لکھاری اور پستک
شیراز بشارت خان
اک عرصہ بیت گیا تھا پستک کو پستک شالے میں کام کرتے ہوئے۔ بے چاری سارا دن وقت کو دھوکا دینے میں گزار دیتی۔ کبھی بھولے سے جو ایک آدھ ناظِر کتب خانے میں آہی جاتا تو جھٹ سے سامنے جا کھڑی ہوتی اور تب تک گھورتی رہتی جب تک کہ ناظر خجالت کھینچتے وہاں سے بھاگ نہ نکلتا۔ دن بدن کتب خانہ اس کے لیے ایک قید خانہ بنتا جا رہا تھا اور قیدِ تنہائی کی سزا نے اس کی تمام امیدیں توڑ ڈالی تھیں۔
نومیدی کے اس دور میں پستک کا والد، جسے زمانہ لکھاری کے نام سے جانتا تھا، کبھی کبھی ملاقات کو آیا کرتا۔ ایک دن لکھاری سے گلہ کرتے ہوئے پستک بولی “باپو رے کہاں وہ زمانہ تھا کہ تو روز میرا حال معلوم کرتا تھا اور کہاں اب یہ زمانہ ہے کہ تو اگر کبھی آتا ہے تو صرف یہ دیکھنے کہ میں زندہ بھی ہوں کہ نہیں”۔ لکھاری نے نیم شرمندگی میں جواب دیا “بیٹی جہاں تجھے دیکھ کر دل کے اک کونے میں خوشی ہووے ہے، کم بخت وہیں دوسرے کسی کونے میں خون کے آنسو رووے ہے۔ کئی بار ناظر آتے ہیں اور تجھے ایک نظر دیکھ کر چلے جاتے ہیں، اب بس دعا ہے کہ کوئی متجسس آئے اور تجھے اپنا کر کے لے جائے”۔
پستک: ” باپو تیری ملحدانہ سوچ تو مدہم ہوتی دکھائی دے رہی ہے، تو کب سے خدا سے دعا کرنے لگا؟”۔ لکھاری: “بیٹی، زندگی کی چَکی میں پستے پستے اب جو دکھ بھری گھمر کی آواز سنتا ہوں تو یہ دل میں پوشیدہ سا احساس دلاتی ہے کہ کوئی تو ہے جس کے آگے شکستہ حال ہو کر میرا دم توڑنے کو جی چاہتا ہے۔”
اس دن لکھاری کی درد بھری صدا شاید آسماں پر بیٹھی اس ہستی تک کوئی فرشتہ پہنچا ہی گیا۔ کچھ دنوں بعد پستک حسبِ معمول کتب خانے میں بیٹھی غور و فکر میں مبتلا تھی کہ یک دم قاری حال میں داخل ہوا۔ قاری ایک مست حال اور دل پھینک قسم کا آدمی تھا، اور اپنی ہی قوم کا ایک فرد ہونے کے ناتے قطعی طور پر مستقل مزاج نہ تھا۔ تو بس صاحب ہونا کیا تھا، جیسے ہی قاری کی نظر پستک پر پڑی وہ حیرتِ عشق کی کیفیت میں مبتلا ہو گیا۔ ظاہر کو دیکھ کر باطن کا اندازہ لگایا اور اگلے ہی لمحے بلا جھجھک قاری نے پستک سے اپنے عشق کا اظہار کر ڈالا۔ برسوں سے انتظار میں بیٹھی پستک نے بغیر کسی توقف کے اس کا اظہار قبول کر لیا اور نہ صرف قبول کیا بلکہ اسی دن قاری اس کو بیاہ کر اپنے ساتھ گھر لے گیا۔
دونوں کے لیے اک نئے، پر مختصر، دور کا آغاز تھا۔ چند دن تو قاری نے کوشش کی پر کم بخت نالائقی اس حد تک تھی کہ ابھی وہ پستک کو تھیک سے جان بھی نہ پایا تھا اور ترکِ تعلق کر بیٹھا۔یہ عشق نہیں تھا، بس ایک چند روزہ شوق تھا۔ پستک جب کتب خانے میں ہوتی تھی تو کم از کم کوئی ناظر آکر ایک نظر دیکھ جاتا تھا، پر یہاں قاری جو اس کو لایا تھا سمجھنے، سمجھنا تو دور کی بات اب ایک نظر بھی نہ ڈالتا تھا۔ وہ سارا دن پژمردگی کی حالت میں بسترے پر پڑی رہتی۔ لکھاری کو جب اس بات کا علم ہوا تو طیش میں جا کر پستک کو اپنے ساتھ گھر واپس لے آیا۔ اس واقعہ کے بعد لکھاری نے پستک کو کئی مختلف امیدواروں کے ساتھ بھیجا پر ہر باری وہ ناکام واپس لوٹتی۔ وہاں وقت کٹنے کو کٹے جا رہا تھا اور یہاں پستک کا کلیجا پھٹنے کو آرہا تھا۔
