برطانیہ میں حملے ، اسلام کا خوف اور مسلمانوں کا کردار
(رضا علی)
مانچسٹر میں دہشت گردی کے واقع کو کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کے لندن میں بھی دہشت گردی کا حملہ ہو گیا۔ ایک لیبیا نژاد مسلمان نوجوان لڑکے نے مانچسٹر کے ایک اسٹیڈیم میں بم دھماکہ کر دیا۔ یہ لندن کے 7/7 حملے کے بعد سب سے بڑا حملہ تھا۔ اس میں بھی تین مسلمان ملوث تھے۔ کیوں کہ اس میں بچے ہلاک ہوے تو اس کا اثر اور بھی زیادہ سخت تھا۔ ابھی برطانیہ اس سے ہی نمٹ رہا تھا کے لندن میں ایک اور واقعہ ہو گیا جہاں لندن بریج پر ایک وین فٹ پاتھ پر چلنے والوں پر چڑھا دی گئی۔ اسی کے ساتھیوں نے لندن بریج کے پاس بارا مارکیٹ (Borough Market) میں لوگوں پر چاقوؤں سے حملہ کر دیا۔ ان میں ایک پاکستانی نژاد تھا اور برطانیہ میں ہی پیدا اور پلا بڑھا تھا۔
یہ تازہ ترین واقعات ہیں یورپ میں ہونے والے کئی واقعات میں سے اور اس کا نتیجہ پھر Islamophobia یا اسلام کے خوف کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ پھر ڈاڑھی اور حجاب والوں کو نفرت سے دیکھا جاتا ہے اور ان پر حملے بھی ہو جاتےہیں۔ کوئی مسجد بھی اس کا شکار ہو جاتی ہے۔ مگر اس میں ساری غلطی ان اسلام سے نفرت کرنے والوں یا خوف کھانے والوں کی نہیں ہے۔
اس میں ایک بڑا کردار مسلمانوں کا بھی ہے۔ ہم نے اسلام کی ایک خاص شکل بنا دی ہے، وہ ڈاڑھی، جبّہ، حجاب، برقع ہو کے رہ گی ہے۔ اور نہ صرف یہ علامت بن گی ہے بلکہ اس نے دوسرے مسلمانوں کو الگ exclude کر دیا ہے۔ اسلام کے بارے میں مسلمانوں کی اپنی بڑھتی ہوئی تنگ نظری اوروں کی تنگ نظری کو بڑھا رہی ہے۔ اور دوسروں کی تنگ نظری مسلمانوں میں سخت گیری پیدا کر رہی ہے۔ دونوں ایک vicious circle یا خوفناک چکّر میں پھنس گئے ہیں۔ ایک طرف ایک اسلام سے خوفزدہ ہے تو دوسری طرف اسلام کے لئے خوفزدہ۔
مقصد یہاں ڈاڑھی پر تنقید نہیں ہے۔ وہ تو ایک ذاتی عمل ہے جو رکھتا ہے شوق سے رکھے۔ مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان مرد اور ڈاڑھی کو ایک ہی چیز بنا دیا گیا ہے۔ ڈاڑھی کے بارے میں عام رائے یہی ہے کے یہ سنّت ہے۔ پہلے تو یہ واحد رائے نہیں ہے۔ اور یہ رائے ہے بھی تو کوئی رکھے گا اور کوئی نہیں رکھے گا۔ اس اختلاف رائے کی وجہ سے آپ کو بہت سی طرح کے مسلمان ملیں گے۔ کسی کی ڈاڑھی شیعہ ہوگی تو کسی کی سنی۔ کسی کی بن لادن جیسی ہو گی تو کسی کی سعودی بادشاہ جیسی۔ کسی کی ایک مشت لمبی ہوگی اور کسی کی چھوٹی تراشی ہوئی۔ اور کسی کی سرے سے نہیں ہوگی۔ یہ تمام کے تمام مسلمان ہی ہونگے۔ لیکن یہ دیکھنے میں آتا ہے کے جیسے جیسے علامات کے بارے میں انتہا پسندی بڑھتی جاتی ہے، یہ تنوع diversity مٹتی جاتی ہے اور بس مسلمان ہونے کی ایک ہی شکل سامنے آتی ہے۔
اسی تناظر میں اس لنک پر مضمون کو دیکھئے: نائن الیون کے بعد دنیا کس طرح تبدیل ہوئی
میرا جمعہ کی نماز پڑھنے لندن کی ایک بڑی یونیورسٹی کے اسلامک روم میں اتفاق ہوا۔ یہ کمرہ وہاں کی اسلامک سوسائٹی کو دیا گیا تھا تا کہ وہاں مسلمان اپنی مذہبی سرگرمیاں کر سکیں۔ آپ دیکھیں کہ برطانیہ جیسے سیکولر ملک میں، ایک کرسچین یونیورسٹی نے مسلمانوں کا کتنا خیال رکھا ہے۔ وہاں جمعے کا خطبہ ایک اٹھارہ بیس سالہ طالب علم کھڑا دے رہا تھا اور وہ کہتا ہے کہ جو مسلمان مرد ڈاڑھی نہیں رکھتا اس کی دل میں ایمان پستی تک جا چکا ہے!
