ادب، معاشرتی تشکیل نو اور اقبال
از، خورشید ندیم
علامہ اقبال کے بعد، ادیب نے کیا معاشرتی تشکیلِ نو میں کوئی کردار ادا کیا ہے؟ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے حسبِ روایت سالانہ ادبی کانفرنس کا انعقاد کیا تو پہلے اجلاس میں، معاشرے کی تشکیلِ جدید میں ادب کے کردار کو موضوع بنایا۔ رئیسِ جامعہ ڈاکٹر شاہد صدیقی کا حسنِ ذوق، صرف موضوع ہی نہیں، فی الجملہ مقررین کے انتخاب سے بھی ظاہر تھا۔ پروفیسر فتح محمد ملک، ڈاکٹر سید جعفر احمد، عطاالحق قاسمی، زاہدہ حنا، فاطمہ حسن اور منصور آفاق کے ساتھ مجھے بھی کچھ کہنے کا موقع ملا۔
معاشرتی تشکیل ایک تصورِ حیات کے تابع ہوتی ہے۔ یہ تصور، ایک نظامِ اقدار میں ڈھلتا ہے۔ نظامِ اقدار ہی ایک معاشرے کی اساس ہوتا ہے۔ تصورِ حیات کی ابتدائی تشکیل فکری اور فلسفیانہ سطح پر ہوتی ہے۔ یہ کام کبھی فرد کرتا ہے اور کبھی اجتماع۔ کسی تصور کے مقبول ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا موثر ابلاغ ہو۔ قبولیتِ عامہ کے لیے ایک شرط اور بھی ہے۔ لازم ہے کہ یہ تصور مقامی سماجی تعامل یا عرف سے ہم آہنگ ہو۔
برصغیر کی مسلم معاشرت کے اجزائے ترکیبی میں بنیادی پتھر کی حیثیت حاکمانہ نفسیات کی ہے۔ مسلمان اس خطے میں صدیوں حکمران رہے۔ انگریزوں کی آمد کے بعد، جب ہم معاشرتی سطح پر تشکیلِ نو کے عمل سے گزرے تو یہی نفسیات تھی جس نے مسلمانوں میں مزاحمت کی تحریک اٹھائی؛ تاہم جلد ہی اندازہ ہوا کہ صرف مزاحمت معاشرتی تشکیلِ نو کی ضامن نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے کچھ دیگر اسبابِِ حیات کی طرف بھی متوجہ ہونا پڑے گا۔ اسی سوچ نے دارالعلوم دیوبند کو جنم دیا۔ اسی نے سر سید احمد خان اور شبلی نعمانی کو پیدا کیا اور یہی سوچ بعد میں علامہ اقبال کی صورت میں ظاہر ہوئی۔
سر سید، شبلی اور اقبال نے ادب کو بطور ذریعہ ابلاغ اختیار کیا۔ اُس وقت ابلاغ کی سب سے موثر صورت یہی تھی۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا مودودی نے بھی ادب ہی کو ابلاغ کو ذریعہ بنایا۔ قبولیتِ عامہ سر سید، اقبال اور دیوبند کو ملی۔ سیاسی سطح پر سر سید اور اقبال اور مذہبی دائرے میں دیوبند۔ پاکستان بننے کے بعد مسلم معاشرت کو ایک بار پھر تشکیلِ جدید کا چیلنج درپیش تھا۔ اس مرحلے پر فکرِ اقبال کے سیاسی پہلو کا تو پورا ابلاغ ہوا اور یہی وجہ ہے کہ اسے قبولیتِ عامہ بھی ملی، تاہم معاشرے کے دیگر پہلوئوں کے باب میں ان کی آرا کا پوری طرح ابلاغ نہیں ہو سکا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ان موضوعات کو انہوں نے اپنی نثر میں موضوع بنایا اور زیادہ تر فلسفیانہ لہجے اور انگریزی زبان میں۔
