(شیخ محمدہاشم)
جھوٹ، جھوٹ ہوتا ہے ،جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ،جھوٹ بدترین گناہ ہے ،کسی بارے میں خلاف حقیقت خبر دینے کو جھوٹ کہا جاتا ہے۔ یہ سبق زندگی کے تدریسی عمل کے دور میں ہمیں اساتذہ دیا کرتے تھے اور تقریباً روزانہ ہمیں اُن واقعات سے گزرنا پڑتا تھا جس میں تھوڑا بہت، ہم سمیت ہماری جماعت کے ساتھی، ہمارے دوست جھوٹ بولنے میں ملوث ہو جایا کرتے تھے ،کبھی سبق یاد نہ کرنے کی صورت میں ،کبھی گھر کا کام مکمل نہ ہونے کے باعث تو کبھی تاخیر سے اسکول پہنچنے کی وجہ سے ،یہ زندگی بھر کا مشاہدہ ہے کہ جھوٹ کی وجہ سے کبھی کامیابی کا سامنا نہیں ہوا، بلکہ ہمیشہ خفت وشرمندگی کا سامناہی کرنا پڑاہے۔
یہ سوال ہمارے ذہن کے ننھے دریچوں میں ہمیشہ کلبلاتا رہتا تھاکہ آیا جھوٹ کے ذریعے کامیابی کیوں حاصل نہیں ہو تی ،کیوں ہمیشہ جھوٹ بولنے کے بعد شرمندگی اور خجالت کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ جوں جوں تدریسی عمل آگے بڑھتا گیا ذہن کے اسکرین کو وسعت ملی توعلم کی روشنی اور جستجو کی تمنا اُن دریچوں میں داخل ہونا شروع ہوئی ، نتیجہ یہ ہی برآمد ہوا کہ جب جھوٹ بولنے کو اللہ اور کائنات کے تسلیم شدہ اعلیٰ سیرت یافتہ اللہ کے رسول، ہمارے پیارے نبی ﷺنے جھوٹ کے عمل کو گھناؤنا عمل اور شرمندگی کا باعث قرار دے دیا ہے تو جھوٹ کے ذریعے کامیابی کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔
آج کل وہی درج بالا سوال ہمارے ذہن میں دوبارہ ارتعاش پیدا کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ تفکرات میں بھی اضافہ کررہا ہے کیونکہ سوال کی نوعیت تبدیل ہو چکی ہے۔سوال یہ ہے کہ جب ریاستی سطح سے جھوٹ بولا جائے گا اور اُس کے اثرات معاشرے پر مرتب ہونگے اور جب ہم من حیث القوم جھوٹ جیسے گناہ کبیرہ کو گناہ سمجھنا چھوڑ دیں گے ۔سچائی کو جھٹلائیں گے جھوٹ کو فروغ دیں گے ۔جھوٹ بولنے پر نتیجہ شرمندگی ہو گی لیکن شرمندہ نہیں ہونگے۔ہر شعبے میں جھوٹے اور باتونی چارہ گروں کا انتخاب کریں گے تو کیا ایسا معاشرہ خیر کا معاشرہ ہوگا،ایسے معاشرے کا مقدر کیا ہوگا، انجام کیا ہو گا؟
دور حاضر میں جھوٹ کی تربیت گھر کی چہار دیواری سے ہی شرو ع ہو جاتی ہے جب گھر کا سربراہ اپنے بچے کو یہ کہہ رہا ہو کہ “جاؤ انکل سے کہہ دو بابا گھر پر نہیں ہیں”اس جھوٹ پر مبنی عمل کو بارہا دُہرانے سے بچے کی جھوٹ بولنے کی عادت پختہ ہوتی چلی جاتی ہے تو وہ جھوٹ کو چالاکی اور مفید عمل سمجھنے لگتا ہے پھر وہی بچہ بڑا ہوکر معاشرے میں جھوٹ کے پھیلاوٗ کا ذریعہ بن جاتاہے اور آج کا معاشرہ اُسی تربیت کی دین نظر آرہا ہے ۔آج ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے فرد میں وہ بچہ پختگی کے ساتھ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی فخریہ انداز میں کوشش کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ جھوٹ کی امر بیل سے ہر شخص لپٹا اور اسکی کیچڑ سے لتھڑا نظرآرہا ہے جھوٹ کو (اُم الخبائث)ہر برائی کی ماں کہا گیا ہے ۔کرپشن ورشوت ستانی اور ان جیسی خوفناک بُرائیوں کا جنم اسی ماں کے کوکھ سے ہوتا ہے ۔
