرہ با حیثیت مجموعی تخریبی دلدلوں سے نکل کر تعمیری بلندیوں کی طرف گامزن ہوا۔
سیکولرازم کا ایک اہم پہلو لبرل سیکولرازم ہے یا اسے صرف لبر ل ازم کہ لیں۔ لبرل ازم کے معانی بہت وسیع ہیں اور ہر معاشرہ میں اس کی بنیادیں بھی مختلف ہیں۔ لبرل ازم درحقیقت ایک سیاسی اور فلسفیانہ اصطلاح ہے جس کے دو بڑے اصول انفرادیت اور آزادی ہیں۔ لبرل ازم فرد کو معاشرے میں مرکزی حیثیت دیتا ہے اور دعوٰی کرتا ہے کے معاشرے کی سب سے اعلٰی اقدار وہ ہیں جو فرد کو مرکزی حیثیت دے کر بنائی گئی ہوں اور دوسرے یہ کہ معاشرے کا مقصد یہ ہے کہ وہ فرد کو اپنی تمام ترصلاحیتیں بروئے کار لانے کی اجازت دے( اگر فرد چاہتا ہے تو) اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ فرد کو ہر ممکن آزادی فراہم کرے۔
یہ وہ کلیدی اصول ہیں جو لبرل ازم کی بنیاد بناتے ہیں۔ جان گرے لبرل ازم کے چار اہم عناصر کی نشان دہی کرتا ہے۔ اور یہ عناصر انفرادیت، مساوات، آفاقیت اور اصلاحیت ہیں۔ ہر فرد کے انسان ہونے کے ناطے حقوق ہیں اور یہ حقوق حکومتی یا سیاسی صوابدید سے بلند ہیں۔ اور یہ حقوق انسان کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ جو مرضی چاہے کرے جب تک کہ اس کے عمل سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ ہو اور یہاں پر حکومت کا کردار یہ ہے کہ وہ افراد کو ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے سے باز رکھے۔ انفرادیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہر انسان کو اپنے فیصلے کرنے کا مکمل اختیار ہے تا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو مکمل طور پر بروئے کار لا سکے اور اس طرح وہ معاشرے کے لئے زیادہ سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہو گا۔ اور اس تصور میں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ ہر فرد عاقل ہے اور مناسب فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مساوات سے مراد یہ ہے کہ ہر فرد کو برابری کی سطح پر اپنا کردار ادا کرنے کے مواقع میسر ہونے چاہئیں،اور سب وسائل تک برابر رسائی حاصل ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام دولت کو افراد کے درمیان برابر برابر بانٹ دیا جائے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ تمام افراد کو مقابلہ کے لئے ایک جیسی فضا مہیا کی جائے۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی دوڑ میں ایتھلیٹس کے لئے برابر کا میدان مہیا کیا جائےنہ کہ اس بات کا انتظام کیا جائے کہ سبھی ایتھلیٹس ایک ہی وقت پر اختتامی لائین کو عبور کریں۔ آفاقیت کا مطلب ہے کہ اخلاقی قوانین کا اطلاق تمام افراد پر ہو اور اصلاحیت سے یہ مراد ہے کہ افراد وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتے چلے جاتے ہیں، لہٰذا ایسا اہتمام ہونا چاہئے کہ انسانی اقدار لوگوں کے اندر ترقی کرتی چلی جائیں اور معاشرتی اور سیاسی اداروں کا ارتقاء ہوتا چلا جائے۔
جن معاشروں نے لبرل ازم اور سیکولرازم کو معاشرتی اور سیاسی زندگیوں کا حصہ بنایا وہاں پر خیالات اور نظریات میں مقداری اختلاف تو موجود رہا اور یہ اختلاف ان نظریات کے عملی پہلوؤں کو مذید بہتر بنانے میں معاون بھی ثابت ہوا اور یہ معاشرے ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے اپنے اندر بہت سی اعلٰی خصوصیات کو سموتے چلے گئے، دوسرے یہ کہ اُن معاشروں میں کیفیتی اختلافات مٹ گئے۔ جس کی وجہ سے وہاں امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوئی اور جمہوریتیں مضبوط ہوتی چلی گئیں۔