اس خلا کو دیوبند یا مولانا مودودی کے افکار نے پُر کیا جن کا بہتر ابلاغ ہوا۔ ہمارے موجودہ سماجی و مذہبی تصورات دراصل ان سب افکار کا ایک ملغوبہ ہیں۔ ہمارے معاشرتی رویے انہی کا پرتو ہیں۔ علامہ اقبال اور مولانا مودودی کے بعد ہماری صفوں سے کوئی ایسا نہ اٹھا‘ جو مسلم معاشرے کی تشکیلِ نو کو موضوع بناتا اور اس کے پیغام کا ابلاغ بھی ہوتا۔ اس دوران میں، ذرائع ابلاغ میں ایک بڑا انقلاب برپا ہوا۔ ابلاغ کے روایتی ذرائع بڑی حد تک متروک ہو گئے۔ ادب بطور ذریعہ ابلاغ اب زیادہ موثر نہیں رہا۔
علامہ اقبال نے سید سلمان ندوی کے نام اپنے ایک خط میں لکھا تھا کہ مجھے شاعری سے زیادہ دل چسپی نہیں۔ ممکن ہے کہ آنے والی نسلیں مجھے شاعر ماننے سے انکار کر دیں۔ مجھے تو لوگوں تک ایک پیغام پہنچانا ہے اور شاعری کو میں نے بطور ذریعۂ ابلاغ اختیار کیا ہے۔ میرا احساس ہے کہ مسلم معاشرے کی تشکیلِ نو، سر سید، شبلی اور اس دبستان کے دوسرے بزرگوں کا مطمح نظر تھا۔ اس کے لیے ابلاغ کے مروجہ طریقے کو اختیار کیا گیا۔ ناقدینِ ادب نے فنی پہلو سے ان کے کام کو دیکھا تو ان کی نظم و نثر کو ادب کا بھی اعلیٰ نمونہ قرار دیا۔ ترقی پسند تحریک نے بھی کوشش کی کہ وہ ادب کے ذریعے سماجی تشکیلِ نو میں کوئی کردار ادا کرے مگر وہ اس میں زیادہ کامیاب نہیں رہی۔
میں اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ ادیب معاشرتی تشکیل میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا؛ تاہم اس میں شبہ نہیں کہ لطیف جذبات کی پرورش میں اس کا ایک کردار ہے جو معاشرتی تعمیر کے لیے ناگزیر ہے۔ ادب بھی موسیقی یا مصوری کی طرح فائن آرٹس کی ایک قسم ہے۔ مغرب میں نشاۃ الثانیہ کی جو تحریک اٹھی، اس میں مصوری نے بنیادی کردار ادا کیا۔ گویا وہ بھی معاشرتی تشکیلِ نو میں ابلاغ کے ایک ذریعے کے طور پر بروئے کار آئی۔
ابلاغ کے جدید ذرائع میسر آنے کے بعد، ادب بطورِ ذریعہ ابلاغ زیادہ موثر نہیں رہا۔ اقبال کے بعد کوئی ایسا شاعر یا ادیب ہماری صفوں سے نہیں اٹھا جو معاشرے کی تشکیلِ نو میں کوئی کردار ادا کر پایا ہو۔ اب جدید میڈیا ابلاغ کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ اس میں اخبار اور ٹی وی دونوں اہم ہیں۔ اخبار کا کالم یا ٹی وی پروگرام اب افکار، اگر کہیں ہیں، کے ابلاغ کا موثر ترین ذریعہ ہے۔ جدید ادیب کا المیہ یہ ہے کہ وہ ادیب کے مقام سے دست بردار ہو کر کالم نگار بننا چاہتا ہے یا ٹی وی اینکر۔ شاید اسے اپنی سماجی بقا کی فکر لاحق ہے۔ وہ اب مقتدی ہے، اقبال کی طرح امام نہیں۔
