لوڈنگ زون ، افسانہ

بلال مختار

لوڈنگ زون

افسانہ از، بلال مختار

میں صبح اٹھی تو اک کاغذ میری سائیڈ ٹیبل پہ پڑا ہوا تھا۔ سونے سے پہلے کمرے میں کُل دو انسان تھے اور اب جاگ کر دیکھا تو خود کو اکیلا پایا۔ اس کا فرار میرے لیے غیر یقینی تھا۔ فرار یا یہ شاید میرا قیاس تھا۔ لیکن مجھے پہلے یہ کاغذ تو پڑھنا چاہیے۔ اس پہ کچھ لکھا ہوا تھا۔ شاید کسی مقصد کے لیے وہ باہر گیا ہو گا۔ ممکن ہے کہ وہ خالی پیٹ ورزش پہ یقین کرتا ہو۔ یا شاید اپنی عبادت کے لیے غسل کر رہا ہو۔ خیر جو بھی تھا، اس کا یوں غائب ہونا اچنبھے سے کم نہ تھا۔

در اصل کہانی صرف سات گھنٹے پہلے شروع ہوتی ہے۔ مجھے اک را سے آئے تین ہفتے ہو چکے تھے اور کچھ دِنوں کی فراغت کے بعد کینبرا کی جامعہ میں زبان دانی کے امتحانات کے سلسلہ میں آسٹریلیا کے دار الحکومت آئی ہوئی تھی۔ یہ میرا آخری دن تھا اور شام سات بجے تمام ریکارڈ شدہ لکھائیوں کے نتائج کو اخیر شکل دینے کے بعد واپس سڈنی کی ٹھان لی۔ مگر جب آن لائن بُکننگ کی کوشش کی منصوبہ سوکھا پڑنے کا اندیشہ جاگ اٹھا۔ تمام گاڑیوں کی روانگی ہو چکی تھی۔ صرف مررِے سروسسز کی کوچ ٹھیک تاریخ بدلتے ہی روانہ ہونی تھی۔

پانچ گھنٹے کا انتظار مختصر مگر اس کی وجہ سے نیند پہ یقیناً منفی اثرات مرتب ہونے تھے۔ بہ ہر طور میں نے سوچا کیوں ناں سات گھنٹے نیند مکمل کر کے صبح تین بجے کی سروس سے چلا جائے۔ یہ سارا پروگرام آناً فاناً دماغ میں تشکیل پایا۔ مجھے واپس گھر جانے کی اتنی عُجلت بھی نہیں تھی مگر پھر یہ سوچ کر اپنے ارادے پہ قائم رہی کہ اگلے دن کو سفر پہ ضائع کرنے کی بجائے سویر سویر اس کوفت سے گُندھی مسافت سے جان چھڑا لی جائے، سو بھلا۔

یہ سوا دو بجے کا وقت ہو گا کہ اُوبر کے ڈرائیور نے مجھے جولی مونٹ سینٹر اتارا۔ تمام رستے میں جا بہ جا دھند کے سبب متوقُّع وقت سے دس منٹ دیر ہوئی۔ کہیں کہیں تو یوں احساس ہوتا کہ جیسے میں بادلوں کے طویل سلسلہ میں ڈرائیو کا مزہ لوٹ رہی ہوں۔ مگر خوشی کا یہ احساس کسی نو مولود بچے کی جلد موت کے جیسا تھا۔

ہیٹر سے گرم ٹو یوٹا سے باہر آتے ہی یخ بستہ ہوا نے میرا خوب استقبال کیا۔ میں نے جلدی جلدی انتظار گاہ کی جانب ناک سیدھی کی مگر یہ کیا، سامنے دروازہ بند تھا۔ شیشے کے دروازہ کے اوپر جلی حروف میں لکھا تھا کہ رات ساڑھے دس بجے کے بعد انتظار گاہ کو سیکیورٹی خدشات کے سبب بند کر دیا جاتا ہے۔ مہر بانی فرما کر سویر کی روانگی والے مسافر روانگی کے وقت سے ٹھیک تیس منٹ پہلے پہنچ کر بر وقت بورڈنگ کا حصہ بنیں۔ میرے لیے یہ سب غیر متوقُّع تھا اور میں لباس کے معاملہ میں بغیر تیاری کے کینبرا چلی آئی تھی۔

