لسان، لسانی فلسفہ اور آفاقی گرائمر : ادریس آزاد سے کچھ استفسارات
(قاسم یعقوب)
گذشتہ صدی میں زبان کاسماجی، نفسیاتی اورتخلیقی کردار سب سے بڑا فلسفہ تھا جو فی الحال، اب تک کی سب سے بڑی فلسفیایہ ایجاد ہے۔ زمانۂ یونان سے انیسویں صدی تک فلسفے کی معروف بحثوں میں علمیات کوہی خاص اہمیت حاصل تھی۔
بیسویں صدی میں سوسیئر کی ساختیاتی لسانیات سے فلسفے نے ایک نئی کروٹ لی۔ سوسیئر نے زبان کو ہر انسانی سرگرمی کے مرکز میں لا کھڑا کیا۔ سوسیئر کی سوسیرئین لسانیات زبان کو انسان اور معروض کے درمیان موجود outerکو واحد ذریعہ مانتی ہے جہاں زبان کا کردار واحد اور سماجی ہے۔ یعنی انسان کا اپنے معروض پر کلی دارومدار اور رابطہ زبان کے ذریعے ہے۔ ایک وہ معنی جوبراہِ راست حسیاتی سطح پر ذہن اور تعقل میں تیار ہوتا ہے اور ایک وہ معنی جوزبان کے ذریعے ذہن اور تعقل میں لایا جاتاہے۔ پہلی صورت میں زبان کا براہِ راست کردار نہیں ہوتا ہے، وہاں outerسے کوئی تصور، شبیہ یا حس ____تفکر، جذبے یا تعقل کو مہمیز کر سکتی ہے مگر سماجی outer ایک ذہن سے دوسرے ذہن تک معنی کی منتقلی ہے جوکسی بھی صورت ایک میڈیم کے بغیر ممکن نہیں۔ ذہن میں موجود ایک معنی دوسرے ذہن تک کیسے منتقل ہو سکتا ہے؟ کوئی معنی خود بخود اُڑ کرتو منتقل نہیں ہو سکتا۔ کوئی میڈیم تو درکار ہوگا جو معنی کی منتقلی کا باعث بنے۔ وہ میڈیم جدید فلسفے میں ’’زبان‘‘ ہے۔ اس وقت جتنی بحثیں ہو رہی ہیں اسی ایک میڈیم کو مرکز بنائے ہوئے ہیں۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ(۱) ایک ذہن کی علمیاتی کارکردگی اور (۲) ایک ذہن سے اپنے معروض میں معنی کی منتقلی یا اکتساب کرنا دو الگ الگ موضوع ہیں۔ زبان کا کردار دوسرے والے قضیہ سے شروع ہوتا ہے۔ زبان کے آغاز کے متعلق یہی کہا جاتا ہے کہ انسان اپنے تعقل میں حسیاتی تجربہ رکھتا تھا مگر زبان کی ضرورت اُسی وقت پیش آئی جب اُس نے سماجی عمل کا آغاز کیا یعنی اپنے ذہن میں موجود معنی کو outerمیں لانے کی کوشش کی۔ outerیعنی انسانوں سے ہم کلامی۔
میں یہاں طویل بات نہیں کروں گا۔ مختصر طور پر چند چیدہ چیدہ نکات پر گفتگو کروں گا جو گذشتہ دنوں معروف سکالر ادریس آزاد صاحب کی گفتگو سن کے ذہن میں پیدا ہوئے۔
ادریس آزاد فلسفے اور طبیعات کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں۔ چند دن پہلے اُن سے ایک ’یک طرفہ‘ ملاقات ڈاکٹرعزیز ابن الحسن کے دفتر (شعبۂ اُردو، اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد) میں ہوئی۔ وہ زبان پر گفتگو کر رہے تھے۔ انھوں نے تین اہم نکات پر گفتگو کی۔
۱۔ سوسیئرین لسانیات سے بات بہت آگے بڑھ گئی ہے۔
۔ ڈریڈائی لسانیات خیال کو زبان کی محتاج نہیں مانتی۔ ڈریڈا کے مطابق خیال الگ سے بھی موجود اور سفر کر سکتا ہے۔
۳۔ دنیا میں اب چومسکی کی آفاقی گرائمر جدید نظریہ ہے جو دنیا بھر کی زبانوں کو ایک قرار دے رہا ہے۔