جدید معاشرہ ٹی وی پروگراموں اور اخبار کے کالموں میں سماجی و سیاسی مسائل کا حل تلاش کرتا ہے۔ اس نے اپنے طور پر کالم نگار یا ٹی وی اینکر کو ایک مفکر کے درجے پر فائز کر دیا ہے۔ تشکیلِ نو چونکہ میڈیا کا مسئلہ نہیں، اس لیے یہ کالم نگار کا موضوع ہے نہ ٹی وی اینکر کا۔ ان کا حال یہ ہے کہ وہ معاشرے سے واقف ہیں نہ تشکیلِ نو سے، الا ماشااللہ۔ آج سیاسی راہنما ان سے راہنمائی چاہتے ہیں اور عوام بھی۔ ادیب اس دنیا میں آ کر صحافی تو نہ بن سکا‘ لیکن ادب بھی تخلیق نہ کر سکا۔ رہی معاشرتی تشکیلِ نو تو وہ اس کا مسئلہ نہ پہلے تھا نہ اب ہے۔
علامہ اقبال آخری ادیب تھے جنہیں اس کا احساس تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اصلاً ایک مفکر تھے۔ ان کے نزدیک تشکیلِ نو کا یہ عمل متقاضی ہے کہ اسلام کی فکری، فقہی اور سماجی تشکیلِ نو ہو۔ فکری تشکیلِ نو کو انہوں نے اپنے خطبات کا موضوع بنایا۔ اس کے ساتھ وہ ایک کتاب لکھنا چاہتے تھے ”اسلام جس طرح میں نے سمجھا‘‘ (Islam as I Understood)۔ وہ اس کے صرف نوٹس تیار کر سکے۔ اقبال نے تاریخِ تصوف پر بھی لکھا۔ مسلم فکر میں تصوف کے مقام کا تعین بھی، ان کے خیال میں فکرِ اسلامی کو درپیش ایک اہم مسئلہ تھا۔ وہ اس کے دو باب ہی لکھ پائے کہ مہلتِ عمل ختم ہو گئی۔ فقہی تشکیلِ نو تو وہ اس لیے ضروری سمجھتے تھے کہ اس کے بغیر جدید مسلم سماج کی سیاسی تشکیل ممکن نہ تھی۔ خطبات میں انہوں نے اس کی ضرورت کو نمایاں کیا۔ رہی سماجی تشکیلِ نو تو اس کی طرف وہ اشارہ ہی کر سکے۔
اقبال کا المیہ یہ ہے کہ ان کا کوئی جانشین پیدا نہ ہوا۔ بطور مفکر انہوں نے جن امور کی نشان دہی کی تھی، ان کے لیے ایک نئے جہانِ افکار کی ضرورت تھی۔ میرے نزدیک یہ امکانات صرف مکتبِ فراہی میں موجود ہیں۔ امام حمیدالدین فراہیؒ نے قرآن و سنت کے فہم کی وہ اساسات فراہم کر دی ہیں‘ جو مسلم معاشرت کی تشکیلِ نو کی بنیادی ضرورت کو پورا کرتی ہیں۔ جاوید احمد غامدی صاحب نے اب ان بنیادوں پر ایک عمارت کھڑی کر دی ہے۔ اس عمارت کی تزئین و آرائش باقی ہے۔ ابھی صرف اہلِ ذوق ہی اس کی تحسین کر سکتے ہیں۔ عوامی مذاق یہی ہے وہ آرائش کے بعد ہی کسی فن پارے کی قدر و منزلت جان سکتا ہے۔
معاشرتی تشکیلِ نو نئے افکار کی مرہونِ منت ہے۔ آج کے ادیب کا دامن اس سے خالی ہے۔ بطور ذریعۂ ابلاغ بھی ادب موثر نہیں رہا۔ جامعات ان دنوں دنیا بھر میں فکری تشکیلِ نو کا کام کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی صاحب کو، ادیبوں کے کندھوں پر رکھنے کے بجائے، یہ صلیب خود اٹھانا ہو گی۔