نو آباد شہر کی مست ہوا بہ دستور جھونکوں کی صورت میں میری ناک کے کناروں، کانوں کی لو اور گردن کی کی پچھلی اور سن کرنے پہ تُلی ہوئی تھی۔ میں کانپتی کانپتی قریب کے بینچ پہ بیٹھنے لگی تو برفاب جیسا احساس کولہوں میں سرایت کر گیا۔ بِا لآخر مسلسل حرکت کرتے رہنے کو فِی الوقت حل جانا اور چہل قدمی کے سے انداز میں چکر کاٹنے لگی۔

ابھی میں لوڈنگ زون کے سائن بورڈ کے قریب پہنچی ہی تھی یک دم حیرانی سے بَھر پُور برف پوش منظر نے مجھے جھنجھوڑ ڈالا۔ عین لوڈنگ زون کے بورڈ کے نیچے ایک انسان لیٹا ہوا تھا۔ اس نے اپنی ٹانگیں سمیٹی ہوئی تھیں اور دونوں ہاتھوں کو وِی کی شکل میں کانوں کے ارد گرد بستر و بچھونا بنا کر سو رہا تھا۔ خدا کی پناہ! صبح اپنے اولین گھنٹوں میں، کینبرا کا منفی سات کا درجہ حرارت، ٹھنڈی ہواؤں اور دھند سے بھرا شہر اور اس سرد منظر میں ایک انسان کو سوتا دیکھ کر سین مزید کریہہ سا معلوم ہونے لگا۔ خدا جانے انسانیت کس بازار میں فوٹو سیشن لے کر پروموشن کروا رہی تھی کہ شہر کے اس کنارے پہ اک انسان سمٹا ہوا لیٹا تھا۔ میں نے حتی الامکان خاموشی سے سینے پہ کان لگائے تو سانس چل رہی تھی۔ سونگھا تو شراب کی بُو کا دور دور تک امکان نہیں تھا۔ شکل سے بھی ٹھیک ٹھاک انسان معلوم ہوتا تھا۔ پھر یہ اس خوف ناک صبح میں یوں کیوں لیٹا ہوا ہے اور کسی حد تک نیند میں بھی ڈوبان بھر رہا تھا؟

مجھ پہ اس دن یہ عُقدہ کھلا کہ نیند کس انمول شے کا نام ہے۔ وہ اک طرح سے برفیلی سیل پہ سو رہا تھا۔ با لآخر میں نے اسے چھوا؛ ہاتھ برف، پیروں کا ننگا حصہ بھی سُن سا معلوم ہوا۔ سونے پہ سہاگہ کے اس کی ناک سے خارج ہوتی ہوا بھی کسی ’اے سی‘ جیسی معلوم ہوئی۔ حالاں کہ یہ بات شک سے ما ورا ہے کہ انسان اپنے پھیپھڑوں سے گرم اور کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوا کا اخراج کرتا ہے۔ اس کا مطلب واضح تھا کہ مذکورہ لا وارث حالات میں سانس بھرتا انسان اندرونی اور بیرونی ٹھنڈک سے نبرد آزما تھا۔

یہ حقیقت تھی کہ مجھے اس انسان کو متذکرہ حالات میں دیکھ کر اپنی بھی ٹھنڈ بھول چکی تھی۔ کچھ لمحے سوچ و بچار کے بعد میں نے موبائل سے اُوبر کو واپس کینبرا کی جانب لے جانے کی درخواست کی۔ جیسے ہی اوبر کے دیے گئے نقشہ سے گاڑی میرے قریب پہنچی، پس منظر سے مرے کی گاڑی بھی اسٹیشن کی جانب موڑ کاٹ رہی تھی۔ میں نے سڈنی کا ٹکٹ منسوخ کروا دیا تھا اور اب اس انسان کو واپس اپنے کمرے میں لے جانے کا قوی ارادہ کر لیا تھا۔

یہ اک انڈین حیدر آباد کا ڈرائیور تھا، اس نے میرے ساتھ مل کر اس انسان کو گاڑی میں کسی بوری کے جیسے لادا۔