ادریس آزاد صاحب نے سوسیئر کو پرانا قرار دیا اور بات ڈریڈائی لسانیات تک پہنچ جانے کا کہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈریڈا نے سوسیئر کی ساختیاتی لسانیات سے آگے بات کی مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ڈریڈا کے ہاں سوسئیر کی ساختیاتی لسانیات کا ہی سارا contentموجود ہے۔ ڈریڈا نے معنی خیزی (signification) کے عمل میں معنی نما اور صورتِ معنی کی بائنڈنگ کو توڑا اور معنی کو ایک آزادانہ عمل قرار دیا۔ معنی کو ایک contextکا مرہونِ منت قرار دیا۔ جو اس بائنڈنگ کے وقوع پذیر ہونے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ورنہ معنی اپنے معنی نما کا پوری طرح احاطہ نہیں کر سکتا۔ چومسکی نے اسی ایک نکتے کو competencyکا نام دیا جو ہر انسان کا حیاتیاتی خاصا (biological feature)ہے۔
لہٰذا یہ کہنا کہ سوسئیرین لسانیات ختم ہو گئی بالکل غلط ہے۔ سوسیئر کی لسانیات ہی ہر لسانیاتی تحقیق و بحث کا مرکز ہے۔ زبان پر سوسئیر کے دیئے ہوئے بنیادی نوعیت کے خیالات کہ زبان ریاضیاتی سائنس کی طرح عمل کرتی ہے وغیرہ وغیرہ اُسی طرح قائم ہیں۔
ادریس آزاد صاحب فلسفے کے استاد ہیں مجھے حیرانی ہوئی جب انھوں نے کہا کہ خیال الگ سے بھی موجود ہوتا ہے اُسے سفر (travel)کرنے کے لیے کسی زبان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انھوں نے اس ضمن میں گونگوں کی مثال دی۔ انھوں نے کہا کہ گونگے بغیر کسی زبان کے اپنے خیال کی ترسیل کرتے اور دوسروں کی باتیں سمجھتے ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ خیال زبان سے باہر ہو سکتا ہے اورسفر کر سکتا ہے؟ ان کے مطابق ڈریڈا نے سوسیرین لسانیات جو زبان کے سماجی عمل کو لازمی امر قرار دے رہی تھی، ختم کر دیا۔
پہلی بات یہ کہ ڈریڈا نے ساختیاتی لسانیات کے حوالے سے اس طرح کی کوئی بات نہیں کی دوسری بات یہ کہ گونگے جب بولتے ہیں تو ان کے درمیان بھی میڈیم زبان ہی ہوتی ہے۔ زبان سے باہر کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ ابتدائی انسان (primitive man)بھی جب سماجی عمل کا آغاز کر رہا تھا تو دوسرے تک خیالات کی منتقلی کے لیے زبان کا ہی سہارا لیتا تھا۔ البتہ یہ زبان صوتی یا فعال زبان نہیں تھی۔ گونگوں کے درمیان زبان بصری طریقہ کار(visual modality)کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ اشاراتی زبان یعنی ہاتھ یا حرکات(manual communication) کا کام کرتی ہے۔ اب کیا بتایا جائے کہ یہ کتنی بڑی زبان ہوتی ہے۔یہ زیادہ مشکل اورزیادہ بلیغ زبان ہوتی ہے۔ صوتی یا تحریری زبان میں بہت کچھ بہت سی توضیحات سے پیدا ہوتا ہے۔
اشاراتی زبان (sign language)میں اشارہ (sign)،معنی نما (signifier)اور جو اشارہ معنی سمجھا رہا ہے اُسے صورتِ معنی(signied)کہیں گے۔ معنی نما اور صورتِ معنی کے مل کے عمل کرنے سے معنی خیزی کا عمل واقع ہوگا۔ چوں کہ یہ صوتی اور تحریری لسانیات کے اصولوں پر ہی کام کرتی ہے، لہٰذا یہ ایک مکمل زبان ہے، ایک مکمل میڈیم ہے۔چوں کہ یہ جسمانی تاثرات (facial expression)کے تابع ہوتی ہے لہٰذا اس میں معنی کے التوا (defferment)کا امکان کم سے کم ہو جاتا ہے جو تحریری زبان میں زیادہ سے زیادہ ہوتا ہے۔
ادریس آزاد صاحب نے اشاراتی زبان کو زبان سے ہی خارج قرار دیا اور اسے خیال کی آزادانہ حرکت(free manoeuvre)قرار دے دیا۔
