آہا، میری چھوٹی سی کائنات : اس ذات میں پکتا لاوا
از، ارشد محمود
پچھلے دنوں جب میں پرویز ہودبھائی کے حالات زندگی سنا رہا تھا تو میرے ایک نوجوان دوست نے فرمائش کی تھی کہ ارشد صاحب آپ بھی اپنی سوانح لکھیں۔ اس سے پہلے بھی میں کچھ عجیب لیکن عظیم شخصیات کی کہانیاں سنا چکا ہوں۔ سوچتا ہوں کیا میں اپنی کہانی سنا سکتا ہوں۔ بالکل سچ سچ! شائد نہ آپ نہ میں اسے برداشت کرپاؤں! ہم کہاں اس معاشرے میں ننگا سچ بول یا سن سکتے ہیں۔ تہذیب، معاشرت، آداب، اخلاق کے ایسے پردے چڑھا رکھے ہیں۔ کہ ذات کا سچ کہیں نچلی تہوں میں دبا رہ جاتا ہے۔
مجھے آٹو بائیوگرافی بہت پسند ہیں۔ ہر انسان ایک کائنات ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی ذات سے پردے ہٹانے چاہئیں۔ اپنی منافقتوں، گندگیوں، وحشتوں، حیوانیت کا سامنا کرنا چاہئے۔ شائد انسان کے مہذب ہونے کا عمل تیز تر ہوجائے۔
مجھے یاد نہیں میری عمر کتنی تھی لیکن میں بچہ تھا۔ اگر دماغ پر زور ڈالوں تو شائد 10، 12 سال کا ہونگا۔ ہمارا دو منزلہ گھر شہر کے ایک پرانے محلے میں تھا۔ اوپر کی منزل میں ایک لوہے کا ‘جنگلہ’ ہوتا تھا۔ نیچے کو روشنی اور ہوا دینے کے لئے۔ ہم سب بہن بھائی، ماں اوپر کی منزل میں رہتے تھے۔
ہم پانچ بھائی اور دو بہنیں تھی۔ مجھ سے تین بھائی اور ایک بہن بڑی تھی۔ نیچے گراونڈ فلور میں ہمارے والد صاحب اکیلے رہتے تھے۔ کہیں ماں اور باپ کی بنی نہ تھی۔ میں اتنا چھوٹا تھا کہ مجھے نہ ادراک تھانہ واقعات کو جاننے کا شعور۔ لیکن ہماری ماں اور باپ مین جھگڑا رہتا تھا۔ ہمارا باپ شراب کا عادی ہوچکا تھا۔ اور ہم یعنی اپنے بچوں سے لاتعلق۔ بڑے تینوں بھائی محنت مزدوری کرتے تھے۔اور ماں خود بھی۔
کئی طرح کے کام کاج کیا کرتی تھی، اپنے گھر کے افراد اور لوگوں کےکپڑے سی لینے۔ نالے (آزار بند) اور سویٹر بن لینے۔ ماں نے ہی بچوں کو سنبھالا ہوا تھا۔ ہماری ماں خوبصورت سرخ سفید رنگ کی تھی۔ اور وہ ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ تین بھائیون کی ایک بہن تھی۔
لیکن تینوں بھائی بہن کو اس وجہ سے چھوڑ گے کہ بہن نے اپنے باپ کی جائیداد سے جو حصہ بنتا تھا اسے وصول کرلیا۔ بہن کا یہ جرم بھائیوں کے نزدیک اس قدر سنگین تھا کہ ساری زندگی تینوں بھائی بہن کو نہیں ملے۔ یعنی ہم بھی ماموؤں کے پیار سے محروم رہے۔ ان میں دو بھائی شیعہ ہوچکے تھے اور ایک حنفی سنی ہماری ماں کی طرح۔ ہمارے دادا نے کہیں دو شادیاں کی تھیں۔ جو دادی میں نے دیکھی وہ سوتیلی تھی۔ ہمارے باپ کا کوئی سگا بہن بھائی نہیں تھا۔ سوتیلے یا چچا زاد وغیرہ تھے۔
