مقامی زبان و محاورہ، اور پیارے بلاول کیا کر سکتے ہیں؟
از، یاسر چٹھہ
کل قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر لگتا تھا اس ملک میں صرف حزبِ اختلاف ہی حزب اختلاف ہے۔ ایوان کے ہر طرف سے گھمسان کا رن تھا۔ مسلم لیگ نواز تو جیسے احتجاج کے پروگرام کے ساتھ ہی آئی تھی، لیکن نو منتخب وزیر اعظم بھی اعصاب کی جنگ میں ہارتے دکھائی دیتے تھے۔
اس دوران کچھ تازہ فکر نصیب ہوئی تو اس نو جوان بلاول سے۔ بلاول وہ بولے جو سماجی اور سیاسی دانش کا تقاضا تھا، لیکن ہم پچھلے کچھ عرصوں اور وقتوں سے ایسے ہو گئے ہیں کہ کسی کی بات سننے اور سوچنے کا یارا نہیں رکھتے، صرف بولتے رہتے ہیں۔
دوست سوشل میڈیا پر نو منتخب وزیرِ اعظم اور حزبِ اختلاف کے لہجوں میں ہی ایک دوسرے سے مخاطب رہے ہیں۔ لیکن شور کے اندر بھی کچھ موسیقی چُھپی مل سکتی ہے، ڈھونڈنا بُھوسے کے ڈھیر سے سُوئی جیسی محنت مانگتا ہے؛ کچھ سنجیدہ بحث کے اشاریے جنم لے رہے ہوتے ہیں۔
انہی آوازوں میں سے ایک آواز بہت ہی بھلے انسان اور عالمِ فکر و ہنر جناب فرخ ندیم بَہ جا طور پر کہتے ہیں:
جس زبان میں انسان کی تقریر کم زور ہوتی ہے، مطلب، اس زبان کی ثقافت میں انسان کا تجربہ بھی کم زور ہوتا ہے۔
جواب میں اپنا وہی کئی بار کا پیش کردہ خیال دہراؤں گا کہ واقعتاً ملک عزیز میں روشن خیال اور ترقی پسندی شروع دن سے ہی مقامی حِسیّت local sensibility اور محاورہ میں اپنی بات کو گوندھنے میں کام یاب ہونے سے کوسوں دور رہی ہے۔ جبھی خادم رضویوں اور ہر رنگ کے اعلیٰ عہدے دار، لیکن پست ذہن و فکر سرکاری ملازمین کا راج قائم ہے۔
سرکاری ملازم اپنی ملازمت حاصل کرنے کی جد و جہد، اپنی پیشہ ورانہ تربیت اور سال ہا سال کے کیریئر کے دوران ترقیاں حاصل کرنے کے لیے اپنے اندر موجود اور ضروریات کے موقع و محل کے ساتھ پیدا کردہ نفسیاتی کیفیتوں سے ایک عمدہ سیاسی رہنما کا سا ویژن بنا ہی نہیں سکتا۔
ٹھیکے دار، پراپرٹی ڈیلر، تاجر اور صنعت کار وغیرہ کو اپنے جائز مفادات کے لیے lobbying کی تو اجازت ہونا چاہیے، اور عام طور اپنی انجمنوں اور تنظیموں کے ذریعے ہوتی بھی ہے، لیکن وہ بھی قومی تعمیر nation building کی خصوصیات اپنے اندر جنمانے اور سامنے لانے میں کسی ایک جزوی پہلو سے درست تو ہو سکتے ہیں لیکن پوری holistic تصویر پیش کرنے سے وہ بھی قاصر رہتے ہیں۔
مزید دیکھیے: ہماری اشرافیہ کا ذوق زبان درازی از، وسعت اللہ خاں
بلاول بھٹو یا فریدوں کا انتظار از، ڈاکٹر علمدار حسین بخاری
بَہ ہر حال، بلاول کے مقامی محاورہ سیکھنے کے ساتھ ساتھ، پاکستانی سیاست میں مسلم لیگ ن، اور تحریکِ انصاف نے جیسی پست خیالی اور پست زبانی کو رواج دیا ہے، اس پر مرہمی مزاج، زبان اور خیال بھی بلاول جیسی آوازوں کی ہی صورت میسر ہونے کے امکانات ہیں۔
لیکن ساتھ ہی خواہش اور دعا ہے کہ بلاول جلد از جلد خوب صورت باتوں اور آدرشوں کو سندھ میں اس صورت عملی جامہ پہنائیں کہ دائیں بازو کی اور ان کے کفیل اداروں کی پنجاب اور پختون خواہ میں پھیلائی گَرد کسی طور بٹھانے کے لیے قیادت کا فریضہ انجام دے۔ سندھ اسمبلی بہت سارے اہم معاملات میں پہل کرنے کا شہرہ رکھتی ہے، جن میں سے ایک قیامِ پاکستان کے لیے اسمبلی قرار داد بھی شامل ہے۔
بَہ ہر حال، مقامِ شکر ہے کہ پاکستان کے سیاست و معاشرت کے سنہری مستقبل کی آس رکھنے کے نشان کے طور پر بلاول موجود ہیں۔
امید ہے مستقبل حال سے بہتر ہو گا۔