دوسروں کے دلوں کے حال پر اتنی گہری نظر اور وہ بھی اس عمر میں؟ اس کا یہ جملہ برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں بڑھتا ہوا سلفی اثر ہے۔ یہاں کوئی پاکستانی نژاد مسلمان آپ کو عربوں کی طرح جبّہ پہنے ہوے نظر آئے گا۔ لیکن ایسے ملک میں جہاں کا یہ کلچر نہیں ہے اور نہ ہی پہننے والے کے ماں باپ کا، ایسے کپڑے پہنے کا کیا مقصد ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ یہ علامتی ہے۔ اس کے ذریعے دنیا کو یہ بتانا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔
دوسری طرف حجاب ہے۔ یہ پھر حجاب پر تنقید نہیں کیوں کہ وہ بھی ایک ذاتی عمل ہے۔ سوال پھر یہی پیدا ہوتا ہے کہ یہ حجاب مسلمان عورت کی علامت کب سے بن گیا؟ چہرے پر ایک خاص طرح سے جو کپڑا لپیٹ لے، خاص طور پر مغربی ممالک میں تو لوگ یہ تصوّر کرتے ہیں کہ یہ مسلمان ہو گی۔ فرانس اسی کا دشمن ہو گیا۔
لیکن مسلمان خواتین تو دنیا بھر میں موڈیسٹی کا اظہار مختلف طرح سے کرتی ہیں۔ برصغیر میں دوپٹہ اسی کام کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں وہ مسلم خاتون پردے کو اسلام کا لازمی جزو بھی سمجھتی ہو۔ پردے پر بھی مختلف آراء ہیں اور اس وجہ سے مسلمان خواتین میں بھی اس اعتبار سے تنوع diversity ہو گی۔ کوئی سر کھلا رکھے گا تو کوئی دوپٹہ، کوئی حجاب تو کوئی برقع، کوئی برقع میں چہرہ کھلا رکھے کوئی چھپا، اور کوئی صرف شٹل کاک برقع کو ہی سہی سمجھے گا۔ میں نے رمضان کے مختلف پاکستانی شو بھی دیکھے جس میں ہوسٹ نے عرب خواتین کی طرح حجاب لپیٹا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر مرے ذھن میں پھر وہی سوال اٹھا کے یہ کس بات کی علامت ہے؟
اسلام کچھ تصوّرات اور اعمال کا نام تھا لیکن جب یہ اپنے سیاسی یا پولیٹیکل شکل میں سامنے آتا ہے تو علامات کی شکل اپنا لیتا ہے۔ یہ سیاست مسلمان نہ صرف دوسروں کے ساتھ کر رہے ہیں جہاں ان کا مقصد ان علامات کی بدولت خود کو غیروں سے الگ کرنا ہے، بلکہ یہی سیاست وہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ بھی کر رہے ہیں جہاں وہ زیادہ سے زیادہ علامتی اظہار کے ذریعے اپنی وفا داری اسلام سے ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر اپنے آپ کو اپنے اسلام پر تسلی دینے کا کوئی اور ذریع نہیں تو علامت ہی سہی۔ جب غیر مسلم مسلمانوں کو ان کے تنوع میں نہیں دیکھ پاتے تو یہی علامات ان کے لئے خوف کا ذریع بن جاتی ہیں۔ اور ان میں سے انتہا پسند انہی علامات پر حملہ آور بھی ہو جاتے ہیں۔ مسلمانوں میں یہ تنوع خیالی نہیں بلکہ قدرتی ہے۔ یہ مسلمانوں کو دنیا کو صرف حق اور باطل، دار السلام اور دار الحرب سے آگے دیکھنے میں مدد دیتا ہے اور غیر مسلموں کو اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ مسلمان نہ ایک طرح نظر آتے، نہ ایک طرح سوچتے ہیں اور ایک طرح کے عمل کرتے ہیں- لیکن اس بات کو پہلا مسلمانوں کو قبول کرنا ہو گا-