گویا ہمارا باپ کی طرف سے کوئی رشتے دار نہ تھا جو واقعہ سنانا چاہتا ہوں وہ کچھ یوں ہےکہ ہمارا باپ نیچے شراب پی کر دھت ہے اور اول فول بک رہا ہے اور چیزوں کو توڑ رہا ہے۔ اس زمانے میں قیمتی چیزیں گھڑی، ریڈیو وغیرہ ہوتی تھیں۔ ہم اوپر سے نیچے جنگلے کے ذریعے اس کو دیکھ رہے ہیں۔ وہ شائد ماں کو گالیاں دے رہا ہو۔ مجھے کچھ یاد نہیں۔ لیکن بہرحال ایک ہنگامہ سا تھا۔ بھائیوں میں میں گھر پر اکیلا تھا۔مجھے امان نے کہا کہ جاو بی ڈی ممبر کے پاس اور اسے کہو کہ ہمارا ابا ہمیں تنگ کررہا ہے۔ اسے پولیس کے حوالے کیا جائے (بی ڈی ممبر صدر ایوب کے زمانے مین لوکل باڈیز کے ممبر ہوتے تھے، ان کے پاس ڈپو بھی ہوتے تھے جہاں چینی وغیرہ سرکاری سستے ریٹ پر ملا کرتی تھی)۔ وہ ساتھ ہی دوسری گلی میں رہتا تھا۔
میں اس کے گھر چلا گیا۔ جا کر کہانی بتا دی کہ ابا آج پھر شراب پی کر ہمیں تنگ کررہا ہے۔ اماں کہتی ہے، اسے پولیس کے حوالے کردیا جائے۔ اس نے پولیس اسٹیشن شائد فون کردیا۔ اس زمانے میں فون کھاتے پیتے بااثر لوگوں کے پاس ہی ہوا کرتا تھا۔ اس ممبر نے مجھے کہا کہ پولیس اسٹیشن چلے جاؤ میں نے بات کردی ہے۔ میں بچہ تھا مجھے کچھ پتا نہیں تھا۔ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ میں پولیس اسٹیشن پہنچ گیا۔ اندر جا کراس بی ڈی ممبر کا حوالہ دیا ہوگا۔ خیر یہ بھی بتایا کہ ہمارا باپ ہمیں شراب پی کر تنگ کررہا ہے اور چیزوں کو توڑ رہا ہے۔
میری یادداشت بالکل اچھی نہیں ہے۔ لیکن نہ جانے اس پولیس محرر کی ایک بات میرے ذہن کی یادداشت میں پیوست ہوچکی ہے۔ وہ مجھے بولا، “دیکھ لیں باپ ہے۔ کل کو پھر کچھ نہ کہنا۔”
اب میری عمر اتنی چھوٹی تھی کہ میں اس کی اس بات کو نہیں سمجھ سکتا تھا۔ میں نے کہا کہ آپ اپنا ایکشن لیں۔ اماں نے یہی کہا ہے۔چنانچہ کچھ دیر بعد پولیس ہمارے گھر آ گئی اور ابا کو مع ثبوتوں کے گرفتار کرکے لے گئی۔ یہ شام کا وقت تھا۔ کچھ دیر بعد بڑے بھائی اپنے کام کاج سے واپس آئے تو پوچھا ابا کہاں ہیں؟ اماں نے انہیں بتایا کہ یوں شراب پی کرغل غپاڑاکررہا تھا۔ پولیس پکڑ کر لے گئی۔
مجھے تو کسی نے کچھ نہ پوچھا۔ بھائی تقسیم ہوگئے۔ ایک نے اسے غیرت کا مسئلہ بنا لیا۔ باپ ہے، دنیا کیا کہے گی کہ باپ کو جیل بھجوا دیا ہے۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک بھائی والد کے خلاف گواہی دے رہا ہے اور دوسرا (غیرت والا) اس کی ضمانت کرا رہا ہے۔ میں آج تک اپنی زندگی کے اس معما کو حل نہیں کرسکا کہ یہ سب کیا تھا۔ میرا رول کیا رہا۔ اچھا یا برا۔ ایک ناقابل برداشت قسم کی کسک ہے، چبھن ہے، نہ دل سے نکلتی ہے نہ دماغ سے!
