(ڈاکٹر شاہد صدیقی)
نوٹ: مضمون کا انگریزی متن دی نیوز اخبار کے اس لنک پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ (مترجم: یاسر چٹھہ)
ابھی کچھ دن پہلے ساہیوال کے ایک تعلیمی ادارے نے اپنے طلباء کو اسکول کے اندر اور باہر نا مناسب زبان کے استعمال سے باز رہنے کے متعلق ہدایت نامہ جاری کیا۔ اس متذکرہ نوٹ نے بدکلامی اور بیہودہ زبان کی مزید تشریح کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایسی زبان ہے جس میں دوسروں کو چڑانے والے الفاظ، گالیاں، پنجابی اور منافرت پر مبنی باتیں شامل ہوں۔ ستم ظریفی والی بات تو یہ ہے کہ ایسا ہوا بھی تو کس علاقے میں! حیران کن طور پر یہ ساہیوال ایسا علاقہ تھا جہاں برطانوی سامراج کے خلاف سب سے تگڑی مزاحمتی آواز سننے کو ملی تھی۔ یہ آواز احمد خان کھرل کی تھی جنہوں نے اپنی جان کی قربانی دے ڈالی، لیکن برطانوی راج کے سامنے سرنگوں نہیں ہوئے۔
اس چیز کی مزید اہمیت جتلانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ کہ پنجابی زبان سے روا اہانت آمیز سلوک کے متعلق ایک سنجیدہ علمی تجزیئے کی اشد ضرورت ہے۔ زیریں سطور اسی انتہائی ضروری سلسلے کی جانب ایک مقدور بھر کوشش ہے۔ یہ مضمون زبان کے تصور اور اس کے مناصب کو نہایت واضح انداز میں بیان کرنے کی ایک سعی ہے۔ مزید یہ کہ اس مضمون میں کسی زبان اور اس کے بولنے والوں کے آپسی ربط و تعلق، اس عمومی اسطورہ کہ ایک زبان کا کسی دوسری زبان سے بہ نسبت بر تر ہونے کا احتمال موجود ہوتا ہے، ان چیزوں کا باہمی ربط کہ کوئی زبان اپنے تئیں کتنی جاندار ہے، اور اس کو تعلیمی اداروں سے کس قدر علمی سہارا و آسرا میسر ہے، اور پنجابی اشرافیہ کی جانب سے اپنی زبان پنجابی سے شعوری کنارہ کشی کو واضح الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔
زبان کے متعلق روایتی نقطئہ نظر اس احتمال پر مبنی ہے کہ یہ صرف کسی بھی پیغام کے ابلاغ کا آلئہ کار ہے، اور یہ محض مجہول، غیر جانبدار، اور سیاست سے ماورا مظہر ہے۔ یہ روایتی تصور زبان اس بنیاد پر بھی اپنے آپ کو استوار کرتا ہے کہ چند مخصوص زبانیں فی نفسہ کچھ دوسری زبانوں سے برتریں درجے پر فائز ہوتی ہیں۔ لیکن اس نقطئہ نظر کو سیپئر (Sapir) اور وارف (Whorf) نے البتہ مکمل طور پر یہ کہہ کر چیلنج کردیا ہے کہ زبان کسی طور پر بھی غیر جانبدار اور مجہول سماجی مظہر نہیں۔ بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ زبان کئی حدیں پار کرتی ایک ایسی سیاسی حقیقت ہے جو نا صرف سماجی و معاشرتی حقیقت کی تشکیل کاری کرتی ہے، بلکہ پہلے سے تشکیل شدہ سماجی حقیقتوں کے سلسلے کو آگے سے آگے بڑھانے اور منتقل کرنے کا کام بھی کرتی ہے۔