لبرل ازم سے وابستہ سوچ نے ہمارے معاشرے کو بھی متاثر کیا۔ باوجود یہ کہ ہمارے حالات بھی کم و بیش اُسی نہج پر ہیں اور کئی دہائیوں سے ہیں جہاں مغرب کے تھے، یہاں بھی مذہبی رواداری، برداشت کی کمی، طاقت کا بے جا استعمال، آزادیوں کی پامالی، ہٹ د ھرمی اور عقائد کی بنیاد پر قتل و غارت کا با زار گرم ہے اور معاشرہ تعمیری کی بجائے، تخریبی سرگرمیوں کی منڈی نظر آتا ہے۔ بظاہر ان حالات میں لبرل سوچ کی آمد خوش آئند ہونی چاہیے تھی۔ لیکن افسوس ناک پہلو یہ سامنے آیا کہ ہمارے لبرلز بھی ویسی ہی سوچ کے حامل ہیں اور یہاں اُن کی موجودگی سے فقط ایک اور انتہا کا اضافہ ہوا ہے۔ ہمیں یہاں لبرلز بالکل ایک مذہبی فرقے کی طرح مذہبیوں کے سامنے صف آراء لگتے ہیں، دلائل اور خندہ پیشانی سے خالی اور قبول کرنے کی صلاحیتوں سے بالکل عاری۔
اگر ہم مندرجہ با لا بحث سے لبرل ازم کی تعریف اخذ کریں تو ’’ لبرل ازم ایک ایسی فلاسفی کے طور پر جانی جائے گی جو آزادی کی دعویدار ہے، یہ آزادی چاہے انفرادی ہو، اجتماعی ہو، اظہار کی ہو، صحافت کی ہو، سوچ اور نظریے کی ہو، مذہبی آزادی ہو، رنگ نسل یا قومیت کی آزادی ہو، اسی طرح لبرل ازم مساوات کی فلاسفی ہے، اس کے مطابق انسان چاہے جس ذات کا ہو، رنگ و نسل کا ہو، عورت ہو یا مرد ہو، مشرق سے ہو یا مغرب سے اُسے برابر کے حقوق حاصل ہیں اور ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کے حقوق کی ضمانت بھی دیتا ہو‘‘۔ مندرجہ تعریف میں آپ کس کو رکھ سکتے ہیں۔ کیا ہمارے ہاں کے لبرلز کسی دوسرے کو آزادئ اظہار کا حق دیتے ہیں۔ کیا یہاں مذہب پر بات کرنے، مذہبی تعلیمات کے متون میں موجود قوانین پر بات کرنے سے یہ سیخ پا نہیں ہو جاتے، چاہے اس کا تعلق لبرل ازم کی حمایت میں ہی کیوں نہ ہو۔ اس سے تو ظاہر ہوتا ہے ہمارے یہاں لبرلز ہیں ہی نہیں۔ یہاں لبرل ازم کے نام پر صرف مذہب مخالف بلکہ انٹی اسلامک جذبات ہیں۔
مذہبی لوگوں کو اس بارے موردِ الزام اس لئے نہیں ٹھہرایا جاسکتا کہ اُن کے ہاں زیادہ تر میں انٹیلیکچوئیل صلاحیت کی شدید کمی ہے، وہ ایک مخصوص پیرائے سے ہٹ کرنہ تو سوچ سکتے ہیں اورنہ اُن کا تعلیمی بیک گراؤنڈ اُنہیں اس کی اجازت دیتا ہے۔ لہٰذا ان کا اپنے عقائد میں پختہ، بنیاد پرست اور ہٹ دھرم ہونا بنتا ہے۔ لبرلز کے ہاں تو یہ ہٹ دھرمی المئے کے طور پر موجود ہے۔ وہ پڑھے لکھے ہونے اور سوچنے سمجھنے اور قبول کرنے میں آزاد ہونے کے باوجود چیزوں کو مثبت انداز سے پرکھنے سے عاری ہیں۔ لہٰذا اُن کے ہاں مذہب سے اور خاص طور پر اسلام سے مخاصمت کے علاوہ کچھ نہیں۔ لہٰذا نتیجہ یہ ہے کہ لبرلز چہ جائیکہ مفاہمت کی فضا بناتے، سب کی آزادی کا خیال رکھتے ہوئے ایک کھلا معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کرتے، اورمغربی تجربہ بھی سب کے سامنے تھا۔ لیکن یہ لوگ مذہب کے ساتھ محاذ آرائی میں آ گئے۔اب ایک انتہا پر مذہبی لوگ ہیں اور دوسری انتہا پر نا م نہاد لبرلز۔ اگر ہم تعلیمات کے حوالے سے دیکھیں تو عیسائیت یا یہودیت کی نسبت اسلام لبرل ازم کے زیادہ قریب ہے۔ اسلام کی تعلیمات میں تو مذہب کے معاملے میں جبر سے منع کیا گیا ہے اور کہا گیا کہ تمہارا دین تمہارے لئے اور میرا دین میرے لئے، یہاں تو لبرلز کو مفاہمت میں مشکل پیش آنی ہی نہیں چاہیے تھی۔۔ دونوں طرف کے لوگ اپنی اپنی تعلیمات سے دورلڑائی کی پوزیشن پر براجمان ہیں۔ دو نئی کیفیتیں جنم لے چکی ہیں۔ معاشرہ تعمیر کی بجائے تخریب کے عمل سے زیادہ گزر رہا ہے اور ارتقائی عمل واپسی کی طرف گامزن ہے۔ ایک اور شیعہ سنی یا احمدی مسلم جیسی محاذ آرائی کی صف بندی ہوتی نظر آ رہی ہے جس میں ایک طرف تمام مذہبی قوتیں صف آرا ہیں تو دوسری طرف لبرلز تلواریں تیز کرتے نظر آ رہے ہیں۔