لائبریری آف کانگریس واشنگٹن میں اردو کی پرانی کتابیں
از، مبشر علی زیدی
لائبریری آف کانگریس ہمارے دفتر سے چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ انڈی پینڈنس ایوِی نِیُو، یعنی شاہ راہِ آزادی کے ادھر ہمارا دفتر ہے اور اُدھر کانگریس بلڈنگ اور اس کے بالکل ساتھ لائبریری۔ وہاں میں پہلے بھی کئی بار جاچکا تھا لیکن آج ریڈرز کارڈ بنوانے گیا۔
کارڈ کی کوئی فیس نہیں۔ رجسٹریشن کے کمرے میں جا کر کہیں کہ میں کارڈ بنوانا چاہتا ہوں، ایک کمپیوٹر پر تفصیلات درج کریں۔ ایک خاتون آپ کی تصویر کھینچیں گی اور کارڈ پرنٹ کر کے آپ کے حوالے کریں گی۔ لیجیے، آپ دنیا کے سب سے بڑے کتب خانے کے با قاعدہ رکن بن گئے۔
میں نے چند دن پہلے لائبریری کو ای میل کی تھی کہ اردو کا شعبہ اور کچھ کتابیں دیکھنا چاہتا ہوں۔ کس وقت آؤں اور کس سے ملوں؟ شارلٹ بی بی کا جواب آیا کہ اردو کا شعبہ میں دیکھتی ہوں۔ جب جی چاہے، آ جائیں۔ لیکن پہلے کارڈ بنوا لیں۔
میں کارڈ بنوا کر ایشیائی ریڈنگ روم پہنچا تو معلوم ہوا کہ شارلٹ بی بی کسی میٹنگ میں ہیں۔ استقبالیہ پر چینی خاتون تھیں۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ جہاں جی چاہے، وہاں بیٹھ کر انتظار کر لیں۔
ہال میں دو تین پڑھاکُو قسم کے نو جوان مطالعے میں غرق دکھائی دیے۔ میں نے کئی الماریوں کا معائنہ کیا۔ ان میں نمونے کے طور پر چند سو کتابیں تھیں۔ جنوبی ایشیاء کی الماریوں میں اردو کی تین چار ہی کتابیں پائیں۔ قرآنِ پاک کا ترجمہ اور تاریخِ ہندوستان وغیرہ۔ ایک کتاب بالی ووڈ فلم پوسٹرز کی ملی۔ اسے دیکھ کر جی بہلایا۔
چینی خاتون کو یہ بات پسند نہیں آئی کہ میں خوب صورت ہندوستانی لڑکیوں کی تصویریں دیکھ دیکھ کر انھیں نظر کیوں لگا رہا ہوں؛ یا شاید انھوں نے سوچا کہ مجھے ہندی سے بھی دل چسپی ہے۔ چُناں چِہ انھوں نے ہندی شعبے کے انچارج جوناتھن صاحب کو فون کر کے بلا لیا۔
جوناتھن صاحب نو جوان آدمی ہیں اور انتہائی خوش اخلاق؛ انھوں نے بہت خاطر کی۔ مجھے بتایا کہ شارلٹ نے انھیں میری ای میل دکھائی تھی اور وہ میرے منتظر تھے۔ انھوں نے پوچھا کہ کون سی کتاب تلاش کر رہے ہیں؟ میں نے بتایا کہ کوئی ایک کتاب نہیں چاہیے۔ جس طرح رضا علی عابدی صاحب نے برٹش لائبریری سے پرانی پرانی کتابیں ڈھونڈ کر بی بی سی پر سیریز کی تھی، میں اسی طرح آپ کے کتب خانے سے پرانی پرانی کتابیں تلاش کر کے وائس آف امریکا پر سیریز کروں گا۔
جوناتھن صاحب وائس آف امریکا کا نام سن کر خوش ہوئے۔ حیرت انگیز طور پر انھیں اردو کے شعبے سے متعلق تفصیلات کا علم تھا اس لیے میرے تمام سوالات کے جواب دیے۔ لائبریری میں اردو کی کتنی کتابیں ہیں، کون کون سی بلڈنگ میں ہیں، کتنے مخطوطے ہیں، کتابیں کب سے جمع کی جا رہی ہیں۔ میں نے شکایت کی کہ آن لائن سرچ کا نظام پیچیدہ ہے۔ انھوں نے تسلیم کیا، لیکن مجھے ایک دو گُر سکھائے کہ مطلوبہ شے آسانی سے کیسے تلاش کی جا سکتی ہے۔
میں نے کہا، ایسا لگتا ہے کہ اردو کی زیادہ پرانی کتابیں آپ کے پاس نہیں؛ وہ مسکرائے۔ کہنے لگے کہ پرانی کتابیں اردو کے نام سے مت ڈھونڈیں۔ پرانی کتابیں ہندوستانی زبان کے نام سے محفوظ کی گئی تھیں کیوں کہ اس وقت اردو کو یہی نام دیا جاتا تھا۔
ہمارے باس کوکب فرشوری صاحب نے بتایا تھا کہ شعبۂِ اردو میں پہلے ایک خاتون نزہت ہوتی تھیں۔ میں نے پوچھا کہ نزہت کہاں ہیں؟ جوناتھن میاں نے بتایا کہ وہ ریٹائر ہو چکی ہیں۔ کبھی کبھی آتی ہیں اور شاید رضا کارانہ طور پر مرکزی استقبالیہ پر بیٹھتی ہیں۔
شارلٹ بی بی مزید ایک گھنٹے تک مصروف تھیں اس لیے میں نے اجازت چاہی۔
جوناتھن صاحب نے مشورہ دیا کہ آن لائن کیٹَلاگ سے کتابیں سرچ کر کے ایک دن پہلے انھیں ای میل کر دوں تو وہ میرے لیے ان کتابوں کو استقبالیہ پر رکھوا دیں گے۔ ان کا بھی وقت بچے گا اور میرا بھی۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اپنا کوٹ سنبھال کر باہر نکل آیا۔
باہر شدید ٹھنڈ تھی۔ لیکن جب آپ اندر سے خوش ہوں تو باہر کا موسم اثر انداز نہیں ہوتا۔ سرد ہوا میں اڑتے ہوئے پتّے بھی رقص کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ دفتر تک چہل قدمی کرنا اچھا لگا۔