لو جی پانامہ کیس کا فیصلہ سُنا دیا گیا
(ذولفقار زلفی)
لو جی پانامہ کیس کا فیصلہ سُنا دیا گیا انصاف کے دئیے جلنے لگے ہیں۔ اس فیصلے کو بھی ہماری عدالتوں کے تاریخی فیصلے کے طور پر مدتوں یاد رکھا جائیگا کیونکہ یہ ایسا فیصلہ ہے جس سے حمایتی اور مخالف دونوں بغلیں بجا رہے ہیں۔
سننے میں یہ بھی آیا کہ اب اس فیصلے کی وجہ سے پاکستان میں امن و امان کا بول بالا ہو جائیگا، لوڈ شیڈنگ کی بتی گُل ہو جائیگی، بے روزگاری کا جن بوتل میں قید کر دیا جائیگا، شہر تو شہر اب گاوں بھی صحت اور تعلیم کی سہولیات سے لیس کر دئیے جائیں گے۔ عورتوں پر تشدد کرنے والوں کو جیل میں ڈال دیا جائیگا، بچوں سے مشقت کروانے والوں کو کڑی سے کڑی سزائیں دی جائیں گی، نشہ آور ادویات اور غیر قانونی اسلحے کو تلف کر دیا جائیگا، زرعی اصلاحات کے ذریعے بے زمینوں کو زمین مل جائیگی، خارجہ پالیسی آزادانہ طور پر اور عوام کے مفادات کو مد نظر رکھ کر مرتب کی جائیگی، مذہبی شدت پسندی کی بجائے اب علم و عقل کے چشمے پھوٹیں گے، فرقہ واریت پھیلانے والے توبہ تائب ہو کر اب بھٹے پر کام کریں گے، بیوروکریسی ہوش کے ناخن لیتے ہوئے عوام کے حقوق کیلئے دن رات ایک کر دے گی، ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کیلئے انقلابی اقدامات لئے جائیں گے، ہر طرف خوشی اور شادمانی کے منظر ہماری آنکھوں کو بھلے لگیں گے، اب کسی مشال کی لاش کو ننگا کر کے پتھر، لاتیں اور ڈنڈے نہیں مارے جائیں گے، نہ ہی سوال اُٹھانے والوں کو لاپتا کر کے اُن کی لاشوں کو ویرانوں میں پھینکا جائیگا، چاروں صوبے اب محبت کی لڑی میں بندھ کر یک زبان ہو جائیں گے،اب عمران خان، فضل الرحمن، محمود اچکزئی، آصف علی زرداری اور نواز شریف ایک ہی تھالی میں روٹی کھائیں گے اور سر جوڑ کرعوام کے بارے میں سوچیں گے، جی ایچ کیو میں صرف پیشہ وارانہ امور زیر بحث لائے جائیں گے، مُلک میں جدید اور سائنسی علم کے سوتوں سے وسیع عوام علم کی پیاس بجھائے گی، ہسپتال ویران اور کھیل کے میدان لوگوں سے بھر جائیں گے، سماجی اور معاشی انصاف ہر شہری کی دہلیز پر دستک دیتا پھرے گا، بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے مُلک میں واپس آکر ہنسی خوشی رہنے لگیں گے، اب کسی ملالہ کو سازش کی کڑیوں سے نہیں جوڑا جائیگا، اب کوئی عافیہ سیاست اور مفادات کی بھٹی میں نہیں جلے گی، غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والی کمپنی کا لائسنس بھی منسوخ کر دیا جائیگا، ہزاروں مسنگ پرسنز کو بھی اپنے اپنے گھروں کو واپس جانے دیا جائیگا، کرپشن اور اقربا پروری کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خیر باد کہہ دیا جائیگا، اب نہ ہی کوئی بھیک مانگنے والا ہوگا اور نہ ہی کوئی بے یارو مدد گار بنا گھر کے آپ کو نظر آئیگا، ہر طرف ہری بھری فصلیں لہلہاتی نظر آئیں