لوٹے جیسے طعنوں سے وہ اتنا پریشان نہیں ہوتے : مسلم لیگ (ن) کو فی الوقت ”صاف ستھری“ قیادت درکار ہے
نصرت جاوید
تقریباً 25 سے 44 اراکین قومی اسمبلی پر مشتمل ایک گروپ ہے۔ برطانوی دور میں جب اس خطے میں پارلیمان جیسی کوئی شے متعارف ہوئی تھی، اس زمانے سے ان افراد کے خاندان سیاست میں ہیں۔ ان کے”آبائی حلقے“ ہیں۔ یہ راجپوتوں یا جاٹوں کے ”سردار“ وغیرہ بھی ہوا کرتے ہیں۔ ان کی ”سرداری“ کا بھرم برقرار رکھنے کے لیے مگر ضروری ہے کہ ان کے علاقے کا ایس پی ان کا فون فوراََ سنے۔ اپنے حلقے میں مختلف امور سرانجام دینے والے سرکاری افسروں تک رسائی کو یقینی بنانے کی خاطر ہی وہ 2013ء سے موجودہ قومی اسمبلی میں نون کے لاحقے والی پاکستان مسلم لیگ کے لیے مختص نشستوں پر براجمان ہیں۔
میاں محمد نواز شریف سے اگرچہ انہیں بہت شکایات رہیں۔ سابق وزیر اعظم سے ملاقات تقریباََ ناممکن تھی۔ قومی اسمبلی میں بھی وہ تشریف نہیں لاتے تھے۔ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی کبھی انہوں نے باقاعدگی سے طلب نہیں کیا۔ اپنے لیڈر تک رسائی نہ ہونے کے باعث وہ بہت شرمندہ محسوس کرتے تھے۔ انہیں یہ بھی گلہ رہا کہ ان کی سیاسی بصیرت اور تجربے سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ شاید اسی باعث میاں صاحب کو ”پانامہ“ بھگتنا پڑا۔
نواز شریف مگر دل سے یہ سوچتے ہیں کہ 1997ء سے 1999ء تک وہ باقاعدگی سے اسمبلی کے اجلاسوں میں آیا کرتے تھے۔ اگرچہ ان کی حکومت کو دو تہائی اکثریت والا ”بھاری مینڈیٹ“ نصیب تھا، اس کے باوجود اراکین اسمبلی کی بصیرت سے رہ نمائی لینے کے لیے وہ باقاعدگی سے پارلیمانی اجلاس بھی منعقد کرتے رہے۔ مئی 1998ءطمیں انہوں نے ایٹمی دھماکے بھی کیے۔ لاہور-اسلام آباد موٹروے کو پشاور تک پہنچایا۔ وہ جہاں جاتے ”قدم بڑھاﺅ میاں صاحب-ہم تمہارے ساتھ ہیں“ کے نعروں کے ساتھ ان کا خیرمقدم کیا جاتا۔
بارہ اکتوبر 1999ء کو انہوں نے مگر ”قدم بڑھایا“ تو اپنے اپنے حلقوں میں راجپوتوں اور جاٹوں کے ”سردار“ دائیں بائیں ہوگئے۔ نواز شریف کی اٹک میں نظر بندی کی داستان دُنیا کے سامنے لانے کے لیے بیگم نوازشریف کو میدان میں آنا پڑا۔ مشرف انتظامیہ نے بیگم کلثوم نواز کو عوامی رابطے سے روکنے کے لیے ایک بار ان کی کار جس میں وہ خود موجود تھیں، کرین سے اٹھائی اور اسے دو گھنٹوں تک ہوا میں معلق رکھا۔ میاں صاحب کو ”قدم بڑھاﺅ“ والے مشورے دینے والے مشکل کی اس گھڑی میں نواز شریف کے کوئی کام نہ آئے۔
بالآخر امریکی صدر کلنٹن اور سعودی قیادت سے ذاتی تعلقات کو بروئے کار لاکر نواز شریف کی جلاوطنی کا بندوبست ہوا۔ اسی جلاوطنی کے بعد رانوں، چودھریوں اور سرداروں کی اکثریت میاں اظہر کی بنائی اور چودھری شجاعت حسین کی چلائی ق کے لاحقے والی پاکستان مسلم لیگ میں چلے گئے۔
کئی برس جلاوطن رہنے کے باوجود نواز شریف نے ذاتی کوششوں سے خود کو ملکی سیاست میں ایک اہم کردار بنائے رکھا۔ ان کی محنت کا صلہ بالآخر 2008ء میں دیکھنے کو ملا۔ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی ”بادشاہی“ ان کے چھوٹے بھائی کو نصیب ہوئی۔ وہ اگرچہ خود کو ”خادم اعلیٰ“ کہتے ہیں اور 2008ء سے آج تک پنجاب کو ”گڈ گورننس“ کی علامت بنائے ہوئے ہیں۔ ہماری تاریخ میں پہلی بار ”شیرپنجاب“ کا لقب پانے والے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو بھی اس صوبے پر اتنی طویل حکمرانی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ 2013ء میں انتخابات ہوئے تو نواز شریف پاکستان کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ ”تاریخ“ بنادی۔
اس کے بعد سے ”تاریخ“ مگر بنتی ہی چلی جارہی ہے۔ 2014ء کا دھرنا، اپریل 2016ء کا پانامہ، اسی برس کے نومبر میں اسلام آباد کا لاک ڈاﺅن اور پھر ایک وزیر اعظم کی گریڈ 19 سے 21 تک کے افسروں پر مشتمل کمیٹی کے سامنے مجرموں کی طرح پیشی۔ ان سب کی بدولت بالآخر نواز شریف کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں براہِ راست نااہلی کی تاریخ بھی بن گئی۔
