عصریت contemporaneity کہیں آگے تو نہیں چلی جا رہی؟
از، یاسر چٹھہ
To Whom it May in the Least Concern
دیکھیے، سنیے، سوچیے۔
وقت سے گُریز پا ہونا، ہمیں کوئی نئے قسم کے پیراڈاکسی خر گوش تو نہیں بنا رہا؟ ہم پرانی جیتوں میں حال اور مستقبل کی ہاروں کو پسِ پشت نہیں ڈال سکتے۔
جان رکھیے، اے دل بریں، ہم خود پسِ پشت میں ڈَلتے جاتے ہیں۔ روشنی لیجیے، شعور کشیدیے، پر ٖفراسٹ Frost کو یاد رکھیے کہ میلوں چلنا ہے، اور شام کا خدشہ ہے۔
وہ کیا بَر محل اور کسی خوب صورت دماغ نے کہا ہے کہ علم ہمارے ارد گرد اور ہماری ثقافت میں بکھرا ہوتا ہے۔
ہم محض اُسے چُنتے ہیں۔ راقم کے اس فعل (verb) کو اہلِ عِلمیات (Epistemologists) Foundatiinalist اور anti-Foundationalist کے ہر دو پیمانوں بہ یَک وقت بَرَت سکتے ہیں: یعنی بہ حروفِ دِگر، علم کی موجودگی اور علم کی تعمیر، پرورش، جُڑتِ نو، تشکیل وغیرہ۔
اسی طرح معروف اطالوی ناول نگار امبرٹو ایکو نے راقم کو یہ بات سُجھائی تھی کہ ہر نئی سنجیدہ کتاب دیگر پرانی کتابوں میں پیش کردہ حقائق و شعور سے بہرہ مند ہوتی ہے۔ راقم کے توسط سے ایک روزن پر شامل ایک مضمون سے چند لمحے مکالمہ کیجیے اور دیکھیے:
پیئر بے یارڈ Pierre Bayard تحلیلِ نفسی کے ایک ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ ادبیات کے پروفیسر ہیں۔ آپ کی کتاب How to Talk About Books You Haven’t Read یہ نہیں بتاتی کہ آپ کو کیا پڑھنا چاہیے، اور کیا نہیں پڑھنا چاہیے۔ بَل کہ یہ کتاب بتاتی ہے کہ کسی ایسی کتاب جسے آپ نے پڑھا نا ہو، اس کے متعلق (لوگوں بہ شمُول اپنے طلباء سے) کیسے بات کرنا ہے، بھلے یہ کتاب کس قدر اہمیت کی حامل ہو، کلاسِیک کتاب ہو۔
پیئر بے یارڈ نے اس معاملے کے متعلق بڑی سائنسی سمجھ بوجھ اور شعور کے ساتھ حساب کتاب لگایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی اچھی لائبریری میں ہزاروں لاکھوں کتابیں ہو سکتی ہیں۔ ہم اگر ہر روز بھی ایک کتاب پڑھیں تو ایک برس میں 365 کتابوں سے زیادہ نہیں پڑھ سکتے۔ ایک دھائی میں 3600 کتابیں، اور دس اور 80 سال کی عمر کے بیچ میں 25,200 کتابیں پڑھنے کی سَکت رکھتے ہیں۔ کتابوں کی مجموعی میسر تعداد کے مقابل یہ تعداد کس قدر لغو و بے معنی سا عدد ہے۔ لیکن ان کے ہم وطن اطالوی جنہوں نے مقدور بھر ثانوی تعلیم پائی ہو وہ کسی کتاب کے محض عنوان اور مصنف کا نام جاننے اور اس کے تھوڑے سے تنقیدی سیاق و سباق سے آگاہی کے بَل بُوتے پر اچھی خاصی بحث و تمحیص میں حصہ لینے پر قادر ہوتے ہیں۔
پیئر بے یارڈ اپنی کتاب میں یہ واضح کرتے ہیں کہ جب کبھی آپ وقت اور موقع میسر ہونے پر وہ کتابیں پڑھتے ہیں، جنہیں آپ نے پہلے نظر انداز کیا ہوا تھا تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ تو ان کتابوں کے مشمولات سے اچھے خاصے واقف ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ کتابیں آپ کے احباب میں سے کچھ نے پڑھی ہوتی ہیں؛ انہوں نے اس کے متعلق بات چیت کی ہوتی ہے، ان کتابوں کے اندر سے اقتباس نکالے ہوتے ہیں، اور انہی خیالات کی رو میں سفر بھی کیا ہوتا ہے۔
اگر ہم پرانی کتابیں پڑھ کر حال اور مستقبل کو سمجھنے میں جُتے رہے تو عصری کہانی، شعر، آرٹ، ٹیکنالوجی مخاصمت یا رنجیدہ خاطر مکالمے میں اپنی رجعت پسندی کو ناستلجیا nostalgia کی جنم جنم کی گِھسی چادر سے باہر نہیں دیکھ پائے گا۔
مزید دیکھیے: ہمارے سماج کا بنیادی مسئلہ، زندگی سے منفی رویہ اور قدامت پرستی از، سید کاشف رضا
ناستلجیا: دھرتی واس، یا مقامی باشندے کا نوحہ از، ذوالفقار علی
وہ کتابیں جو نہیں پڑھیں: امبرٹو ایکو کے مضمون سے ماخوذ از، یاسر چٹھہ
پرانی کتابیں وہ شعور بن جانا چاہیے جسے ارد گرد کے ثقافتی بدن و روح میں سرایت ہو جانا چاہیے۔ انہیں عصریت و استقبالی شعور کے رستے تناظری قیدو بننے سے روکنا ضروری ہے۔ ورنہ وقت کی لہر جو کہ منتشر نہیں، ٹوٹی نہیں ہوتی، صرف شاہد سو جاتا ہے، وہ ہم سے آگے نکل جائے گی۔ مشہود متحرک ہے۔ تحرک ہی منظر ہے۔
وقت کی روانی میں خوش رہنا ہو گا۔ اصلی نئی کتابیں پڑھنا ہوں گی۔ سوچ کو جوہڑ، جمالیات کو گزرگان کی جسمانی و تخیّلی اسیری سے رہائی دینا ہوگی۔
وما علینا الا لبلاغ