لارڈ میکالے کا اصل تعلیمی مقالہ : دوسرا حصہ
(اکمل سومرو)
آئیے اب دیکھیں کہ اس راہ عمل کے اختیار کرنے کے خلاف وہ کیا دلائل ہیں جن کی حمایت اصول اور تجربہ دونوں کرتے ہیں۔ مسلسل کہا جاتا ہے کہ ہمیں ملکی عوام کا تعاون لازمی طور پر حاصل کرنا ہے اور اس کی واحد صورت یہ ہے کہ ہم انہیں سنسکرت اور عربی پڑھائیں۔
میں یہ بات کسی طور پر ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ جب ایک اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کی حامل قوم کسی ایسی قوم کی تعلیمی نگرانی کا بیڑا ُٹھائے جو مقابلے میں بے علم ہو، تو متعلمین سے توقع کی جائے کہ وہ قطعیت کے ساتھ وہ نصاب و نظام تعلیم تجویز کریں جو اُن کے معلمین اختیار کریں۔ بایں ہمہ اس موضوع پر مزید کچھ کہنا غیر ضروری ہے کیونکہ یہ امر ناقابل انکار شہادتوں سے پایہءثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ ہم فی الوقت ملکیوں کا تعاون حاصل نہیں کر رہے ہیں۔
یہ بات تو بڑی بُری ہوگی اگر اہم انکی ذہنی صحت کی قیمت پر اُن کے ذہنی ذوق کی تسکین کا سامان کریں۔ لیکن موجودہ حالات میں تو ہم دونوں میں سے کسی کی طرف بھی رجوع نہیں کر رہے ہیں؟ لیکن ہم ان پر ان کی اس تعلیم کے دروازے ہی بند کر رہے ہیں جن کے وہ متمنی ہیں۔ ہم ان پر وہ مضحکہ خیز تعلیم ٹھونس رہے ہیں جو اُنہیں بے حد ناپسند ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہم مجبور ہیں کہ عربی اور سنسکرت کے طالبعلموں کو وظائف دیں درآں حالیکہ انگریزی طلباءہمیں فیس ادا کرنے پر آمادہ ہیں۔ اہل ملک کی اپنی مقدس مادری زبانوں سے محبت و احترام پر مہینا دُنیا بھر کے جذباتی اظہارات بھی ایک غیر جانب دار انسان کی نظروں میں اس غیر مختلف فیہ حقیقت کو بے وزن نہیں کرسکتے کہ ہم اپنی وسیع سلطنت میں کوئی ایک طالبعلم بھی نہین ڈھونڈ سکتے جو وظیفہ لیے بغیر ہم سے یہ زبانیں سیکھنے کے لیے تیار ہو۔
کلکتہ کے مدرسے کا ایک ماہ کا گوشوارہ حسابات میرے سامنے ہے یہ ماہ دسمبر 1833ء ہے عربی کے طلباءکی تعداد 77ہے یہ تمام کے تمام وظیفہ خوار ہیں۔ مجموعی رقم جو ادا کی جارہی ہے 500روپے ماہوار سے زیادہ ہے۔ دوسری جانب حساب کی یہ مد بھی ہے: مبلغ 103روپے جو گذشتہ مئی ، جون اور جولائی میں فارغ شدہ انگریزی طلباء سے وصول ہوئے مجموعی رقم سے منہا کیے جائیں ۔
مجھے کہا جاتا ہے کہ مقامی حالات کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے میں ان اُمور کو بنظر استعجاب دیکھتا ہوں اور یہ کہ ہندستانی طلباءمیں ذاتی اخراجات سے علم حاصل کرنے کا رواج نہیں ہے ۔ اس رائے سے میرے نظریات کو اور پختگی ملی ہے اس سے زیادہ یقینی کوئی بات نہیں ہے کہ دُنیا کے کسی حصے میں بھی لوگوں کو ان کاموں کے لیے کچھ ادا نہیں کرنا پڑتا جہنیں وہ خوشگوار یا نفع بخش سمجھتے ہیں۔