اپنی نااہلی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کی بجائے نواز شریف نے اسلام آباد سے بذریعہ جی ٹی روڈ ”گھر واپسی“ کا فیصلہ کیا۔ شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان نے انہیں اس adventure سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ وہ مگر بضد رہے۔ نون کے لاحقے والی پاکستان مسلم لیگ سے جڑے اراکین اسمبلی جی ٹی روڈ کے اس سفر سے یوں بھی گھبرا گئے کہ دنیا کے سامنے یہ بات آئی کہ مسلم لیگ کے روایتی ووٹروں کی اکثریت یہ محسوس کرتی ہے کہ نواز شریف کے ساتھ انصاف نہیں ”زیادتی“ ہوئی ہے۔
زیادتی والے احساس کا مزید اثبات حال ہی میں لاہور کے NA-120 میں ہوئے ضمنی انتخاب کے نتائج کی صورت ہمارے سامنے آیا۔ مریم نواز شریف نے اپنی والدہ اور والد کی عدم موجودگی کے بعد اس حلقے میں انتخابی مہم چلائی تو ان کے ”خادم اعلیٰ“ چچا نے ان کی ہرگز سرپرستی نہیں فرمائی۔ انتخابی جوڑ توڑ کے حوالے سے افلاطون مشہور ہوئے ان کے چہیتے کزن حمزہ شہباز بھی ان کی معاونت کو موجود نہیں تھے۔ مریم نواز کے چودھری نثار جیسے جید و جہاندیدہ ”انکل“ اس انتخابی مہم کے دوران ”بچی“ کی سیاسی بصیرت اور مستقبل پر سوالات اٹھاتے رہے۔ مریم نواز نے ان سب مشکلات کے باوجود NA-120 کا معرکہ جیت لیا۔
تقریباََ 25 سے 44 اراکین قومی اسمبلی پر مشتمل ایک گروپ اس جیت کے بعد مزید پریشان ہوگیا ہے۔ انہیں یقین ہے کہ اس جیت کے بعد شریف خاندان کو احتساب عدالتوں کے ذریعے ”عبرت کا نشان“ بنایا جائے گا۔ بذاتِ خود مشکلات میں گِھرا نواز شریف ایسے اراکین کی آئندہ انتخابات میں کوئی مدد نہیں کر پائے گا۔ 25 سے 44 اراکین پر مشتمل یہ گروپ مگر اس وقت نون کے لاحقے والی پاکستان مسلم لیگ سے علیحدگی کا اعلان کردے تو ”لوٹا“ کہلائے گا۔
سیاست دانوں کی ہڈی بڑی سخت اور کھال بہت موٹی ہوتی ہے۔ لوٹے جیسے طعنوں سے وہ اتنا پریشان نہیں ہوتے ۔ ان کے لیے اہم بات یہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں ”اپنے حلقوں“ سے کامیاب ہوکر قومی اسمبلی میں کیسے پہنچا جائے۔ ان کی مشکل آسان ہوجاتی اگر عمران خان صاحب کی بنائی تحریک انصاف میں انہیں کھپانے کی گنجائش موجود ہوتی۔ تحریک انصاف مگر electables کے حوالے سے پہلے ہی over crowded ہوچکی ہے۔ اس میں شمولیت آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کا ٹکٹ ملنے کی ضمانت نہیں رہی۔ خواہش اب یہ ہے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
نون کے لاحقے والی پاکستان مسلم لیگ کو فی الوقت ”صاف ستھری“ قیادت درکار ہے۔ سیاسی تجربے اور بصیرت سے مالا مال یہ قیادت بہت شدت کے ساتھ یہ ”اصولی موقف“ اپنا سکتی ہے کہ نواز شریف کو ”قومی اداروں“ سے ”پنگا“ نہیں لینا چاہیے۔ وطنِ عزیز کی سالمیت کو ویسے بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ ”قومی یکجہتی“ وقت کا تقاضا ہے اور شدید ضرورت ہے کسی باکردار، بلندآہنگ مگر بردبار لیڈر کی۔ تاریخ کا حسین اتفاق ہے کہ چودھری نثار علی خان کی صورت وہ قیادت ہمارے سامنے ابھررہی ہے۔ 23سے 44 اراکین قومی اسمبلی پر مشتمل گروپ اب متذبذب نہیں رہے گا۔ اس کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔
اس گروپ کے ہوتے ہوئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ہمیشہ پریشان رہیں گے۔ وزیر اعظم موجودہ قومی اسمبلی کی آئینی مدت ہر صورت مکمل کرنے پر بضد رہے تو بالآخر سو پیاز اور سو جوتوں والی ذلت بھی بھگتیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ نیویارک سے وطن لوٹیں تو آئندہ انتخاب کی راہ ہموار کرنے کے لیے موجودہ قومی اسمبلی کی تحلیل کا بندوبست فرمائیں۔