گی، شہروں میں کچرے کے ڈھیر ڈی کمپوز کر کے درست مصرف میں استعمال کیئے جائیں گے، دریاوں کے پانی کو گندگی سے پاک کر دیا جائیگا، شاعری کی محفلیں سجیں گی، آرٹ کو حکومتی سطح پر ترویج ملے گی، کتابوں کے بڑے بڑے میلے لگیں گے، صاف ستھری خوراک ہر انسان کو دستیاب ہوگی، اب کوئی ماں اپنے بچوں کے صیحیح سلامت گھر لوٹ آنے کی فکر میں ہلکان نہیں ہو گی، نہ ہی اب محبت کرنے والوں پے کوئی قدغن ہو گی، جدھر کو نظر جائیگی خوش باش مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے اور نو جوان نظر آئیں گے، پژمردگی کے پر کاٹ دئے جایئں گے، “نا معلوم” اب “معلوم” ہو جا ئیگا، تزویراتی گہرائی کے اندھے کنوئیں کو انسانی لاشوں سے بھرنا بند کر دیا جائیگا، مُلکی سلامتی کے نام پر مر مٹنے کی قسمیں کھانے کی نوبت ہی نہیں آئیگی، قطری شہزادے اب ہمارے وطن میں شکار کھیلنے نہیں آئیں گے، اب کسی بھٹو کا عدالتی قتل نہیں ہوگا، نہ ہی کوئی ڈکٹیٹر آئین پاکستان کو اپنے بوٹوں تلے روندے گا، نہ ہی بیرونی سازشوں کے نام پر ہمیں بیوقوف بنایا جائیگا، اب کسی شخص کی شلوار اتار کر مسلمانگی کی تصدیق بھی نہیں کی جائیگی، نہ ہی کسی صوفی بزرگ کے دربار پر کوئی بم پھوڑا جائیگا، اب کسی خواجہ سرا کو بھرے بازار میں بے عزت نہیں کیا جائیگا۔ پاکستان کا ہر شہری اب خوشی خوشی سے رہے گا، کسی کے دل میں کوئی تعصب نہیں ہوگا، زبان، مذہب اور قوم کے وہ مطلب نہیں لیئے جائیں گے جو اقتدار پر قابض مداریوں نے لوگوں کے ذہنوں میں اپنے تماشے سے بٹھا رکھے ہیں، اب سندھ کو بھی پاکستان سمجھا جائیگا، بلوچستان کے لوگوں کو بھی پاکستان کی اکائی کی اہم کڑی مانا جائیگا، خیبر پختونخواہ کے رہنے والے بھی کسی بدگُمانی میں نہیں رہیں گے، پنجاب میں سرائیکی بیلٹ کے لوگوں کو بھی مہذب انسانوں کا درجہ دیا جائیگا، سندھ وادی کی تہذیب کو بھی عزت دی جائیگی مگر ذرا توقف فرمائیے ۔۔کئی مہینوں سے پانامہ، پانامہ کا قصہ سنتے میرے تو کان پک گئے تھے، فیصلہ اگر نواز شریف کے خلاف بھی آتا تو کیا کوئی تبدیلی شبدیلی آ جاتی یا یوں ہی ہم اپنے اپنے مقدر کا ماتم کرتے رہتے؟ کچھ بھی نہ ہوتا کیونکہ جب تک اس مُلک کو روایتی جاگیر سمجھ کر چلایا جاتا رہیگا، جب تک پنجاب کا غاصبانہ کردار کم نہیں ہوتا، جب تک جی ایچ کیو اپنے موقف سے دست بردار نہیں ہوتا، جب تک مذہب کے ٹھیکیداروں کو ٹھیکے ملنا بند نہیں ہوتے، جب تک پنجابی اور سندھی وزیر اعظم کے فرق کو ختم نہیں کیا جاتا تب تک یہ دائروں کا سفر یوں ہی جاری رہیگا، یوں ہی ہم “تاریخی فیصلہ” ، عوام کی فتح، بد ترین شکست اور نام نہاد ترقی کی گھسی پٹی اصطلاحیں ہماری سماعتوں پر گراں گزرتی رہیں گی۔ اس کیس کا فیصلہ سُنتے ہوئے میرے زبان سے بے ساختہ یہ شعر عود آیا کہ” بہت شور سُنتے تھے پہلو میں دل کا، جو چیر کے دیکھا تو قطرہ خوں نہ نکلا”۔!!