اس حقیقت کا ادراک کرنا انتہائی اہم ہے کہ کسی زبان کے بولنے والوں کے سماجی مقام و مرتبے، اور ان کے زیر استعمال زبان کا باہمی مثبت اثر پذیری پر مبنی تعلق اور واسطہ ہوتا ہے۔ اگر کسی زبان کے بولنے والوں کا سماجی مقام و مرتبہ عالی (سمجھا جا رہا) ہے، تو اسی طرز پر ان کے زیر استعمال زبان بھی تگڑی ہی سمجھی جاتی ہے۔ یہ بات اس حقیقت کی وضاحت کر رہی ہے کہ کوئی بھی زبان فی نفسہ بدتر یا بر تر درجے کی حامل نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ سارے ناپ تول اور اونچ نیچ کے پیمانے تو اس زبان کے بولنے والوں کے اپنے سماجی مقام و مرتبہ کے رہین منت ہوتے ہیں۔ بلکہ سچ تو ہے کہ تمام زبانیں ایک جیسی اہمیت کی حامل ہیں، اور یہ سب کی سب مساوی طور پر لائق تکریم و عزت ہیں۔
پنجابی زبان تو تقسیم ہندوستان کے وقت سے کہیں پہلے ہی سے سماجی، سیاسی، اور معاشی حالات کی ستم رسیدہ رہی ہے۔ متحدہ ہندوستان میں شاہی سرپرستی کی وجہ سے فارسی طاقت کے سنگھاسنوں پر براجمان حلقوں کی زبان بن گئی، اور یہ شاہی درباروں میں مستعمل ہوگئی۔ اپنے ذخیرۂ الفاظ اور ساخت کی رو سے اردو زبان فارسی سے بہت قریب تھی۔ معنوی لحاظ سے اس کا پنجابی زبان سے تعلق بھی بہت نزدیکی نوعیت کا تھا۔ اس کے علاوہ اردو اور ہندی بھی باہمی طور بہ آسانی سمجھی جا سکتی تھیں۔ اردو کی ان گونا گوں خصوصیات کی وجہ سے یہ زبان برصغیر کے بعض حصوں میں بالعموم، اور مسلمان طبقات کے اندر بالخصوص شرف قبولیت حاصل کرتی گئی۔
مزے کی بات یہ ہے کہ انگریزوں نے سندھ میں تو فارسی کی جگہ سندھی رائج کردی، لیکن حیران کن طور پر انہوں نے پنجاب میں فارسی کی جگہ پنجابی کو لاگو نا کیا۔ بلکہ ہوا یوں کہ پنجاب میں فارسی کی جگہ اگر کسی زبان نے لی تو وہ اردو تھی۔ انگریزوں نے اس کی ایک وجہ تو یہ قرار دے دی کہ اردو زبان دراصل پنجابی کی ہی ایک نفیس تر اور ستھری نتھری شکل ہے۔ پنجابی کو ایک محض ایک بولی یا کمتر سماجی درجے کے لوگوں کی زبان کے طور پر دیکھے جانے کا چلن رہا۔ اس بات کو ذہن نشین کرنا اہم ہوگا کہ عہد حاضر میں زبانوں کی معیار کاری کرتے وقت ان کی لسانی خوبیوں خامیوں کا پاس نہیں رکھا جاتا، بلکہ ہوتا یہ ہے کہ ان کے مقام و مرتبہ کا تعین سماجی، سیاسی اور معاشی اساسات پر مبنی ہوتا ہے۔
تحریک پاکستان کے دوران زبانیں بطور سیاسی تشخص کے تشکیل کار کے طور پر برت میں رہیں۔ ہندی، اردو اور پنجابی کو ہندوستان کے تین بڑے آبادی کے گروہوں بالترتیب ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کے ساتھ نتھی کیا جاتا رہا۔ اس سہل پسندی کی شاخسانہ تقسیم کا (جسے فی الحقیقت سیاسی تقسیم کہنا ہی درست اور قرین انصاف ہوگا) راست نشانہ اگر کوئی زبان بنی تو وہ پنجابی تھی۔ ایسے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد، گوکہ جن کی مادری زبان پنجابی تھی، نے اسے سیاسی، سماجی اور معاشی بنیادوں پر ترک کردیا۔
اس سلسلے میں ایک اور توجہ طلب نکتہ یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی زبان کسی کی انفرادی اور قومی سطح پر بڑی اہم شناختی علامت بھی ہے۔ سنہ 1947 میں آزادی کے بعد جب قومی زبان کے سوال نے سر اٹھایا تو اردو کو اس بنا پر، کہ اس سے تحریک پاکستان کے دوران مسلمانوں کی جذباتی وابستگی منسلک ہو چکی تھی، اسے بطور قومی زبان منتخب کرلیا گیا۔ کثرت استعمال کی حامل دو زبانیں، یعنی بنگالی اور پنجابی البتہ اس حیثیت کو حاصل نا کر سکیں۔