ہمارے پیارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کو جو بڑی قربانیوں کے عوض اس مقصد کے تحت حاصل کیا گیا تھا کہ اس مسلم ملک کو تمام مسلم ممالک بلکہ دُنیا کے ایک عظیم الشان ملکوں کی صف میں کھڑا کر کے دکھائیں گے۔ آج ہر سو جھولتے ،لہلہاتے کھیتوں والے اس زرعی ملک کو جھوٹ و فریب پر کھڑی فصل کا سامنا ہے۔چمکتے دمکتے دیو ہیکل معدنیات سے بھرے پُر ے پہاڑوں والے ملک کو ایسے سنگدل افراد کا سامنا ہے جو اُٹھتے بیٹھتے ،سوتے جاگتے سازشوں کے جال بننے کے عادی ہیں۔اس ملک کی سر زمین ،لہلہاے کھیتوں اور معدنیات سے مالا مال ہے جو تا حیات توانائی کے بحران کا خاتمہ کر سکتی ہے بلکہ ہمارے ملک کی ترقی کا ضامن بھی ہیں۔ لیکن ا س پاک سرزمین کو فلاح وبہبود کے نام پر قرض لے کر گروی رکھنے والے، عیاشی کرنے والے شہنشاہوں کا سامنا ہے۔ایک فرقے سے وابسطہ شخص دوسرے فرقے کی کبھی مدد نہیں کرے گا چاہے وہ کتنا ہی مظلوم کیوں نہ ہو ۔ایک پارٹی کا شخص دوسری پارٹی کے شخص کی کبھی حمایت نہیں کرے گا خواہ وہ کتنا ہی سچا ،ایماندار اور مخلص کیوں نہ ہو۔
“کرے مونچھوں والا پکڑا جائے داڑھی والا “کے مصداق نظام کو رواں رکھا ہوا ہے ۔ کاروبارجھوٹ بول کر کیا جا رہا ہے۔خوردونوش کی اشیاء میں ملاوٹ کا رحجان پروان چڑھ چکاہے۔ مظلومیت کا روپ دھار کر گداگری میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔کم تولنا،فراڈ کرنا ،لوٹ کھسوٹ کو چالاکی ،سیاناپن سمجھا جارہا ہے ۔وسائل کا بے دریغ استعمال اپنے ذاتی مفاد کے لئے کیا جارہا ہے ،علماء حضرات ماضی کو سینے سے لگائے حال کے تقاضوں کو نظر انداز کرتے نظر آرہے ہیں۔
حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:حضور اکرمﷺ فرماتے ہیں کہ:”میں تمھیں بے وقوف لوگوں کی سرداری سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں دیتا
ہوں”۔۔حضرت کعبؓ نے پوچھا !”یا رسول اللہ وہ کیسے لوگ ہونگے”۔آپﷺ نے فرمایا “وہ جھوٹ کی تصدیق نہیں کرینگے،وہ مظلوم کی مد دنہیں کرینگے،وہ حوض کوثرمیں میرے ساتھ نہیں ہونگے،جو لوگ جھوٹ کا ساتھ دیں گے،مظلوم کی مد د نہیں کریں گے وہ ہم میں سے نہیں ہونگے”۔۔پھر ہم کیوں اُمید رکھیں کہ ہماری خیر ہوگی۔پھرہم کیونکر سوچ لیں کہ ہماری فلاح ہوگی۔جب ہم فریبوں کے جال میں پھنسے ہوں،جب جھوٹ کی امر بیل نے ہمیں مکمل طور سے جکڑا ہوا ہو تو خیر کی اُمیدوں کے بجائے ہمیں اللہ سے پناہ مانگنے کی ضرورت ہوگی۔