ادریس صاحب نے خیال کو زبانوں کا مشترکہ ورثہ قرار دیا اور اس خیال کو نوم چومسکی کی آفاقی گرائمر سے جوڑدیا جو ہر زبان کے پس منظر میں الگ سے موجود ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ قرانِ پاک کی مختلف آیات کا بہت تیز وِرد بھی کر رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ’’ دیکھیے کس طرح صوتی سطح پر ’م ‘اور ’ل ‘کے الفاظ ایک ہی سورۃ میں موجود ہیں۔ ایک خاص تاثر بنایا جا رہا ہے۔ ل اور م کے الفاظ دنیا بھر کی زبانوں میں ایک جیسے تاثر کو پیش کرتے ہیں۔ جیسے ماں ، جیسے محمد وغیرہ‘‘ نوم چومسکی کی آفاقی گرائمر سوسئیر کی ساختیاتی لسانیات کو چیلنج نہیں کرتی بلکہ ایک نئے پہلو سے توسیع کرتی ہے۔ چومسکی آفاقی گرائمر میں زبان کے تفاعل سے زیادہ انسانی ذہن میں زبان کے تفاعل(function)کو مرکز بناتی ہے۔
چومسکی نے زبان سیکھنے کی صلاحیت(competency)کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔ اُس نے کہا کہ انسانی ذہن ،لغتی الفاظ (content Words)کوفعال الفاظ (functional words)سے علیحدہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لغتی الفاظ جسے خود کار الفاظ (autosemantic words) کہا جاتا ہے وہ زبان کے افعال، اسم، صفات وغیرہ پر مشتمل ہوتے ہیں جب کہ فعال الفاظ گرائمر کے متعین کردہ معنی کو پیش کرتے ہیں جن کے معنی مبہم اور دl دوسروں پر منحصر ہوتے ہیں۔
چومسکی نےUGمیں اُس انسانی صلاحیت کو پیش کیا جو دنیا بھر کی زبان کے مشترکہ اندرونی فعل کو فوری سیکھ لیتی ہے۔چومسکی کہتا ہے کہ ایک گرائمر زبان کے اندر ہوتی ہے جب کہ ایک گرائمرانسانی ذہن کے اندر موجود ہوتی ہے جو زبان کی گرائمر سے علیحدہ اور حد درجہ مختلف ہوتی ہے۔چومسکی اسے hard-wired into the brain جیسے معروف الفاظ سے منسوب کرتا ہے۔آفاقی گرائمر پر بات کرتے ہوئے hard wiredجیسے بنیادی لفظوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو اس خاصیتِ انسانی کو پیش کر رہے ہیں۔
چومسکی نے ہرگز کہیں نہیں بتایا کہ دنیا بھر کے ہم صوت الفاظ کسی ایک خاص معنی کی تشکیل کرتے ہیں جن کے پس منظر میں کوئی خاص معنی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ یہ زبانوں کے اشتراکات کا معاملہ ہے جو صوتی لسانیات(phonetics)میں زیرِ بحث لائے جاتے ہیں جس میں دنیا بھر کی زبانوں کے فونیمز کے مشترکہ صفات کو جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ آفاقی گرائمر ہر گز نہیں۔
زبان نے قدیم فلسفے کی بنیادوں کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ علمیات(epistemology)کے پرانے فلسفے ازسرِ نَو زیرِ بحث آ گئے ہیں۔ زبان انسانی ذہن کو تشکیل(construction)قرار دیتی ہے۔ زبان ایک متن ہے جو intertextہے بہت سی ثقافتوں، تجربات اور حسیات کا۔ انسانی ذہن کا معنی خود intertextہے جو ایک سماجی تشکیل میں تیار ہوتا ہے۔ لہٰذا زبان کے عمل کو سمجھے بغیر ہم فلسفے کی اب تک کی کارگزاری کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ قاضی قیصر السلام نے سچ کہا کہ اس وقت فلسفے کے مباحث لسانی فلسفے میں سمٹ گئے ہیں۔