بنگالیوں کی جانب سے بنگالی کو بھی بطور ایک اور قومی زبان بنانے کا مضبوط مطالبہ پیش کیا گیا۔ لیکن پنجابی کے حق میں اس طرح کا کوئی مطالبہ پنجابی آبادی کی طرف سے سامنے نہیں لایا گیا۔ اس سلسلے میں ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے فوج میں غالب حصہ اہلیان پنجاب کا تھا۔ اس حیثیت سے وہ طاقت کے مراکز کے قرب و جوار ہی میں تھے۔ پنجابی اشرافیہ مرکزی دھارے کے طاقتور گروہوں کا ہی حصہ رہنا چاہتی تھی اور اس عمل کے دوران انہوں نے اپنی زبان کو ہی ترک کر دیا۔
یہ بات کس قدر حیران کن ہے کہ سندھی زبان سندھ کے اسکولوں میں بطور مضمون پڑھائی جاتی ہے۔ اس طرح پشتو بھی خیبر پختواہ کے کچھ اسکولوں می بطور مضمون درس و تدریس کے عمل کا حصہ ہے۔ مگر پنجابی کبھی بھی اسکولوں کی تعلیم کا حصہ نہیں رہی ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا پنجابی زبان کے اپنے لسانیاتی درون میں کوئی ایسا ویسا سقم ہے؟ اس سلسلے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسے احوال کی غالب وجہ ان لوگوں کا ایسا سماجی و معاشرتی رویہ ہے جس کے تحت انہوں نے پنجابی کو روزمرہ زندگی کے عام اور معمولی اہمیت کے مناصب ہائے زبان کے ساتھ منسلک کر کے رکھ دیا ہے۔ اپنی زبان کو ترک کرنے کا چلن ان پنجابی شہری علاقوں کے باسی گھرانوں میں عام ہے جو اپنی اولاد سے اردو محض اس لئے بولتے ہیں کہ اسے وہ (نسبتا) معتبر تر اور عزت و تکریم کی حامل زبان سمجھتے ہیں۔
اس بات کا خدشہ ہے کہ پنجاب کے خاندانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اگلی دو نسلوں میں پنجابی مطلقا بھلا بیٹھے گی۔ ابتدائی تعلیم کے سلسلے میں مادری زبان کی انتہائی اہمیت کے متعلق کتنی ساری تحقیق اور مطالعات میسر ہیں۔ اگر ہم پنجابی کی بازیافت کرنا ہی چاہتے ہوں تو ہمارے لئے اسے اسکولوں میں بطور مضمون پڑھا کر تعلیمی آسرا فراہم کرنے کا پہلا اقدام کرنا از حد ضروری ہوگا۔ اسکولوں میں اس بات کی تعلیم دینا اشد ضروری ہے کہ کوئی بھی زبان فی نفسہ کم تر اور بر تر نہیں ہوتی۔
تمام زبانیں مساوی درجے کی ہوتی ہیں اور سب کی عزت کی بھی جانا چاہئے۔ مزید یہ کہ کم از کم صوبائی سطح پر زبان کی ترویج و ترقی کے لئے سرکاری سرپرستی کی ضرورت ہے۔ اس بات کو جان لینا بھی بہت اہمیت کا حامل ہوگا جو ہمارے دستور پاکستان کا آرٹیکل 251 کسی صوبائی زبان کی تعلیم و ترویج کے سلسلے میں کسی طور پر لئے جانے والے اقدامات کے بابت کہتا ہے:
“قومی زبان کی حیثیت کو گہنائے بغیر، باضابطہ قانون کے ذریعے کوئی صوبائی اسمبلی قومی زبان کے ساتھ ساتھ کسی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال میں لائے جانے کے متعلق اقدامات لے سکتی ہے۔”
اب صوبائی اسمبلیوں کے کاندھوں پر یہ ذمے داری آن پڑتی ہے کہ وہ اپنے متعلقہ حلقئہ اثر کے علاقوں میں مقامی زبانوں کی تعلیم و ترقی کے سلسلے میں قانون سازی کریں۔