اس سے ہندستان میں مستثنیٰ نہیں ہے۔ یہاں کے لوگوں کو جب بھوک ستائے اور وہ چاول کھائیں تو اُنہیں کچھ بھی ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی اس صورت میں کہ وہ موسم سرما میں اُونی کپڑے پہنیں اُنہیں کوئی وظیفہ دیا جاتا ہے۔ بچے جوگاؤں کے مدرسے میں اُستاد سے حروف تہجی یا تھوڑی بہت ریاضی سیکھتے ہیں انہیں اُستاد کو بھی کچھ ادا نہیں کرنا پڑتا۔ اُستاد کو پڑھانے کی تنخواہ ملتی ہے تو پھر جو لوگ سنسکرت اور عربی زبان پڑھتے ہیں انہیں مالی اعانت دینے کا کیا جواز ہے؟
یہ امر صریحا بلاجواز ہے کیونکہ یہ سب لوگ محسوس کرتے ہیں کہ سنسکرت اور عربی وہ زبانیں ہیں جن کا علم اس مشقت کی تلافی نہیں کرتا جوا ُن کے حصول میں صرف ہوتی ہے۔ ایسے تمام مباحث میں منڈی یا مارکیٹ کی مانگ ہی فیصلہ کُن ہوتی ہے۔ اس خصوص میں اور شہادتوں کی بھی کمی نہیں ہے مزید ضرورت ہو تو وہ بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔
گذشتہ سال سنسکرت کالج کے کئی سابق طلباءنے کمیٹی کو ایک درخواست دی اس میں بیان کیا گیا کہ اُنہوں نے کالج میں دس یا بارہ سال تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے ہندو ادبیات اور علوم میں خاصی دستگاہ پیدا کی ہے۔ انہوں نے اسناد تکمیل بھی حاصل کیں۔ لیکن اس تمام دماغ سوزی کا ثمر کیا ملا؟
ان تمام اسناد فضیلت کے باوجود اُنہوں نے کہا، عزت مآب کمیٹی کی چشم عنائیت کے بغیر اصلاح حال کی کوئی اُمید نہیں۔ انہیں ابنائے وطن کے درخور اعتنا نہیں سمجھا، انہیں اہل وطن کی ہمت افزائی اور اعانت پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ اندریں حالات وہ مستدعی ہیں کہ کمیٹی ازراہ عنائیت کریمانہ فضیلت مآب گورنر جنرل سے سفارش کرے کہ وہ حکومت کے زیر سایہ مناصب پر ان کی تقرریوں کی منظوری عطاءکرے ۔ انہوں نے مزید درخواست کی کہ بے شک یہ مناصب اعلیٰ سطح کے یا اُونچی تنخواہ کے نہ ہوں لیکن ایسے ضرور ہوں جو اُن کے لیے قوت لایموت کا توشہ بہم پہنچا سکیں۔
ہمیں ایک شائستہ زندگی کے لیے وسائل درکار ہین۔ تاکہ ہم اصلاح و ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکیں۔ انہوں نے کہا کہ اور یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ جس حکومت نے ہمیں بچپن سے اپنی آغوش تعلیم و تربیت میں لیا ہے وہ ہماری مد د کرے۔ انہوں نے اپنی درخواست کو اس کی دردمندانہ التجا کے ساتھ ختم کیا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ جس حکومت نے بہ کمال فیاضی انہیں تعلیم دلوائی ہے اس کی ہرگز نیت نہ تھی کہ اُنہیں سند تکمیل کے حصول کے بعد بے یارومددگار چھوڑ دے۔