لکھاری بیماری میں مبتلا اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا اور اندر ہی اندر اسے یہ بات کھا گئی کہ اس کے بعد پستک کا کوئی خیال رکھنے والا نہ ہو گا۔ پریشانی کے اس عالم میں اس نے ایک دہشت انگیز سوچ کو قبول کیا اور عمل کرنے نکل پڑا۔ رات پڑی تہ وہ پستک کو کام کے بہانے اپنے ساتھ دریا کے کنارے لے گیا۔ نہ کوئی بات، نہ کوئی رنج و الم کا اظہار، بس اس بوج کو اتارنے کی جلدی میں اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی پستک کو دریا میں پھینک دیا۔ واپسی پر گھر لوٹتے ہوئے لکھاری کے آنسو بھی اسی تیز رفتاری سے چل رہے تھے جس تیز رفتاری سے وہ آپ چل رہا تھا۔ ایسے میں وہ اپنی کال کوٹھڑی کو لوٹا، آخری غسل کیا اور بسترے پر لیٹ گیا۔ وہ جانتا تھا کہ آج اس کی آخری رات ہے۔ ایک اندھیرے سے نکل کر دوسرے اندھیرے میں جانے کے واسطے اس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور اگلے ہی لمحے دم توڑ گیا۔ لکھاری تو کوچ کر گیا لیکن پستک کے لیے رب نے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔
ایک طرف دریا کے پیچ و خم تھے اور دوسری طرف پستک کی زندگی کے۔ بے ہوشی میں بہتے ہوئے وہ دریا کے ایک کنارے سے آن ٹکرائی۔ کنارے پہ دو چار گھروں پر مشتمل ایک چھوٹی سی ڈھوک تھی، جسے آج بھی لوگ اِحیا کی ڈھوک کہتے ہیں۔ طالب نامی ایک لڑکا وہاں بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا جب پستک وہاں پہنچی۔ قصہ مختصر طالب اسے بازو کے گاؤں میں ایک نامور طبیب کے پاس لے گیا۔ طبیب کا نام عاقل تھا۔ اس نے پہلی نظر جب پستک کو دیکھا تو ایک خاص کشش محسوس کی اور جان گیا کے بیمار کا حال صرف ظاہر سے ہی نہیں بلکہ اندر سے بھی برا ہے۔ عاقل کے کارگر نسخے نے دھیرے دھیرے اپنا کام کر دکھایا۔
ظاہر سے پستک مکمل صحت یاب ہو گئی لیکن عاقل کی نظر میں باطن پر ابھی کچھ کام باقی تھا۔ دونوں میں خوب بحث ہوتی، عاقل آتے جاتے اٹتھے بیٹتھے پستک کو پڑھتا رہتا یہاں تک کہ پستک اب لاشعوری طور پر اس کی زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکی تھی۔ وہ مختلف ادبی محافل میں پستک کو ساتھ لے کر جاتا، تعارف کراتا اور پھر اگلے مرحلے میں وہ اپنے جادو سے سب کچھ خود ہی سنبھال لیتی۔ گاؤں سے شہر اور شہر سے پورے ملک میں اب پستک کا ایک نام بن چکا تھا۔ جب بھی اس کا ذکر چھڑتا تو لوگ ساتھ میں لکھاری کی خوب تعریف و توصیف کرتے۔ وہ جہاں بھی جاتی لوگ کہتے کہ لکھاری نے کیا خوب تراشا ہے۔
عرصہ بیت گیا تھا اس شہرت کو،ایک دن عاقل اور پستک اسی دریا کے کنارے بیٹھے تھے جہاں سے پستک کی نئی زنگی کا آغاز ہوا تھا۔ عاقل نے پوچھا “لکھاری نے اتنی محنت کی تمہیں بنانے میں، جب خیال آتا ہے تو کیا سوچتی ہو اس کے بارے میں؟” ۔ پستک: “بس سوچتی ہوں کے باپو کیا کمال کر گیا ہے، افسوس ہوتا ہے کہ پذیرائی سے پہلے انتقال کر گیا ہے۔ انہی لوگوں میں جب وہ حیات تھا تو نیچ ذات تھا، اب وہ مر گیا ہے تو دلوں میں اتر گیا ہے۔ یہ لوگ، یہ زندگی، یہ لمحے، یہ خدا، یاس و غم میں رہا یہاں جب تک رہا۔ خیر حقیقت تو یہ ہے کہ زندگی اسی کا نام ہے، بس خوشی اس بات کی ہے کہ میرے وسیلے سے لوگ لکھاری کو یاد رکھتے ہیں، اور رکتھے رہیں گے۔ ناجانے لکھاری کی طرح کے اور کتنے مایوس لوگ ہوں گے اس دنیا میں، لیکن امید ہے کہ جب وہ میری اس کہانی کو سنیں گے تو ان کہ اندر دوبارہ سے ایک نئی امید جنم لے گی”۔