لیاری کی ان کہی کہانی
از، ملک تنویر احمد
یہ لیاری کی کہانی ہے۔ ایک تابناک اور شاندار ماضی کی، ایک درماندہ حال کی، یہ ان شاندار روایات ، رسوم اور رواجوں کی کہانی ہے جن میں لیاری کی سماجی، ثقافتی اور سیاسی زندگی گندھی ہوئی تھی۔
یہ انسانیت دوستی، خرد افروزی اور جمہوریت پسندی کی کہانی ہے جن کی جڑیں لیاری کی زمین میں بہت گہری پیوست تھیں۔یہ مذہب، مسلک، لسانیت، نسل و رنگ کے امتیازات سے بالا تر اس لیاری کی کہانی ہے جس میں ہر قوم اور طبقے سے تعلق رکھنے والا اس علاقے میں بلا خوف و خطر زندگی بسر کر سکتا تھا۔
یہ اس لیاری کی کہانی ہے جو پاکستان میں اٹھنے والی سیاسی تحریکوں کا محور و مرکز ہوا کرتا تھا۔ لیاری والے جہاں ان سیاسی تحریکوں کی کامیابی کے لیے دست و بازو بنے تھے تو اس کے ساتھ ساتھ ان سیاسی تحریکوں کے چراغوں کو جلائے رکھنے کے لیے اپنے لہو کے خراج پیش کیے۔
یہ اس لیاری کی کہانی ہے جس میں بلوچ، کھچی، گھانچی، میانوالی، میمن، پنجابی، سندھی، پختون، بوہری، گجراتی، اسماعیلی، ہزاروی، مہاجر سب بستے تھے۔کسی کو قومیت یا زبان کی بنیاد پر نفرت کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاتا تھا۔ یہ اس لیاری کی کہانی ہے جو نوے کی دہائی میں لسانیت کی آگ میں جھلسنے والے شہر کراچی میں امن و عافیت کا جزیرہ تھا۔
جب شہر کراچی میں لسانیت کاعفریت اس شہر کے باسیوں کو ہڑپ کر رہا تھا تو لیاری ہی اس درماندہ شہر کے باسیوں کی آخری پناہ گاہ تھی۔ یہ اس لیاری کی کہانی ہے جہاں نیشنل عوامی پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسری سیاسی تحریکیں پورے زور وشور سے سرگرم رہیں۔
لیاری کے پیر و جوان ان تحریکوں میں اس طرح سرگرم رہے کہ ان تحریکوں کا ذکر لیاری والوں کے کردار کے بغیر ادھورا رہے گا۔ یہاں میر حاصل خان بزنجو، ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف، حیات محمد خان شیر پاؤ اور بہت سے دوسروں جمہوری رہنماؤں نے قدم رنجہ فرمایا لیکن آمریت اور ان کے گماشتوں کے سامنے لیاری والے ہمیشہ سینہ سپر رہے۔
یہ اس لیاری کی جمہوریت پسندی کی کہانی ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی کابینہ میں وزیر تھے اور وہ فوجی آمر کی حمایت کے لیے گبول پارک لیاری میں جلسہ کرنے کے لیے آئے تو لیاری والوں نے اس جلسے کو درہم برہم کر کے رکھ دیا تھا جس کے باعث بھٹو صاحب اپنی تقریر مکمل نہ کر سکے۔
لیکن جب یہی بھٹو ایوب خان کی آمریت کے خلاف علم لے کر نکلا تو یہی لیاری ان پر جان چھڑکنے لگا۔ جب بھٹو صاحب ایوب خان کی کابینہ سے استعفیٰ دے کر کراچی پہنچے تو ان کا ٹھکانہ لیاری کا گبول پارک تھا جہاں لاکھوں کا اجتماع ان کے استقبال کے لیے چشم براہ تھا۔
یہ اس لیاری کی کہانی ہے جہاں کے کالج میں فیض احمد فیض نے بطور پرنسپل خدمات انجام دینے کو ترجیح دی۔ یہ اس اس لیاری کی کہانی ہے جس نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی جھولی میں انتخابی نشستیں ڈالیں تو 1997کے انتخابات میں میاں نواز شریف کے امیدوار کو بھی صوبائی اسمبلی میں پہنچایا۔