اب بتائیں، میں اپنی سوانح کیسے لکھ سکتا ہوں پورے سچ کے ساتھ۔ پتا نہیں انسان نے یہ جو پردے ڈالنے کی تہذیب بنا رکھی ہے اس کے فائدے ہیں یا نقصانات۔
مجھے جانتا کوئی نہیں: میرا باپ
میرے باپ دادا کا تعلق جموں سے تھا۔ ذات کا مجھے پتا نہیں۔ شائد ان کو ڈوگرے کہتے تھے۔ سیالکوٹ جموں چونکہ بہت قریب تھے، کہتے ہیں لوگ سائیکل پر بھی جموں سیالکوٹ آ جایا کرتے تھے۔ باپ بھی ایک اچھے قد کاٹھ، جسمانی لحاظ سے صحت مند تھا۔ ہمارے گھر میں ترکی ٹوپی بھی ہوتی تھی۔ لگتا ہے باپ اسے کبھی جوانی میں پہنتا ہوگا۔
ہمارا گھر سیالکوٹ شہر کے اراضی یعقوب نامی محلے میں (کشمیری محلہ اس کے آس پاس ہی ہے) تھا۔ گھر اگرچہ سائز کے لحاظ سے چھوٹا تھا، لیکن اپنے وقت کے لحاظ سے اچھی حالت کا دومنزلہ بنا ہوا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد وہ کہیں میرے باپ نے خریدا یا بنوا ہوا تھا۔ ہمارا باپ کسی برطانوی کمپنی میں بھرتی ہوکرایران، زاہدان چلا گیا تھا، جب وہاں تیل دریافت ہوا تھا۔ وہ کسی ٹیکنیکل کام میں ہنرمند تھا۔ کچھ سال وہاں رہا ہوگا۔ اور اپنے وقت کے لحاظ سے اسی طرح پیسے کما کر آیا۔ جیسے ستر کی دہائی کے بعد لوگ گلف سے کما کر لاتے رہے۔ سنا ہے ہمارے گھر میں بھینس ہوتی تھی۔ بجلی، پنکھے، ایک بڑا سا ریڈیو، امپورٹڈ کراکری کے کچھ پیس، وائن گلاس وغیرہ بھی میں نے بچپن میں دیکھے ہوئے ہیں۔ ہمارے باپ نے ایران سے واپس آکر کریانہ فروشی کا کاروبار کرلیا۔
کہتے ہیں گھر کی نچلی منزل کھانے پینے کی اشیا کی بوریوں سے بھری ہوتی۔ یعنی ہمارا گھر خوشخال مڈل کلاس کا کہہ لیں۔ لیکن یہ سب کچھ یا تو میری پیدائش سے پہلے تھا یا میں اتنا چھوٹا ہوں گا کہ مجھے نہیں پتا۔ میری جب ہوش کا زمانہ آیا تو گھر کسی شدید بحران کا شکار ہوچکا تھا۔ ماں باپ کی بنتی نہ تھی۔ کہتے ہیں کہ بڑا بھائی (پہلا بیٹا) اس بحران کا مرکزی کردار بنا۔
باپ کو اپنے بیٹے کوپڑھانے کا شدید شوق تھا۔ پرانے زمانے میں باپ مارکر ہی پڑھایا کرتے تھے۔ بڑا بھائی میٹرک میں فیل ہوگیا۔ جو باپ کے لئے ناقابل برداشت صدمہ تھا۔ ادھر کہتے ہیں بھائی صاحب قریبی قبرستان میں کہیں ملنگوں (بھنگ پینے والوں) میں جا کر بیٹھنا شروع ہوگے۔ باپ کے ماں کے ساتھ خراب تعلقات اور بڑے بیٹے کی ‘آوارگی’ کی وجہ سے باپ کی اپنی اولاد سے دلچسپی ختم ہوگئی۔ اگرچہ اس سارے بحران کے باوجود ایک نیا بچہ ہرسال ضرور پیدا ہوجاتا تھا۔ اس زمانے میں 8-10 بچوں کی عام شرح تھی۔ جن میں ایک دو نوزائیدہ مرجاتے تھے۔ سنتے تھے کہ باپ کی باہر یار دوستی ان لوگوں کے ساتھ ہوگئی جو شائد شباب، شراب و کباب کے رسیا تھے۔
گھر میں شدید معاشی تنگی شروع ہو چکی تھی۔ باپ نے اولاد کو بالکل چھوڑدیا تھا۔ میں نے باپ کی شفقت نامی چیز کبھی نہیں دیکھی۔ بس مجھے باپ کے ساتھ اتنا تعلق یاد ہے کہ جب کبھی میں دکان پر ان کے پاس جاتا تھا۔ تو وہاں ایک ماشکی (جو گرمیوں میں سڑکوں پرشام کے وقت پانی چھڑکا کرتا تھا) میرے باپ کا یار ہوا کرتا تھا۔ وہ ماشکی سیالکوٹ کے ایک مشہور سینما میں بھی نوکر تھا۔ اس کو ‘بیگم کا سینما’ کہتے تھے۔ اس کی مالک ایک بڑی دبنگ قسم کی خاتون ہوا کرتی تھی۔ میرا باپ اس ماشکی کو کہتا اسے منڈوا (فلم) دکھا لاو۔ وہ ماشکی مجھے بیگم کے دفتر میں لے جاکربیگم سے مجھے اندر بھیجنے کی اجازت مانگتا۔ یوں میں نے بچپن میں کچھ فلمیں اس طرح دیکھی ہوئی ہیں۔ اپنے وقت کے لحاظ سے باپ کے پاس پیسہ معقول تھا۔ لیکن ہمارے لئے سب بند ہوچکا تھا۔ میں نے دیکھا ہمارا باپ جیسے ارادتًا پیسے کو خرچ اور ضائع کررہا ہے شائد انتقام میں۔ کبھی کبھی وہ مجھے شراب لانے کو بھیج دیتا۔ کبھی شہر کے اپنے وقت کے بڑے اچھے ریسٹورانوں سے مجھے کھانا لانے کو بھیج دیتا۔
چنانچہ نہایت معصومانہ بچپن میں نے انگریزی ماڈرن قسم کی ڈشز (شاہی ٹکڑا) کے ناموں کا مجھے پتا چلا کہ وہ جو فروٹ لاتا اکیلا کھا جاتا۔ میں کئی دفعہ اس کے بیڈ پر نوٹوں کی گڈیاں دیکھتا تھا۔ پھر اس نے سیرسپاٹے کے لئے جانا شروع کردیا۔ پھر اس کو پتنگ بازی کا شوق ہوگیا۔ بڑی سائز کی درجنوں پتنگیں۔ ڈوروں کی چرخیاں ہوتی۔ ادھر وہ پتنگ چڑھاتا ہمسایہ گھروں کے نوجوان لڑکے۔ اس کی پتنگ کو کاٹ دیتے جو قیمتی پتنگیں ہوتی تھی۔
اصل میں وہ صرف دولت ضائع کرنے کے طریقے تھے۔ اس کی شراب کی عادت بھی بڑھتی گئی۔لڑائی مار کٹائی، توڑ پھوڑ کے سین ہونے لگے۔ساتھ ہی اس کی صحت گرنی شروع ہوگئی۔ اب پیسا ختم ہونے لگا۔ اور پھر ایک دن وہ کنگلا ہوگیا۔ اب اسے کوئی ذہنی بیماری (پاگل پن) کے دورے بھی ہونے لگے۔ وہ خود سے باتیں کیا کرتا تھا۔ داڑھی بڑھا لینی۔ اس کی وہ شاندار زندگی کے سارے رنگ کہیں بہت پیچھے رہ گے۔ لباس کا کوئی ہوش نہ رہا۔
میرے باپ کے حوالے سے تعلق اور احساسات بہت تلخ رہے ہیں۔ میں نے باپ کا نہ پیار دیکھا، نہ شفقت، نہ سپورٹ۔ میرے لئے وہ Non-entity تھا۔ میں جیسے فقط ایک تماشائی۔ چنانچہ مجھے باپ کے لفظ سے نفرت سی ہوگئی۔ حد یہاں تک ہوگئی کہ اسکول میں کسی فارم کو پرکرنے میں جہاں کہیں Son of کا خانہ ہوتا مجھے اسے بھرتے ہوئے بڑی تکلیف ہوتی تھی۔ میں سوچتا تھا کہ باپ کے نام کا خانہ کیوں ہوتا ہے۔ مجھے ساری زندگی چڑ اور تکلیف رہی۔ فارموں میں یہ بھی لکھا ہوتا تھا۔ آپ کا باپ کیا کرتا ہے۔ میں کیا لکھتا کہ پاگل ہے۔باپ زندہ ہے۔ لیکن مرا ہوتا تو زیادہ اچھا ہوتا۔ آسانی سے لکھ دیتا، کہ مر چکا ہے۔
باپ شیزوفرینیا کا مریض ہوگیا۔ اوراپنے سارے ہوش و حواس کھو بیٹھا۔ بڑے بھائی ناک، عزت اور دنیا داری کے چکر میں باپ کو کچھ سنبھالتے رہے۔ لیکن وہ خود روزگار، غربت سے لڑتے، محنت و مزدوری کررہے تھے۔ وہ کہاں تک سبنھالتے یا علاج کراتے۔ مجھ سے جو بڑا بھائی تھا اس نے باپ کو آخری دم تک اپنے پاس رکھا، اسے نہلاتا، کھانا کھلاتا۔ باپ کو چھوڑکر کہیں جا نہیں سکتا تھا۔ ہر وقت کی اس کی کیئر تھی۔ کیونکہ ڈر ہوتا تھا کہ وہ کہیں باہر نکل گیا تو ملے گا نہیں۔ ایک دن مجھے اپنے باپ کے مرنے کی اطلاع ملی۔ میں دوسرے شہر میں رہتا تھا۔ میں نے ارادتًا کہہ دیا باپ کو دفنا دیا جائے۔۔ میرے آنے کا انتظار نہ کیا جائے۔ میں اس کے جنازے اور تدفین میں شامل نہیں ہونا چاہتا تھا۔ میں نے سمجھ لیا ہوا تھا کہ میں بن باپ کے پیدا ہوا بچہ ہوں اور پھر ساری زندگی یونہی رہا (میرے کہیں تحت الشعور میں باپ کا میرے ساتھ molesting کا بھی دھندلا واقعہ پڑا ہوا ہے جب میں کبھی ان کے بیڈ پر سو جاتا تھا۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.