گورنمنٹ کو معاوضوں کے بارے میں جو درخواستیں پیش کی جاتی ہیں وہ میری نظر سے بھی گزری رہتی ہیں۔ ان تمام درخواستوں پر بشمول بعض انتہائی غیر معقول درخواستوں کے کارروائی اس مفروضہ پر کی جاتی ہے کہ درخواست گزاروں کا کچھ نہ کچھ نقصان ضرور ہوا ہے، ان کا کوئی حق زائل ہوا ہے۔ میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ یہ پہلے درخواست گزار ہیں جہنوں نے مفت تعلیم حاصل کرنے کامعاوضہ مانگا ہے انہیں دس بارہ سال ملکی خزانے سے وظیفہ ملتا رہا اور انہین ادب ، سائنس کے ہتھیاروں سے مسلح کرکے کار زار حیات میں بھیجا گیا۔
یہ لوگ اس تعلیم کو اپنے میں ایسی مضرت سمجھتے ہیں جس کی حکومت کو تلافی کرنی چاہیے۔ یہ ایک ایسی ضرب ہے جس کے مقابلے میں انہیں وہ وظیفہ جو انہیں اس دوران عطا کیا جاتا رہا، ناکافی تلافی تھا۔ میرے نزدیک وہ صحیح موقف پر ہیں انہوں نے اپنی زندگیوں کے بہترین سال ایسے علوم کے حصول میں گزارے جہنوں نے نہ تو اُنکی معاشی ضروریات کو پورا کیا اور نہ سماج میں عزت کی جگہ دلوائی۔ یہ یقینی بات ہے کہ ہم نے جو رقم انہیں بے کار اور مفلوک الحال بنانے کے لیے صرف کی ہے کسی بہتر مصرف کے لیے محفوظ کی جاسکتی تھی۔
یہ بات بھی وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ حکومت اس سے کم خڑچ پر بھی اُنہیں اہل ملک کے لیے بوجھ اور ہمسایوں کے لیے موجب تحقیر بننے کا انتظام کر سکتی تھی۔ لیکن یہ تو سب کچھ ہماری حکمت عملی کا کیا دھرا ہے ہم نے تو اس معرکہءحق و باطل میں الگ تھلگ بھی نہیں رہ سکتے۔ ہم تو اس پر بھی راضی نہ ہوئے کہ ان دیسیوں کو اپنی موروثی عصبیتوں کے اثرات قبول کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیتے۔
یہی نہیں بلکہ ان طبعی مواتعات کے علاوہ جو مشرق میں کسی بھی ٹھوس علمی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں ہم نے ان میں خود پیدا کردہ اُلجھنوں کا اضافہ کر دیا ہے۔ مراعات اور انعامات جو اس دریا دلی سے اشاعت حق و صداقت کے لیے نہ دیے جاسکتے تھے ہم دروگ باف متون اور غلط فکر فلسفے پر پانی کی طرح بہا رہے ہیں۔
ہمارے اس طریق کار سے وہ برائی جنم لے رہی ہے جس سے ہم خائف ہیں وہ مزاحمت پیدا کر رہے ہیں جس کا فی الوقت کوئی وجود نہیں۔ عربی کالج اوسر سنسکرت کالج پر ہم جو کچھ بھی خرچ کر رہے ہیں یہ حق ہی کا سراسر ضیاع نہیں ہے بلکہ غلط کاروں کر پرورش و تربیت کے لیے بے دریغ کی جانے والی اعانت ہے۔ اس مصرف سے ہم ایسی عافیت گاہیں تعمیر کر رہے ہیں جن نہ صر ف بے یارومددگار بے ٹھکانہ لوگ پناہ لیتے ہیں بلکہ ان میں تعصبات اور ذاتی مفادات کے مارے وہ تنگ نظر لوگ بھی پل رہے ہیں جو اپنے ذاتی فائدوں اور گروہی عصبیتوں کے سبب تعلیمی اصلاح کی ہر تجویز کے غلاف ہرزہ درا ہوں گے۔
اگر میری سفارش کردہ تبدیلی کے خلاف ہندستانیوں میں احتجاج ہوا تو اس کا سبب ہمارا نظام طریق کا ر ہوگا۔ عالم مخالفت بلند کرنے والوں کے قائدین وہ لوگ ہوں گے جہنوں نے ہمارے وظائف پر پرورش پائی ہوگی اور جو ہمارے کالجوں کے تربیت یافتہ ہوں گے۔ ہمارے موجودہ طریق کار کا دورانیہ جس قدر طویل ہوگا مخالفت اتنی ہی شدت اختیار کرتی چلی جائے گی۔ انہیں ہر سال ان لوگوں سے تازہ کمک پہنچتی رہے گی جہنیں ہم اپنے خرچ سے تیار کر رہے ہیں۔