لیاری کی یہ کہانی ان کہی تھی، سینوں میں محفوظ تھی جو کبھی کبھار دوران گفت گو سننے کو ملتی تھی۔ یہ اس لیاری سے برعکس ہے جو آج کی نسل اس کے بارے میں جانتی ہے۔ آج کی نسل کے نزدیک لیاری خوف، وحشت و دہشت کی علامت ہے جس کی پہچان اب پاکستان اور دنیا بھر میں گینگ وار ہے کہ جہاں بھتوں، زمینوں پر قبضے اور علاقوں پر تسلط کی جھگڑوں اور تصادم میں نا صرف معصوم جانیں تلف ہوئیں بلکہ اس نے لیاری کو زندہ انسانوں کا قبرستان بنا ڈالا۔
لیاری کے اس ماضی کی کہانی جہاں زندگی ہنستی مسکراتی تھی کو محترم رمضان بلوچ نے سپرد قلم کر کے لیاری کا فرزند ہونے کا قرضہ تو اتارا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے اہل پاکستان کو اس لیاری سے روشناس بھی کرایا جو کبھی تابناک اور روشن روایات کا امین تھا۔
رمضان بلوچ کی تصنیف ’’لیاری کی ان کہی کہانی‘‘ ان ایام رفتہ کو آواز دیتی نظر آتی ہے جو ماضی کے اندھے کنویں میں چلے گئے تو اس کے ساتھ ساتھ یہ اس لیاری کی حالت زار پر ماتم کناں بھی ہے جو آج ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ اس میں غیروں کو تو دخل تھا ہی لیکن اپنوں نے بھی کچھ کم ستم نہ ڈھایا۔
لیاری والوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی راہ میں اپنے محبت و حمایت کے ایسے پھول نچھاور کیے کہ آج تک یہ جماعت یہاں سے انتخابی معرکے جیتی چلی آرہی ہے، ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے تو لیاری والوں کی عقیدت و محبت کو بھرپور جواب یہاں ترقیاتی کاموں کی صورت میں دیا لیکن موجودہ پی پی پی جو نوسال سے سندھ میں حکمران ہے اس نے لیاری والوں کے لیے کیا کیا؟
وہ لیاری کا ایک چکر لگانے سے آپ کے چودہ طبق روشن کرنے کے لیے کافی ہوگا۔
کراچی آپریشن کے نتیجے میں جہاں شہر بھر میں جرائم پیشہ افراد ، بھتے خور وں اور ٹارگٹ کلرز کے بیخ کنی کی گئی تو لیاری میں بھی ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی جہاں اب زندگی نے ایک نئی زقند بھر کے آگے کی جانب دوڑ لگائی ہے۔ رمضان بلوچ لیاری میں امن و امان کی بتدریج بہتر ہوتی صورت حال کے ساتھ لیاری کے ایک روشن مستقبل کے لیے پرامید ہے کہ جہاں تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھیں، تعلیمی سرگرمیاں عام ہوں، ثقافتی پروگرام فروغ پذیر ہوں اور سیاسی گہما گہمی لیاری والوں کی قسمت بدلنے کے لیے پروان چڑھے۔
رمضان بلوچ زندگی کی ستر سے زائد بہاریں دیکھ چکے ہیں۔لیاری کے تابناک ماضی سے لے کر لاقانونیت اور فسادات کے اندھیروں میں گرنے کا عینی شاہد ہے لیکن وہ مایوس نہیں ہے۔وہ عہد رفتہ کو یاد کر کے سرشار ہوتا ہے تو ساتھ ساتھ وہ تلخی ایام بھی اسے کے بدن میں سوئیاں چبھوتی ہے جب لیاری میں درندگی اور حیوانیت اپنے عروج پر تھی لیکن وہ لیاری کے روشن مستقبل کے بارے میں پر امید ہے جہاں آسودہ حالی ہو اور چمکتے ہوئے ستارے ہوں۔
رمضان بلوچ کی بیان کردہ لیاری کی کہانی میرے جیسے ہر اس شخص کے لیے دلچسپ اور کشش کا باعث ہے جس کا لیاری سے تعلق ہے یا ماضی میں رہا ہو۔
لیاری کے ماضی پر سے پردے سرکے تو معلوم پڑا کہ آج کے لیاری کی کھنڈرات پر ماضی میں کیسی پر شکوہ اور شاندار عمارت کھڑی تھی۔ دہلی کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ شہر بار بار اجڑا اور بار بار بسا۔ لیاری جو کراچی کا دل ہے اس کے لئے یہی دعا لبوں سے نکلتی ہے کہ یہ ایک بار تباہ و برباد ہو چکا اب خد انہ کرے کہ منحوس دن اس پر دوبارہ سایہ فگن ہوں۔