’’کیا آپ یونیورسٹی ہی جانا چاہ رہی ہیں یا ہمیں ہسپتال جانا چاہیے؟‘‘ ڈرائیور نے ونڈ اسکرین پہ چَسپاں موبائل کے نقشہ اور پھر بیک مِرَر پہ نظر دُہراتے ہوئے مجھ سے سوال کیا۔ میں مسافر سیٹ پہ بیٹھی تھی جب کے لاش نما انسان پچھلی سیٹ پہ لِٹایا گیا تھا۔

میں اس کا مطلب بھانپ گئی مگر میں نے یونیورسٹی آف کینبرا کی جانب ہی سفر جاری رکھنے پہ مُصِر رہی۔ خیر کچھ ہی دیر بعد ڈرائیور کی مدد سے میں اس انسان کو اپنے کمرے تک لے آئی تھی۔ ڈرائیور کو نا صرف پانچ ستارے کا ریویو دیا بَل کہ کچھ اضافی بَکس (پیسے) بھی بہ طور اضافی سروس پہ دیے۔ وہ شکریہ کے سے انداز میں چلتا بنا۔

خوش قسمتی سے کمرہ مرکزی گرمائش کے عنصر سے لپٹا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد ہم دونوں کا درجہ حرارت بہ دستور روم ٹمپریچر پہ لوٹنے لگا۔ مجھے پیاس لگی تو میں نے فریج سے پانی کی بوتل نکالی اور گلاس میں انڈیلنے لگی۔ ابھی میں نے گلاس لبوں سے مَس ہی کیا تھا کہ وہ انسان کراہنے کے سے انداز میں کہنے لگا:

’’ہوبو۔ ۔ ۔ ہوبو۔ ۔ ۔ ‘‘ مجھے کچھ سمجھ نا آئی کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔ وہ اپنی مقامی زبان میں کچھ کہہ رہا تھا۔ اس کے خشک ہونٹوں پہ حرکت دیکھ کر مجھے لگا کہ اب جسم میں توانائی بحال ہونے پہ وہ پانی کی طلب محسوس کر رہا ہے۔

میرا اندازہ ٹھیک نکلا، اس نے پانی غٹا غٹ پینا شروع کر دیا۔ اسی دوران میں تھوڑا پیچھے ہو کر اک کرسی پہ براجمان ہو چکی تھی۔ وہ پانی پی کر پھر سے اوندھے مُنھ ہی سو گیا۔ میں اسے دیکھتی رہی اور سوچتی ہی چلی گئی۔

تقریباً دس منٹ کے بعد اس نے کروٹ لی تو مجھے بہ غور دیکھا اور اٹھ کر بیٹھ سا گیا۔ وہ کسی حد تک سہما ہوا تھا۔ میں نے مسکراہٹ سے مَثبت پیغام دیا۔ میں نے اس کا نام پوچھا۔ وہ کچھ ہچکچایا، وہ انگریزی زبان سے واجبی واقفیت رکھتا تھا۔ مگر اس واجبی گفتگو اور جملہ کو پھیرنے اور مترادفات کے استعمال سے ہمارا کلام و بیان چل نکلا۔

اس کا نام زر گل تھا۔ اول اول مجھ پہ اعتماد کی پوشاک چڑھانے سے کترا رہا تھا، اس کے خوف کے پسِ پردہ حقائق آئندہ گفتگو میں واضح ہو گئے۔

’’تم مجھے یہاں کیوں لے کر آ گئی ہو، تم ہو کون ہو؟‘‘ اس نے پے در پے دو سوال داغ ڈالے۔

’’میں اک استانی ہوں، تمھیں اسٹیشن پہ یوں بے خستہ حالت میں پایا تو بہت عجیب سا لگا۔‘‘ اس نے عجیب کا ’کی ورڈ ‘ اٹھایا اور سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔

’’میں گزشتہ ایک مہینہ سے یہاں منگتوں کی طرح جی رہا ہوں۔ رہنے کو نہ ٹھکانہ اور جیب میں ڈالرز نہیں۔ کئی سو افراد میرے سامنے سے گزر گئے، مگر انہیں عجیب نہیں لگتا۔ تمھیں کیوں ایسا محسوس ہوا؟‘‘

’’دیکھو، میں کوئی اتنی بھی انسانیت کی نبض شناس مزاج نہیں۔ ہاں! تم جن حالات میں مجھے ملے، وہ دل دہلا دینے والے تھے۔ بس میں تمھیں یہاں لے کر چلی آئی۔ ‘‘

اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا میں نے اسے جاگتے رہنے کی تلقین کرتے ہوئے قریبی ’سیون الیون‘ سے کچھ موجود اشیائے خور و نوش لائیں۔ اس نے خوب جی بھر کر کھانا کھایا۔ مجھے ابھی تک میرے دماغ میں زناٹے بھرتے سوالوں کا جواب نہیں ملے تھے۔

’’اچھا، کیا تم بتانا پسند کرو گے کہ تم ان حالات تک کیسے پہنچے؟‘‘، میں نے ڈونَٹ اچکتے ہوئے پوچھا۔

’’ہاں! میرا نام زر گل ہے۔ میں افغانستان سے آیا ہوں۔ یہاں کامن ویلتھ گیمز دیکھنے آیا تھا۔ اور پھر یہیں پہ بھٹکا سا، بھاگا جا رہا ہوں۔‘‘

’’مطلب! تمھیں کھیل اچھے لگتے ہیں اور تم ان عالمی مقابلوں سے لطف اندوز ہونے کے واسطے آئے ہو؟‘‘ میرے سوال کے جواب میں پہلی بار اس نے گونج دار انداز میں قہقہ لگایا۔ کمرہ اس کی آواز سے کچھ سمے بھر سا گیا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے کوئی باپ اپنے بچے کے معصوم سوال سن کر لحظہ بھر کو ہنس دے۔

’’مجھے کھیلوں سے کوئی رغبت نہیں۔ نہ ہی ان عالمی مقابلوں کی کشش مجھ میں تحلیل شدہ ہے۔‘‘ اس نے عالمی مقابلوں پہ قدرے اضافی زور دیا۔

’’مطلب؟ میں سمجھی نہیں۔ پھر تم دیارِغیر میں کیا کر رہے ہو؟، تمھاری یہاں پہ موجودگی تو پھر غیر قانونی ہوئی۔ ‘‘ وہ در اصل مذکورہ ایونٹ میں بطور تماشائی آیا تھا اور سلِپ ہو گیا۔ کھیلوں کے مقابلوں کو ختم ہوئے دو ہفتے ہو چکے تھے۔

’’ہاں تم درست کہہ رہی ہو۔ میری موجودگی اب غیر قانونی ہے، مگر وہ جو تین تین دھائیوں سے میری زمین پہ قبضہ کیے ہیں۔ ہر روز بم بارود اور ڈرون سے ہمارے گھروں کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ کیا وہ قانونی راستہ ہے؟‘‘ اس نے افغان جنگ میں امریکی مداخلت کی طرف کڑوا کسیلا سوال پیش کیا۔

میں دل ہی دل میں سوچنے لگی کہ یہ زہر آلود سچ کون سن سکے گا۔ اسی دوران اس کی آنکھوں میں غنودگی کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ شاید کھانا اور کمرے میں پھیلی گرمائش سے اس پہ نیند ایک بار پھر سے طاری ہو رہی تھی۔ وہ مزید کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر میں نے ہونٹوں پہ انگلی رکھے خاموشی رہنے کی بہ زبانِ خاموشی التجا کی۔

’’تمھیں آرام کی شدید ضرورت ہے۔ تم آخر کو اک انسان ہو، کب تک ان موسمی و ذہنی چتاؤنیوں کا سامنا کر پاؤ گے؟ کچھ دیر سو لو۔ صبح اس پہ بات کریں گے۔ شاید میں تمھاری اس سلسلہ میں معاونت کر سکوں۔ ‘‘میں نے رجائیت پسندانہ انداز میں اسے کچھ امید کی ڈوز دی اور وہ بلا حیل و حجت صوفے پہ سو گیا۔ میرے بَھر پُور اصرار پہ بھی وہ بیڈ کے قریب نہ پھدکا۔

سویرے صوفہ خالی پایا۔ اس نے میرے بیگ سے اک خالی کاغذ نکال کر کچھ لکھ چھوڑا تھا۔ قالین پہ پڑے بیگ کا مُنھ بہ دستور کھلا ہوا تھا۔