اگر ملکی معاشرے کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جئے تو اُن کی طرف سے ہمیں کوئی مشکل درپیش نہیں آئے گی۔ زیر لب شکایتوں کا طومار تو مشرقی مفاد کی جانب سے متوقع ہے جسے ہم سطحی ذرائع سے عالم وجود میں لائے ہیں اور جسے ہم نے پال پوس کر توانا کر دیا ہے۔
اس امر کا ایک اور ثبوت بھی ہے جس سے ظاہر ہوگا کہ اگر ملکیوں کے احساسات کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا گیا تو اس کا وہ نتیجہ ہرگز نہیں ہوگا جس کی پرانے نظام کے حامی حضرات توقع کرتے ہیں۔ کمیٹی نے تقریبا ایک لاکھ روپے عربی اور سنسکرت کی کتابوں کی طباعت کے لیے مختص کیے تھے لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ ان کتابوں کے خریدار ہی نہیں ملے۔ شازو نادر ہی کوئی ایک آدھ کتاب فروخت ہوجاتی ہو۔
تیئس ہزار نسخے جن میں کثرت دو صفحوں اور چار صفحوں کے ہیں لائبریریوں میں بھرے پڑے ہیں یا کمیٹی کے کباڑ خانوں میں ٹُھسے پڑے ہیں ۔ کمیٹی کی تجویز ہے کہ مشرقی ادبیات کے اس وسیع ذخیرے کے ایک حصے سے چھٹکارا پانے کے لیے اسے لوگوں میں بلاقیمت تقسیم کر دیے جائں لیکن اس نسخوں کو تقسیم کرنے کی رفتار سے اُن کی طباعت کی رفتار تیز ہے۔ ہر سال تقریبا 20 ہزار روپے اس لیے خرچ کیے جارہے ہیں کہ اس ردی کے پہلے ہی جمع کردہ بے مصرف انبار میں کچھ ایسے ہی کاغذوں کے نئے ڈھیر اور شامل کر دیے جائیں۔
گزشتہ تین سالوں میں قریب قریب 60 ہزار روپے اسی طریق سے خرچ کیے گئے ہیں۔ عربی اور سنسکرت کی کتابوں کے فروخت سے جو آمدنی حاصل ہوئی ہے وہ 1000روپے بھی نہیں ہے۔ برخلاف ازاں اسی دوران سکول بُک سوسائٹی نے سات یا 8000انگریزی کتابوں کی جلدیں فروخت کی ہیں۔ اس آمدنی سے نہ صرف اخراجات پورے ہوگئے ہیں بلکہ سرمایہ پر بیس فیصد نفع بھی مل رہا ہے۔
اس امر پر بھی بڑا اصرار کیا گیا ہے کہ ہندو قانون سنسکرت کی کتابوں سے اور محمڈن لاءعربی کی کتابوں سے ہی حاصل ہوگا لیکن اس کا مسئلہ زیر بحث سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ ہمیں پارلیمنٹ نے حکم دیا ہے کہ ہم ہندستان کے قوانین کی چھان پھٹک کریں اور اس کی تلخیص مرتب کریں۔ اس مقصد کے لیے ہمیں لاءکمیشن کی امداد بھی مہیاءکی گئی ہے۔ جونہی اس ضابط قانون کا نفاذ عمل میں آئے گا منصفوں اور صدر امینوں کے لیے شاستر اور ہدایہ غیر ضروری ہوجائیں گے۔
مجھے یہ توقع اور پورا بھروسہ ہے کہ جن طلباء نے عربی مدارس اور سنسکرت کالجوں میں داخلہ لے رکھا ہے ان کی تعلیم سے فراغت سے پہلے یہ عظیم کام مکمل ہوجائے گا۔ یہ بات واضع طور پر بعید از قیاس ہے کہ ہم ایک اُبھرتی ہوئی نسل کو ان مخصوص حالات میں تعلیم دیں جنہیں ہم ان کے سن بلوغت تک پہنچنے سے پہلے بدل دینا چاہتے ہیں۔
جاری ہے، تیسرے حصہ کا انتظار کیجئے۔ بشکریہ تعلیمی زاویہ