’’مجھے کچھ پتا نہیں کہ میں کدھر جاؤں گا۔ مجھے کچھ احساس نہیں کہ میں ٹھیک بھی کر رہا ہوں یا نہیں۔ میری منزل شاید میری عمر سے طویل معلوم ہوتی ہے۔ میری پیدائش میدانِ کار زار کی کوکھ سے ہوئی تھی۔ میری تمام عمر جا بہ جا ہجرت کرتے ہوئے گزر گئی ہے۔ اپنے باپ دادا کے ساتھ پاکستان ہجرت کی۔

“ہماری زندگی جیسے تیسے کوئٹہ میں گزر رہی تھی۔ دن بھر مزدوری کرتا اور رات کو دو بچوں کا بھی پیٹ بھرتا۔ کسی اچھی نوکری کے واسطے اپلائی کرتا مگر تعلیم واجبی سے بھی کم ہونے کے سبب رَتِّی بھر شنوائی نہ ہوئی۔ پھر میری زندگی میں انقلاب آیا، میں نے اپنے گاؤں کو (جو کہ کابل سے چند سو میل کے فاصلہ پہ ہے) کو ایک بار پھر سے آباد کرنے کا ارادہ کیا۔

“وقت کسی طرح گزرنے لگا۔ اک دن گھر لوٹا تو پتا چلا کے نیٹو کے اہل کار گھر میں گھس آئے۔ تلاشی لینے کے بعد میری بیوی کی کوکھ میں نا جائز نشانی دے گئے۔

کچھ ہی مہینوں میں یہ واضح ہو گیا کہ اس کے پیٹ میں حرام پل رہا ہے۔ اس ماں کو ختم کر دوں یا اس بچے کو واش کر دوں۔ دو روحیں یک جان۔ ہر گزرتے دن ان ’’قانونی‘‘ حملہ آوروں کی نشانی واضح سے واضح تر ہوتی گئی۔ بے بسی کس بلا کا نام ہے، تم اک مسلم افغان کی زندگی کو دیکھ کر جان سکتی ہے۔ حلال و حرام کی بنیاد پہ پرستش کرتے دین کو جب اپنے گھر میں جانچنے کی کوشش کرتا تو کَسمَسا کر رہ جاتا۔ کون حلال ہے کون حرام ہے؟ وہ ماں جو بے بسی کی تصویر بنی مجھے دیکھتی؟ یا وہ بچہ جو شعور و سمجھ سے کہیں پرے ماں کے پھیپھڑوں سے سانس بھر رہا ہے؟

“ہاں! میں زندگی کے عجیب سے چو راہے پہ آن کھڑا ہوا ہوں۔ ماضی میں جھانکے سے تکلیف بڑھتی جاتی ہے۔ دائیں بائیں قوانین کے ادارے میری تاک میں ہیں، سامنے جنوب تک پھیلا وسیع سمندر ہے۔ شاید اس سے آگے زمین کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

بس اتنا مجھے احساس ہے کہ میرے اندر اب احساس باقی نہیں۔ اور میں بے حس و بے مقصد اس کٹھور حیاتی سے مسافت جلد از جلد طے کر لینا چاہتا ہوں۔ ‘‘

اک را کی بوڑھی عورت کے بعد کابل کے زر گل میں اک کیفیت یکساں تھی۔ دونوں وقت کی کسی پرت پہ کھڑے تھی، نہ ہی وہ ماضی تھا، نہ ہی حال اور نہ ہی کہیں آئندہ ماہ و سال۔ وہ کہیں بیچ میں کھڑے تھے، جس کو بیاں کرنا کٹھن ہے۔ ادھر بوڑھی کی روح کو تار تار کر لینے کے بعد جسم آزاد کر دیا گیا تھا۔ ادھر اس نو جوان کو بے یقینی کی خاطر خواہ فضا میں ذہنی خَلجان سے لبریز کر دیا گیا۔

اب مجھے لفظ لطف اندوز سے گِھن سی آنے لگی تھی۔

                ***

نوٹ! درج بالا کہانی سلسلہ وار افسانوں کا تیسرا جدا مگر کسی حد تک گزشتہ سے پیوستہ افسانہ ہے۔

نمبر ا: روشنی کا ہالہ

نمبر۲: مدفن بیج

نمبر ۳: لوڈنگ زون